باب : اس شخص کے متعلق جس نے جمرہ عقبہ کی رمی کی تو بیت اللہ کو اپنی بائیں طرف کیا
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: Keeping the House (Ka'bah) the left on doing Rami of the Jamrat-ul-'Aqaba)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1749.
حضرت عبدالرحمان بن یزید سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ساتھ حج کیا تو دیکھا کہ انھوں نے بیت اللہ کو بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب کرکے جمرہ کبریٰ کو سات کنکریاں ماریں، پھر فرمایا : یہ اس ستودہ صفات ﷺ کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جن پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی۔
تشریح:
(1) جمرۂ عقبہ کو جمرۂ کبریٰ بھی کہتے ہیں۔ منیٰ میں تین جمرات ہیں جنہیں رمی کی جاتی ہے۔ ان تینوں مقامات پر بطور نشانات مینارے بنا دیے گئے ہیں۔ انہیں مقررہ شرائط کے ساتھ کنکریاں مار کر گویا شیطان مردود کو رجم کیا جاتا ہے اور اس بات کا عہد کیا جاتا ہے کہ ہم آئندہ زندگی میں شیطان مردود کی مخالفت اور احکام الٰہی کی اطاعت میں پیش پیش رہیں گے۔ (2) جمرۂ عقبہ مکہ کی طرف منیٰ کی آخری حد پر واقع ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے رمی کرتے وقت مکہ مکرمہ کو بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب کیا تھا۔ رمی کرنے کا مسنون طریقہ یہی ہے، البتہ جائز ہے کہ مکہ مکرمہ کو پچھلی جانب اور منیٰ کو آگے کر کے رمی کی جائے۔ اسی طرح بیت اللہ کی طرف منہ کر کے اور منیٰ کو اپنی پچھلی جانب کر کے بھی رمی کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی مدنظر رہے کہ رمی کرنا ضروری ہے، وہاں کنکر رکھ دینے سے کام نہیں چلے گا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1701
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1749
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1749
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1749
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عبدالرحمان بن یزید سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ساتھ حج کیا تو دیکھا کہ انھوں نے بیت اللہ کو بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب کرکے جمرہ کبریٰ کو سات کنکریاں ماریں، پھر فرمایا : یہ اس ستودہ صفات ﷺ کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جن پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) جمرۂ عقبہ کو جمرۂ کبریٰ بھی کہتے ہیں۔ منیٰ میں تین جمرات ہیں جنہیں رمی کی جاتی ہے۔ ان تینوں مقامات پر بطور نشانات مینارے بنا دیے گئے ہیں۔ انہیں مقررہ شرائط کے ساتھ کنکریاں مار کر گویا شیطان مردود کو رجم کیا جاتا ہے اور اس بات کا عہد کیا جاتا ہے کہ ہم آئندہ زندگی میں شیطان مردود کی مخالفت اور احکام الٰہی کی اطاعت میں پیش پیش رہیں گے۔ (2) جمرۂ عقبہ مکہ کی طرف منیٰ کی آخری حد پر واقع ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے رمی کرتے وقت مکہ مکرمہ کو بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب کیا تھا۔ رمی کرنے کا مسنون طریقہ یہی ہے، البتہ جائز ہے کہ مکہ مکرمہ کو پچھلی جانب اور منیٰ کو آگے کر کے رمی کی جائے۔ اسی طرح بیت اللہ کی طرف منہ کر کے اور منیٰ کو اپنی پچھلی جانب کر کے بھی رمی کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی مدنظر رہے کہ رمی کرنا ضروری ہے، وہاں کنکر رکھ دینے سے کام نہیں چلے گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبدالرحمن بن یزید نے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ساتھ حج کیا انہوں نے دیکھا جمرہ عقبہ کی سات کنکریوں کے ساتھ رمی کے وقت آپ نے بیت اللہ کو تو اپنی بائیں طرف اور منی کو دائیں طرف کر لیا پھر فرمایا کہ یہی ان کا بھی مقام تھا جن پر سورۃ بقرہ نازل ہوئی تھی یعنی نبی کریم ﷺ۔
حدیث حاشیہ:
قسطلانی نے کہا کہ یہ دسویں تاریخ کی رمی ہے گیارہویں بارہویں تاریخ کو اوپر سے مارنا چاہئے اور جمرہ عقبہ جس کو آج کل عوام بڑا شیطان کہتے ہیں چار باتوں میں اور جمرات سے بہتر ہے، ایک تو یہ کہ یوم النحر کو فقط اسی کی رمی ہے دوسرے یہ کہ اس کی رمی چاشت کے وقت ہے، تیسرے یہ کہ نشیب میں اس کو مارنا ہے، چوتھے یہ کہ دعا وغیرہ کے لیے اس کے پاس نہیں ٹھہرنا چاہئے اور دوسرے جمروں کے پاس رمی کے بعد ٹھہر کر دعا کرنا مستحب ہے۔ جمرات کی رمی کرنا یہ اس وقت کی یادگار ہے جب کہ حضرت اسماعیل ؑ کو بہکانے کے لیے ان مقامات پر شیطان ظاہر ہوا تھا اور حضرت اسماعیل ؑ کو ارشاد الٰہی کی تعمیل سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ ان تینوں مقامات پر بطور نشان پتھروں کے مینارے سے بنا دئے گئے ہیں اور ان ہی پرمقررہ شرائط کے ساتھ کنکریاں مار کر گویا شیطان مردود کو رجم کیا جاتا ہے اور حاجی گویا اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ شیطان مردود کی مخالفت اور ارشاد الٰہی کی اطاعت میں پیش پیش رہے گا اور تاعمر اس یادگار کو فراموش نہ کرکے اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا سچا پیرو کار ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔ جمرہ عقبہ کو جمرہ کبریٰ بھی کہتے ہیں اور یہ جہت مکہ میں منی کی آخری حد پر واقع ہے۔ آپ ﷺ نے ہجرت کے لیے انصار سے اسی جگہ بیعت لی تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ ہو کر یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اللهم اجعله حجا مبروراً و ذنبا مغفوراً۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur-Rahman bin Yazid (RA): I performed Hajj with Ibn Masud , and saw him doing Rami of the big Jamra (Jamrat-ul-Aqabah) with seven small pebbles, keeping the Ka’bah on his left side and Mina on his right. He then said, "This is the place where the one on whom Surat-al-Baqara was revealed (i.e. Allah's Apostle) (ﷺ) stood."