باب : اس بیان میں کہ (حاجی کو ) کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہنا چاہئے
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To say 'Allahu Akbar' on throwing every pebble)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بھی نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے
1750.
حضرت اعمش کہتے ہیں: میں نے حجاج بن یوسف کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا: وہ سورت جس میں بقرہ کا ذکر ہے، وہ سورت جس میں آل عمران کا ذکر ہے اور وہ سورت جس میں نساء کا ذکر ہے۔ اعمش نے کہا: جب میں نے اس بات کاابراہیم نخعی سے ذکر کیا تو انھوں نے کہا: مجھے عبدالرحمان بن یزید نے خبر دی، وہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ہمراہ تھے۔ جب انھوں نے جمرہ عقبہ کو رمی کی تو وادی کے نشیب میں اترے حتیٰ کہ درخت کے بالمقابل ہوئے۔ اس کے سامنے کھڑے ہوکر سات کنکریاں ماریں۔ ہر کنکری مارتے وقت اللہ أکبر کہتے تھے۔ پھرکہا: اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے!اس جگہ سے اس ذات گرامی نے کنکریاں ماری تھیں جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رمی کرتے وقت ہر کنکری پر الله أكبر کہا جائے۔ حضرت علی ؓ رمی کرتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے: (اللهم اهدني بالهدی وقني بالتقویٰ، واجعل الآخرة خيرا لي من الأولیٰ) اس بات پر اجماع ہے کہ اگر رمی کرتے وقت الله أكبر نہ کہا جائے تو رمی ہو جائے گی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ جب رمی سے فارغ ہوتے تو یہ دعا پڑھتے تھے: (اللهم اجلعه حجا مبرورا وذنبا مغفورا وسعيا مشكورا)(عمدةالقاري:377/7) (2) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے خصوصیت کے ساتھ سورۂ بقرہ کا ذکر فرمایا کیونکہ اس میں احکام حج تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور اس میں تنبیہ ہے کہ احکام حج توقیفی ہیں۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے بتایا اسی طرح ان کی ادائیگی ضروری ہے۔ کسی کو اس میں ترمیم و اضافے کی اجازت نہیں ہے۔ (فتح الباري:735/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1702
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1750
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1750
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1750
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی یہ روایت حدیث: 1751 کے تحت متصل سند سے بیان کی ہے۔ اس روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہتے تھے، پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
اس کو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بھی نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے
حدیث ترجمہ:
حضرت اعمش کہتے ہیں: میں نے حجاج بن یوسف کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا: وہ سورت جس میں بقرہ کا ذکر ہے، وہ سورت جس میں آل عمران کا ذکر ہے اور وہ سورت جس میں نساء کا ذکر ہے۔ اعمش نے کہا: جب میں نے اس بات کاابراہیم نخعی سے ذکر کیا تو انھوں نے کہا: مجھے عبدالرحمان بن یزید نے خبر دی، وہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ہمراہ تھے۔ جب انھوں نے جمرہ عقبہ کو رمی کی تو وادی کے نشیب میں اترے حتیٰ کہ درخت کے بالمقابل ہوئے۔ اس کے سامنے کھڑے ہوکر سات کنکریاں ماریں۔ ہر کنکری مارتے وقت اللہ أکبر کہتے تھے۔ پھرکہا: اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے!اس جگہ سے اس ذات گرامی نے کنکریاں ماری تھیں جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رمی کرتے وقت ہر کنکری پر الله أكبر کہا جائے۔ حضرت علی ؓ رمی کرتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے: (اللهم اهدني بالهدی وقني بالتقویٰ، واجعل الآخرة خيرا لي من الأولیٰ) اس بات پر اجماع ہے کہ اگر رمی کرتے وقت الله أكبر نہ کہا جائے تو رمی ہو جائے گی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ جب رمی سے فارغ ہوتے تو یہ دعا پڑھتے تھے: (اللهم اجلعه حجا مبرورا وذنبا مغفورا وسعيا مشكورا)(عمدةالقاري:377/7) (2) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے خصوصیت کے ساتھ سورۂ بقرہ کا ذکر فرمایا کیونکہ اس میں احکام حج تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور اس میں تنبیہ ہے کہ احکام حج توقیفی ہیں۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے بتایا اسی طرح ان کی ادائیگی ضروری ہے۔ کسی کو اس میں ترمیم و اضافے کی اجازت نہیں ہے۔ (فتح الباري:735/3)
ترجمۃ الباب:
اس بات کو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے نبی کریمﷺ سے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد مصری نے بیان کیا، ان سے سلیمان اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے حجاج سے سنا، وہ منبر پر سورتوں کا یوں نام لے رہا تھا وہ سورہ جس میں بقرہ (گائے ) کا ذکر آیا ہے، وہ سورہ جس میں آل عمران کا ذکر آیا ہے، وہ سورہ جس میں نساء(عورتوں ) کا ذکر آیا ہے، اعمش نے کہا میں نے اس کا ذکر حضرت ابراہیم نخعی ؓ سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن یزید نے بیان کیا کہ جب حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی تو وہ ان کے ساتھ تھے، اس وقت وہ وادی کے نشیب میں اتر گئے اور جب درخت کے (جو اس وقت وہاں پر تھا ) برابر نیچے اس کے سامنے ہو کر سات کنکریوں سے رمی کی ہر کنکری کے ساتھ اللہ أکبر کہتے جاتے تھے۔ پھر فرمایا قسم ہے اس کی کہ جس ذات کے سوا کوئی معبود نہیں یہیں وہ ذات بھی کھڑی ہوئی تھی جس پر سورۃ بقرہ نازل ہوئی ﷺ۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہواکہ کنکری جداجدا مارنی چاہئے اور ہر ایک کے مارتے وقت اللہ أکبر کہنا چاہئے۔ روایت میں حجاج بن یوسف کا ذکر ہے کہ وہ سورتوں کے مجوزہ ناموں کا استعمال چھوڑ کر اضافی ناموں سے ان کا ذکر کرتا تھا جیسا کہ روایت مذکور ہے۔ اس پر حضرت ابراہیم نخعی نے حضرت عبداللہ بن مسعود کی اس روایت کا ذکر کیا کہ وہ سورتوں کے مجوزہ نام ہی لیتے تھے اور یہی ہونا چاہئے اس بارے میں حجاج کا خیال درست نہ تھا، امت اسلامیہ میں یہ شخص سفاک بے رحم ظالم کے نام سے مشہور ہے کہ اس نے زندگی میں خدا جانے کتنے بے گناہوں کا خون ناحق زمین کے گردن پر بہایا ہے، باب اورحدیث میں مطابقت ظاہر ہے قال ابن المنیر خص عبداللہ سورة البقرة بالذکر لأنها التي ذکراللہ فیها الرمي فأشار إلی أن فعله صلی اللہ علیه وسلم مبین لمراد کتاب اللہ تعالیٰ الخ۔(فتح الباري)یعنی ابن منیر نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے خصوصیت کے ساتھ سورۃ بقرہ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اس میں اللہ نے رمی کا ذکر فرمایا ہے پس آپ نے اشارہ کیا کہ نبی ﷺ نے اپنے عمل سے کتاب اللہ کی مراد کی تفسیر پیش کردی گویا یہ بتلایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں آنحضرت ﷺ پر احکام مناسک کا نزول ہوا۔ اس میں یہ تنبیہ ہے کہ احکام حج توقیفی ہیں جس طرح شارع ؑ نے ان کو بتلایا، اسی طرح ان کی ادائیگی لازم ہے کمی بیشی کی کسی کو مجال نہیں ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-A`mash: I heard Al-Hajjaj saying on the pulpit, "The Sura in which Al-Baqara (the cow) is mentioned and the Sura in which the family of `Imran is mentioned and the Sura in which the women (An-Nisa) is mentioned." I mentioned this to Ibrahim, and he said, `Abdur-Rahman bin Yazid told me, 'I was with Ibn Mas`ud, when he did the Rami of the Jamrat-ul-Aqaba. He went down the middle of the valley, and when he came near the tree (which was near the Jamra) he stood opposite to it and threw seven small pebbles and said: 'Allahu-Akbar' on throwing every pebble.' Then he said, 'By Him, except Whom none has the right to be worshipped, here (at this place) stood the one on whom Surat-al-Baqra was revealed (i.e. Allah's Messenger (ﷺ)) ' ".