Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: If a woman gets her menses after Tawaf-al-Ifada)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1757.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ بنت حیی ؓ کو حیض آگیا تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کاذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیایہ ہمیں رو ک لے گی؟‘‘ انھوں نے عرض کیا کہ انھوں نے طواف زیارت کرلیاہے۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی سفر کا آغاز کرو۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1709
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1757
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1757
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1757
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ بنت حیی ؓ کو حیض آگیا تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کاذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیایہ ہمیں رو ک لے گی؟‘‘ انھوں نے عرض کیا کہ انھوں نے طواف زیارت کرلیاہے۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی سفر کا آغاز کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں عبدالرحمن بن قاسم نے، انہیں ان کے والد نے اور انہیں حضرت عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ صفیہ بنت حی ؓ (حجۃ الوداع کے موقع پر ) حائضہ ہو گئیں تو میں نے اس کا ذکر آنحضرت ﷺ سے کیا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تو یہ ہمیں روکیں گیں، لوگوں نے کہا کہ انہوں نے طواف افاضہ کر لیا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر کوئی فکر نہیں۔
حدیث حاشیہ:
یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ایک روایت میں پہلے گزر چکا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت صفیہ ؓ سے صحبت کرنی چاہی تو حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ وہ حائضہ ہیں پس اگر آپ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ طواف الزیارۃ کرچکی ہیں، جیسے اس روایت سے نکلتا ہے تو پھر آپ ﷺ نے ان سے صحبت کرنے کا ارادہ کیوں کر کیا اور اس کا جواب یہ ہے کہ صحبت کا قصد کرتے وقت یہ سمجھے ہوں گے کہ اور بیویوں کے ساتھ وہ بھی طواف الزیارۃ کرچکی ہیں کیوں کہ آپ ﷺ نے سب بیویوں کو طواف کا اذن دیا تھا اور چلتے وقت آپ ﷺ کو اس کا خیال نہ رہا یا آپ کو یہ خیال آیا کہ شاید طواف الزیارۃ سے پہلے ان کو حیض آیا تھا تو انہوں نے طواف الزیارہ بھی نہیں کیا۔ ( وحیدی ) بہرحال اس صورت میں ہر دو احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے، احادیث صحیحہ مختلفہ میں بایں صورت تطبیق دنیا ہی مناسب ہے نہ کہ ان کو رد کرنے کی کوشش کرنا جیسا کہ آج کل منکرین احادیث دستور سے اپنی ناقص عقل کے تحت احادیث کو پرکھنا چاہتے ہیں، ان کی عقلوں پر خدا کی مار ہو کہ یہ کلام رسول ﷺ کی گہرائیوں کوسمجھنے سے اپنے کوقاصر پاکر ضلالت و غوایت کا یہ خطرناک راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس شک و شبہ کے لیے ایک ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں ہے کہ احادیث صحیحہ کا انکار کرنا، قرآن مجید کا انکار کرنا ہے، بلکہ اسلام اور اس جامع شریعت کا انکار کرنا ہے، اس حقیقت کے بعد منکرین حدیث کو اگر دائرہ اسلام اور ز مرہ اہل ایمان سے قطعاً خارج قرار دیا جائے تو یہ فیصلہ عین حق بجانب ہے۔ واللہ علی مانقول وکیل۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Safiya bint Huyay, the wife of the Prophet (ﷺ) got her menses, and Allah's Apostle (ﷺ) was informed of that. He said, "Would she delay us?" The people said, "She has already performed Tawaf-al-Ifada." He said, "Therefore she will not (delay us)."