باب : (حج کے بعد ) عمرہ کرنے والا عمرہ کا طواف کرکے مکہ سے چل دے تو طواف وداع کی ضرورت ہے یا نہیں ہے
)
Sahi-Bukhari:
Umrah (Minor pilgrimage)
(Chapter: If a person departs after performing the Tawaf of 'Umra, will that Tawaf substitute for Tawaf-al-Wada'?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1788.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم حج کے مہینوں میں حج کے اوقات میں احرام باندھ کر روانہ ہوئے۔ جب ہم نے مقام سرف پر پڑاؤ کیا تو نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا: ’’جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں اور وہ اسے عمرے کے احرام میں تبدیل کرنا چاہتا ہے تو کرلے اور جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہے اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں۔‘‘ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے اہل ثروت کے پاس قربانی کے جانور تھے۔ لہذا ان کےلیے یہ الگ عمرہ نہ ہوا۔ اس دوران میں نبی کریم ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ نے پوچھا: ’’کیوں رو رہی ہو۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ آپ نے جو بات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمائی ہے اسے میں نے سن لیا ہے لیکن میں عمرے سے روک دی گئی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’ایساکیوں ہے؟‘‘ میں نے کہا میں نماز پڑھ سکتی ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تجھے اس بات کا کوئی نقصان نہیں، آخر تم بھی تو آدم ؑ کی بیٹیوں میں سے ہو تیرے مقدر میں وہی چیزلکھی گئی ہے جو ان کے مقدر میں لکھی گئی ہے۔ لہذا تم اپنے حج کے احرام میں رہو عنقریب اللہ تمھیں عمرہ نصیب کرے گا۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میں اسی حالت میں رہی یہاں تک کہ جب ہم منیٰ سے روانہ ہوئے اور وادی محصب میں پڑاؤ کیا تو آپ نے حضرت عبدالرحمان ؓ کو بلایا اور فرمایا:’’اپنی ہمشیرہ کو حرم سے باہر لے جاؤ، وہاں سے وہ عمرے کا احرام باندھے، پھر جب طواف سے فارغ ہوجاؤ تو واپس آؤ میں تمہارا انتظار کرتا ہوں۔‘‘ ہم آدھی رات کو آئے تو آپ نے فرمایا: ’’ تم فارغ ہوگئے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں!اس کےبعد آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو چلنے کا حکم دیا تو لوگوں نے کوچ کی تیاری کرلی اور ان لوگوں نے بھی کوچ کیا جنھوں نے نماز فجر سے پہلے بیت اللہ کا طواف کر لیا تھا، پھر آپ مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے۔
تشریح:
(1) حضرت عائشہ ؓ سے مروی اس حدیث میں یہ تصریح نہیں ہے کہ انہوں نے طواف عمرہ کے بعد طواف وداع نہیں کیا۔ غالبا امام بخاری ؒ نے اسی وجہ سے عنوان میں یقینی پہلو اختیار نہیں کیا بلکہ استفسار تک محدود رکھا ہے۔ (2) ابن بطال نے کہا: اس بات پر اتفاق ہے کہ عمرہ کرنے والا شخص جو طواف کرے اور اپنے شہر کو روانہ ہو جائے تو وہی طواف وداع کے لیے کافی ہو گا جیسا کہ ام المومنین ؓ نے کیا تھا، اس کے لیے دوبارہ طواف کرنے کی ضرورت نہیں۔ (فتح الباري:772/3) (3) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام سرف میں اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو فسخ احرام کا حکم دیا تھا کہ وہ اسے عمرے میں بدل لیں اور یہ مقام مکہ مکرمہ سے باہر ہے جبکہ دیگر روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے بعد حج کے احرام کو فسخ کر کے عمرے کے احرام کا حکم دیا تھا۔ اس میں تطبیق یہ ہے کہ ممکن ہے کہ آپ نے متعدد بار یہ حکم دیا ہو۔ (فتح الباري:772/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1739
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1788
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1788
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1788
تمہید کتاب
عمره کے لغوی معنی زیارت کرنے کے ہیں۔ علمائے لغت نے اسے عمارة المسجد الحرام سے بھی مشتق بتایا ہے۔ گویا مخصوص آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کر کے مسجد حرام کی آبادی کا باعث بننا عمرہ کہلاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق حج کے مقابلے میں عمرے کو حج اصغر کہا جاتا ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الجزیۃ والموادعۃ،حدیث:3177) امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اکبر کے مسائل و احکام بیان کرنے کے بعد اب حج اصغر کے متعلق شرعی معلومات فراہم کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے۔ مختصر طور پر احکام عمرہ حسب ذیل ہیں:(1) میقات سے احرام باندھا جائے۔ احرام کی دو چادریں ہوتی ہیں: ایک پہن لی جائے اور دوسری اورھ لی جائے۔ احرام باندھتے وقت دونوں کندھے ڈھانپ لیے جائیں، پھر عمرے کی نیت کر کے تلبیہ کہتے رہنا چاہیے۔(2) مسجد حرام میں داخل ہوتے وقت (اللهم افتح لي أبواب رحمتك) دعا پڑھی جائے اور طواف شروع کرنے سے پہلے دایاں کندھا ننگا کر لیا جائے۔(3) حجراسود کے سامنے کھڑے ہو کر بسم الله الله أكبر کہا جائے۔ ممکن ہو تو حجراسود کو بوسہ دیا جائے یا اسے ہاتھ لگا کر ہاتھ چوم لیا جائے یا صرف ہاتھ سے اشارہ کیا جائے۔(4) بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے جائیں۔ پہلے تین چکر آہستہ آہستہ دوڑ کر لگائے جائیں۔ عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ پہلے تین چکروں کے بعد کندھے ڈھانپ لیے جائیں اور باقی چار چکر معمول کے مطابق پورے کیے جائیں۔ ہر چکر کی کوئی مخصوص دعا حدیث سے ثابت نہیں۔(5) ہر چکر میں رکن یمانی کو ہاتھ لگائیں۔ اگر ممکن نہ ہو تو ویسے ہی گزر جائیں۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھیں: (رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ)(6) سات چکر مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز برائے طواف اس طرح پڑھیں کہ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ ملائیں۔ اس کے بعد سیر ہو کر آب زم زم نوش کریں۔ اگر موقع ملے تو حجر اسود کو چومیں یا اسے ہاتھ لگائیں۔ اس کے بعد ملتزم سے چمٹ کر خوب دعائیں کریں۔(7) سعی کے لیے صفا کا رُخ کریں۔ صفا کے قریب پہنچ کر (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ) پڑھیں، نیز یہ الفاظ بھی کہیں: " نبدأ بما بدأ الله به " پھر اس (صفا پہاڑی) پر چڑھ کر قبلے کی طرف منہ کر کے تین مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔ پھر تین مرتبہ درج ذیل دعا پڑھیں: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحي و يميت وهو علی كل شئي قدير۔ لا إله إلا الله وحده أنجز وعده و نصر عبده وهزم الأحزاب وحده) (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1905) پھر حسب ضرورت دعائیں پڑھیں۔٭ صفا سے نیچے اتر کر چلنا شروع کر دیں۔ جب سبز رنگ کی لائٹ کے قریب پہنچیں تو دوسری سبز لائٹ تک صرف مرد حضرات ذرا تیز دوڑیں۔ پھر مروہ پر پہنچ کر وہی کچھ کریں جو صفا پر کیا تھا۔ صفا سے مروہ تک ایک چکر شمار ہو گا۔ اسی طرح سات چکر پورے کریں۔٭ سعی کرنے کے بعد اپنے بال منڈوائیں یا کتروائیں، البتہ منڈوانا افضل ہے۔ اس کے بعد احرام کھول کر معمول کے کپڑے پہن لیں کیونکہ اب عمرہ مکمل ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریبا چالیس مرفوع احادیث پر بیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ یہ عناوین دو حصوں پر مشتمل ہیں: ایک میں احکام عمرہ اور دوسرے میں آداب سفر بیان کیے ہیں۔ مسائل عمرہ میں عمرے کا وجوب اور اس کی فضیلت، حج سے پہلے عمرہ کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے؟ رمضان میں عمرہ کرنے کی فضیلت، روانگی کی رات عمرہ کرنا، مقام تنعیم سے عمرہ کرنا، حج کے بعد ہدی کے بغیر عمرہ کرنا، عمرے کا ثواب بقدر مشقت، کیا عمرے کے بعد طواف وداع ضروری ہے؟ عمرہ کرنے والے پر وہی پابندیاں ہیں جو حاجی کے لیے ہیں۔ عمرے سے فراغت کیونکر ہو گی؟ اور ان کے علاوہ دیگر مسائل بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں کل چالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں سے چار معلق اور چھتیس متصل ہیں۔ ان میں سے اکیس مکرر اور انیس اضافی ہیں۔ چار احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی پانچ آثار بھی ذکر کیے ہیں جن میں تین موصول اور دو معلق ہیں۔بہرحال ان احادیث کے مطالعے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور حدیثی استعداد کا پتہ چلتا ہے۔ امید ہے کہ قارئین ہماری گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی بصیرت اور عملی اصلاح سے ہمکنار کرے۔ آمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم حج کے مہینوں میں حج کے اوقات میں احرام باندھ کر روانہ ہوئے۔ جب ہم نے مقام سرف پر پڑاؤ کیا تو نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا: ’’جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں اور وہ اسے عمرے کے احرام میں تبدیل کرنا چاہتا ہے تو کرلے اور جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہے اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں۔‘‘ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے اہل ثروت کے پاس قربانی کے جانور تھے۔ لہذا ان کےلیے یہ الگ عمرہ نہ ہوا۔ اس دوران میں نبی کریم ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ نے پوچھا: ’’کیوں رو رہی ہو۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ آپ نے جو بات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمائی ہے اسے میں نے سن لیا ہے لیکن میں عمرے سے روک دی گئی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’ایساکیوں ہے؟‘‘ میں نے کہا میں نماز پڑھ سکتی ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تجھے اس بات کا کوئی نقصان نہیں، آخر تم بھی تو آدم ؑ کی بیٹیوں میں سے ہو تیرے مقدر میں وہی چیزلکھی گئی ہے جو ان کے مقدر میں لکھی گئی ہے۔ لہذا تم اپنے حج کے احرام میں رہو عنقریب اللہ تمھیں عمرہ نصیب کرے گا۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میں اسی حالت میں رہی یہاں تک کہ جب ہم منیٰ سے روانہ ہوئے اور وادی محصب میں پڑاؤ کیا تو آپ نے حضرت عبدالرحمان ؓ کو بلایا اور فرمایا:’’اپنی ہمشیرہ کو حرم سے باہر لے جاؤ، وہاں سے وہ عمرے کا احرام باندھے، پھر جب طواف سے فارغ ہوجاؤ تو واپس آؤ میں تمہارا انتظار کرتا ہوں۔‘‘ ہم آدھی رات کو آئے تو آپ نے فرمایا: ’’ تم فارغ ہوگئے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں!اس کےبعد آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو چلنے کا حکم دیا تو لوگوں نے کوچ کی تیاری کرلی اور ان لوگوں نے بھی کوچ کیا جنھوں نے نماز فجر سے پہلے بیت اللہ کا طواف کر لیا تھا، پھر آپ مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عائشہ ؓ سے مروی اس حدیث میں یہ تصریح نہیں ہے کہ انہوں نے طواف عمرہ کے بعد طواف وداع نہیں کیا۔ غالبا امام بخاری ؒ نے اسی وجہ سے عنوان میں یقینی پہلو اختیار نہیں کیا بلکہ استفسار تک محدود رکھا ہے۔ (2) ابن بطال نے کہا: اس بات پر اتفاق ہے کہ عمرہ کرنے والا شخص جو طواف کرے اور اپنے شہر کو روانہ ہو جائے تو وہی طواف وداع کے لیے کافی ہو گا جیسا کہ ام المومنین ؓ نے کیا تھا، اس کے لیے دوبارہ طواف کرنے کی ضرورت نہیں۔ (فتح الباري:772/3) (3) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام سرف میں اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو فسخ احرام کا حکم دیا تھا کہ وہ اسے عمرے میں بدل لیں اور یہ مقام مکہ مکرمہ سے باہر ہے جبکہ دیگر روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے بعد حج کے احرام کو فسخ کر کے عمرے کے احرام کا حکم دیا تھا۔ اس میں تطبیق یہ ہے کہ ممکن ہے کہ آپ نے متعدد بار یہ حکم دیا ہو۔ (فتح الباري:772/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے افلح بن حمید نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ حج کے مہینوں اور آداب میں ہم حج کا احرام باندھ کر مدینہ سے چلے اور مقام سرف میں پڑاؤ کیا، نبی کریم ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی نہ ہو اور وہ چاہے کہ اپنے حج کے احرام کو عمرہ میں بدل دے تو وہ ایسا کرسکتاہے، لیکن جس کے ساتھ قربانی ہے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ نبی کریم ﷺ اورآپ کے اصحاب میں سے بعض مقدور والوں کے ساتھ قربانی تھی، اس لیے ان کا (احرام صرف ) عمرہ کا نہیں رہا، پھر نبی کریم ﷺ میرے یہاں تشریف لائے تو میں رو رہی تھی، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ رو کیوں رہی ہو؟ میں نے کہا آپ ﷺ نے اپنے اصحاب سے جو کچھ فرمایا میں سن رہی تھی، اب تو میرا عمرہ رہ گیا آپ ﷺ نے پوچھا کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا کہ میں نماز نہیں پڑھ سکتی (حیض کی وجہ سے ) آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا کہ کوئی حرج نہیں، تو بھی آدم کی بیٹیوں میں سے ایک ہے، اور جو ان سب کے مقدر میں لکھا ہے وہی تمہارا بھی مقدرہے۔ اب حج کا احرام باندھ لے شاید اللہ تعالیٰ تمہیں عمرہ بھی نصیب کرے۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے حج کا احرام باندھ لیا پھر جب ہم (حج سے فارغ ہوکر اور ) منی سے نکل کر محصب میں اترے تو آنحضرت ﷺ نے عبدالرحمن کو بلایا اور ان سے کہا کہ اپنی بہن کو حد حرم سے باہر لے جا (تنعیم ) تاکہ وہ وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ لیں، پھر طواف و سعی کروہم تمہارا انتظار یہیں کریں گے۔ ہم آدھی رات کو آپ کی خدمت میں پہنچے تو آپ ﷺ نے پوچھا کیا فارغ ہو گئے؟ میں نے کہا ہاں، آنحضرت ﷺ نے اس کے بعد اپنے اصحاب میں کوچ کا اعلان کردیا۔ بیت اللہ کا طوف وداع کرنے والے لوگ صبح کی نماز سے پہلے ہی روانہ ہو گئے اور مدینہ کی طرف چل دیئے۔
حدیث حاشیہ:
حافظ ؒ نے کہا اس روایت میں غلطی ہو گئی ہے صحیح یوں ہے کہ لوگ چل کھڑے ہوئے پھر آپ ﷺ نے بیت اللہ کا طوا ف کیا۔ امام مسلم اور ابوداؤد کی روایتوں میں ایسا ہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): We set out assuming the Ihram for Hajj in the months of Hajj towards the sacred precincts of Hajj. We dismounted at Sarif and the Prophet (ﷺ) said to his companions, "Whoever has not got the Hadi with him and likes to make it as 'Umra, he should do it, but he who has got the Hadi with him should not do it." The Prophet (ﷺ) and some of his wealthy companions had the Hadi with them, so they did not finish Ihram after performing the 'Umra. The Prophet (ﷺ) came to me while I was weeping. He asked me the reason for it. I replied, "I have heard of what you have said to your companions and I cannot do the 'Umra." He asked me, "What is the matter with you?" I replied, "I am not praying." He said, "There is no harm in it as you are one of the daughters of Adam and the same is written for you as for others. So, you should perform Hajj and I hope that Allah will enable you to perform the 'Umra as well." So, I carried on till we departed from Mina and halted at Al-Mahassab. The Prophet (ﷺ) called 'Abdur-Rahman and said, "Go out of the sanctuary with your sister and let her assume Ihram for 'Umra, and after both of you have finished the Tawaf I will be waiting for you at this place." We came back at mid-night and the Prophet (ﷺ) asked us, "Have you finished?" I replied in the affirmative. He announced the departure and the people set out for the journey and some of them had performed the Tawaf of the Ka’bah before the morning prayer, and after that the Prophet (ﷺ) set out for Medina.