باب : رمی جمار کے بعد خوشبو لگانا اور طواف الزیارۃ سے پہلے سر منڈانا
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To perfume after Rami and to have head shaved before Tawaf-al-Ifada)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1754.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے رسول اللہ ﷺ کو خوشبو لگائی جبکہ آپ نے احرام باندھنے کا ارادہ فرمایا اور اسی طرح جب آپ نے طواف زیارت سے پہلے احرام کھولا اور آپ احرام کی پابندیوں سے آزاد ہوئے۔ حضرت عائشہ ؓ نے یہ حدیث بیان کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیے۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں حين أحرم سے مراد احرام باندھنے کا ارادہ کرنا ہے اور حين أحل سے مراد احرام سے حلال ہو جانا ہے کیونکہ دوران احرام میں خوشبو کا استعمال منع ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے مذکورہ عنوان اس طرح ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مزدلفہ سے واپس منیٰ لوٹے تو حضرت عائشہ ؓ آپ کے ہمراہ نہ تھیں اور یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمرۂ عقبہ کو رمی کرنے تک سوار رہے۔ (سنن النسائي، مناسك الحج، حدیث:3063) اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے آپ کو رمی کے بعد خوشبو لگائی ہو گی۔ جمہور علماء کا یہی موقف ہے کہ رمی اور حلق کے بعد خوشبو وغیرہ استعمال کی جا سکتی ہے، البتہ عورتوں سے صحبت کرنا درست نہیں، وہ طواف زیارت کے بعد جائز ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب تم جمرۂ عقبہ کی رمی سے فارغ ہو جاؤ تو تمہارے لیے عورتوں کے علاوہ ہر چیز حلال ہے۔ (سنن النسائي، مناسك الحج، حدیث:3086) لیکن مذکورہ اجازت مشروط ہے کہ شام سے پہلے پہلے طواف زیارت کر لیا جائے۔ اگر شام تک طواف نہ کر سکے تو احرام کی پابندیاں لوٹ آئیں گی جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ دس ذوالحجہ کو شام کے وقت جب رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میرے پاس حضرت وہب بن زمعہ قمیص پہنے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ابو عبداللہ! کیا تو نے طواف افاضہ کر لیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں طواف افاضہ نہیں کر سکا۔ آپ نے فرمایا: ’’تو پھر اپنی قمیص اتار دو۔‘‘ (وہ فرماتے ہیں کہ) میں نے جب قمیص اتار دی تو آپ نے فرمایا: ’’اس دن تمہیں رخصت دی گئی ہے کہ جمرۂ عقبہ کی رمی کے بعد تم عورتوں کے علاوہ ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہو لیکن اگر تم شام سے پہلے پہلے طواف افاضہ نہ کر سکو تو احرام کی پابندیاں تم پر لوٹ آئیں گی، یہاں تک کہ تم طواف افاضہ کر لو۔‘‘(سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1999) علامہ البانی ؒ نے اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے۔ (مناسك الحج والعمرة للألباني رحمه اللہ، حدیث:34)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1706
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1754
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1754
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1754
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری نے باب کی حدیث سے یہ مضمون اس طرح پر نکالا کہ دوسری روایت سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مزدلفہ سے لوٹے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے ساتھ نہ تھیں اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک سوار رہے۔ پس لامحالہ انہوں نے رمی کے بعد آپ کے خوشبو لگائی ہوگی۔ جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ رمی اور حلق کے بعد خوشبو وغیرہ اور سلے ہوئے کپڑے درست ہو جاتے ہیں صرف عورتوں سے صحبت کرنا درست نہیں ہوتا، طواف الزیارۃ کے بعد وہ بھی درست ہوجاتا ہے۔ بیہقی نے یہ مضمون مرفوعاً روایت کیا ہے گو وہ حدیث ضعیف ہے اور نسائی کی حدیث یوں ہے ((اذا رمیتم الجمرۃ فقد حل لکم الا النساء)) یعنی جب تم جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ ہو گئے تو اب عورتوں کے سوا ہر چیز تمہارے لیے حلال ہوگئی۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے رسول اللہ ﷺ کو خوشبو لگائی جبکہ آپ نے احرام باندھنے کا ارادہ فرمایا اور اسی طرح جب آپ نے طواف زیارت سے پہلے احرام کھولا اور آپ احرام کی پابندیوں سے آزاد ہوئے۔ حضرت عائشہ ؓ نے یہ حدیث بیان کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں حين أحرم سے مراد احرام باندھنے کا ارادہ کرنا ہے اور حين أحل سے مراد احرام سے حلال ہو جانا ہے کیونکہ دوران احرام میں خوشبو کا استعمال منع ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے مذکورہ عنوان اس طرح ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مزدلفہ سے واپس منیٰ لوٹے تو حضرت عائشہ ؓ آپ کے ہمراہ نہ تھیں اور یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمرۂ عقبہ کو رمی کرنے تک سوار رہے۔ (سنن النسائي، مناسك الحج، حدیث:3063) اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے آپ کو رمی کے بعد خوشبو لگائی ہو گی۔ جمہور علماء کا یہی موقف ہے کہ رمی اور حلق کے بعد خوشبو وغیرہ استعمال کی جا سکتی ہے، البتہ عورتوں سے صحبت کرنا درست نہیں، وہ طواف زیارت کے بعد جائز ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب تم جمرۂ عقبہ کی رمی سے فارغ ہو جاؤ تو تمہارے لیے عورتوں کے علاوہ ہر چیز حلال ہے۔ (سنن النسائي، مناسك الحج، حدیث:3086) لیکن مذکورہ اجازت مشروط ہے کہ شام سے پہلے پہلے طواف زیارت کر لیا جائے۔ اگر شام تک طواف نہ کر سکے تو احرام کی پابندیاں لوٹ آئیں گی جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ دس ذوالحجہ کو شام کے وقت جب رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میرے پاس حضرت وہب بن زمعہ قمیص پہنے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ابو عبداللہ! کیا تو نے طواف افاضہ کر لیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں طواف افاضہ نہیں کر سکا۔ آپ نے فرمایا: ’’تو پھر اپنی قمیص اتار دو۔‘‘ (وہ فرماتے ہیں کہ) میں نے جب قمیص اتار دی تو آپ نے فرمایا: ’’اس دن تمہیں رخصت دی گئی ہے کہ جمرۂ عقبہ کی رمی کے بعد تم عورتوں کے علاوہ ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہو لیکن اگر تم شام سے پہلے پہلے طواف افاضہ نہ کر سکو تو احرام کی پابندیاں تم پر لوٹ آئیں گی، یہاں تک کہ تم طواف افاضہ کر لو۔‘‘(سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1999) علامہ البانی ؒ نے اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے۔ (مناسك الحج والعمرة للألباني رحمه اللہ، حدیث:34)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن قاسم نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے سنا، وہ فرماتی تھیں کہ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے رسول اللہ ﷺ کے، جب آپ نے احرام باندھنا چاہا، خوشبو لگائی تھی اس طرح کھولتے وقت بھی جب آپ نے طواف الزیارۃ سے پہلے احرام کھولنا چاہا تھا (آپ نے ہاتھ پھیلا کر خوشبو لگانے کی کیفیت بتائی )
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur-Rahman bin Al-Qasim (RA): I heard my father who was the best man of his age, saying, "I heard 'Aisha (RA) saying, 'I perfumed Allah's Apostle (ﷺ) with my own hands before finishing his Ihram while yet he has not performed Tawaf-al-Ifada.' She spread her hands (while saying so.)"