Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: If a woman gets her menses after Tawaf-al-Ifada)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1761.
راوی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حائضہ عورت کو سفر کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن میں نے اس کے بعد ان سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے ایسی عورتوں کوسفر کرنے کی اجازت دی ہے۔
تشریح:
1۔حضرت عمر، ابن عمر اور حضرت زید بن ثابت ؓ کا یہ موقف تھا کہ حائضہ عورت کے لیے بھی طواف وداع کرنا ضروری ہے لیکن حضرت ابن عمر اور زید بن ثابت ؓ نے اس موقف سے رجوع کر لیا، البتہ مذکورہ حدیث کا علم نہ ہونے کی وجہ سے حضرت عمر ؓ کا اپنے موقف سے رجوع ثابت نہیں۔ بہرحال طواف وداع واجب ہے لیکن حائضہ عورت سے ساقط ہے اور اس پر کوئی فدیہ وغیرہ بھی نہیں ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے قبل ازیں کتاب الحیض میں بھی ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا: (باب المرأة تحيض بعد الإفاضة)’’اس عورت کا بیان جسے طواف افاضہ کے بعد حیض آ جائے۔‘‘ تمام صحابۂ کرام ؓ کا موقف تھا کہ جب کسی عورت نے حیض سے قبل طواف افاضہ کر لیا ہو تو اسے طواف وداع کی ضرورت نہیں، وہ اگر چاہے تو اپنے وطن واپس آ سکتی ہے، البتہ حضرت عمر ؓ اسے اجازت نہیں دیتے تھے، چنانچہ حضرت حارث ثقفی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر ؓ سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: طواف وداع کر کے واپس جائے۔ حضرت حارث ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اسی طرح فرمایا تھا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:2004) لیکن حدیث عائشہ اور حدیث ام سلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ حائضہ عورت کے لیے طواف وداع کی پابندی منسوخ ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) امام بخاری ؒ نے حضرت عکرمہ کی حدیث انتہائی اختصار سے بیان کی ہے۔ بیان کردہ حضرت خالد الحذاء کی متابعت کو امام بیہقی نے اور قتادہ کی متابعت کو ابوداود طیالسی نے متصل سند سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس اور حضرت زید بن ثابت ؓ کا حائضہ عورت کے متعلق اختلاف ہوا جبکہ اس نے دس تاریخ کو طواف زیارت کر لیا ہو، آیا اس کے لیے طواف وداع ضروری ہے یا نہیں؟ حضرت زید ؓ نے فرمایا: اس کے لیے طواف وداع ضروری ہے جبکہ حضرت ابن عباس ؓ کا موقف تھا کہ وہ طواف وداع کے بغیر ہی وطن واپس جا سکتی ہے۔ انصار میں سے کچھ لوگوں نے کہا: ہم حضرت زید بن ثابت ؓ کے مقابلے میں آپ کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: تم اس سلسلے میں حضرت ام سلیم ؓ سے دریافت کرو، چنانچہ انہوں نے پوچھا تو ام سلیم ؓ نے بتایا: وہ طواف افاضہ کرنے کے بعد حیض سے دوچار ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے طواف وداع کیے بغیر مجھے واپس جانے کی اجازت دی۔ اسی طرح حضرت صفیہ ؓ کو حیض آ گیا تو آپ نے انہیں بھی کوش کرنے کا حکم دیا۔ دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت زید بن ثابت ؓ نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا۔ (فتح الباري:742/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1712
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1761
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1761
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1761
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
راوی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حائضہ عورت کو سفر کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن میں نے اس کے بعد ان سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے ایسی عورتوں کوسفر کرنے کی اجازت دی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت عمر، ابن عمر اور حضرت زید بن ثابت ؓ کا یہ موقف تھا کہ حائضہ عورت کے لیے بھی طواف وداع کرنا ضروری ہے لیکن حضرت ابن عمر اور زید بن ثابت ؓ نے اس موقف سے رجوع کر لیا، البتہ مذکورہ حدیث کا علم نہ ہونے کی وجہ سے حضرت عمر ؓ کا اپنے موقف سے رجوع ثابت نہیں۔ بہرحال طواف وداع واجب ہے لیکن حائضہ عورت سے ساقط ہے اور اس پر کوئی فدیہ وغیرہ بھی نہیں ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے قبل ازیں کتاب الحیض میں بھی ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا: (باب المرأة تحيض بعد الإفاضة)’’اس عورت کا بیان جسے طواف افاضہ کے بعد حیض آ جائے۔‘‘ تمام صحابۂ کرام ؓ کا موقف تھا کہ جب کسی عورت نے حیض سے قبل طواف افاضہ کر لیا ہو تو اسے طواف وداع کی ضرورت نہیں، وہ اگر چاہے تو اپنے وطن واپس آ سکتی ہے، البتہ حضرت عمر ؓ اسے اجازت نہیں دیتے تھے، چنانچہ حضرت حارث ثقفی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر ؓ سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: طواف وداع کر کے واپس جائے۔ حضرت حارث ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اسی طرح فرمایا تھا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:2004) لیکن حدیث عائشہ اور حدیث ام سلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ حائضہ عورت کے لیے طواف وداع کی پابندی منسوخ ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) امام بخاری ؒ نے حضرت عکرمہ کی حدیث انتہائی اختصار سے بیان کی ہے۔ بیان کردہ حضرت خالد الحذاء کی متابعت کو امام بیہقی نے اور قتادہ کی متابعت کو ابوداود طیالسی نے متصل سند سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس اور حضرت زید بن ثابت ؓ کا حائضہ عورت کے متعلق اختلاف ہوا جبکہ اس نے دس تاریخ کو طواف زیارت کر لیا ہو، آیا اس کے لیے طواف وداع ضروری ہے یا نہیں؟ حضرت زید ؓ نے فرمایا: اس کے لیے طواف وداع ضروری ہے جبکہ حضرت ابن عباس ؓ کا موقف تھا کہ وہ طواف وداع کے بغیر ہی وطن واپس جا سکتی ہے۔ انصار میں سے کچھ لوگوں نے کہا: ہم حضرت زید بن ثابت ؓ کے مقابلے میں آپ کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: تم اس سلسلے میں حضرت ام سلیم ؓ سے دریافت کرو، چنانچہ انہوں نے پوچھا تو ام سلیم ؓ نے بتایا: وہ طواف افاضہ کرنے کے بعد حیض سے دوچار ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے طواف وداع کیے بغیر مجھے واپس جانے کی اجازت دی۔ اسی طرح حضرت صفیہ ؓ کو حیض آ گیا تو آپ نے انہیں بھی کوش کرنے کا حکم دیا۔ دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت زید بن ثابت ؓ نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا۔ (فتح الباري:742/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
کہا میں نے ابن عمر کو کہتے سنا کہ اس عورت کے لیے واپسی نہیں۔ اس کے بعد میں نے ان سے سنا آپ فرماتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے عورتوں کو اس کی اجازت دی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ایسی معذور عورتوں کے لیے طواف وداع معاف ہے، اور وہ اس کے بغیر اپنے وطن لوٹ سکتی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Tawus (a sub-narrator) said from his father, "I heard Ibn 'Umar (RA) saying that she would not depart. Then later I heard him saying that the Prophet (ﷺ) had allowed them (menstruating women) to depart."