باب : عمرہ میں ان ہی کاموں کا پرہیز ہے جن سے حج میں پرہیز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Umrah (Minor pilgrimage)
(Chapter: The same ceremonies in 'Umra, as in Hajj)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1790.
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا۔ جبکہ میں اس وقت نوعمر تھا۔ درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے بارے میں آپ کیا فرماتی ہیں: ’’صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے ان کی سعی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی ان کی سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ حضرت عائشہ ؓ نے یہ سن کرفرمایا: ایسا ہرگز نہیں۔ اگر مطلب یہ ہوتا جیسا کہ تم کہہ رہے ہو تو آیت یوں ہوتی: اس پر کوئی گناہ نہیں اگر وہ ان کاطواف نہ کرے۔ لیکن یہ آیت تو انصار کے متعلق نازل ہوئی جو منات کے لیے احرام باندھتے تھے جو قدید کے سامنے رکھا ہوا تھا۔ اور وہ صفا اور مروہ کی سعی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: ’’بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جوشخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کاطواف(سعی) کرے۔‘‘ سفیان اور ابو معاویہ نے ہشام سے بیان کرتے ہوئے یہ مزید الفاظ نقل کیے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کا حج یا عمرہ پورا نہیں کرے گا۔ جس نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کی۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج کی طرح عمرہ کرتے ہوئے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا ضروری ہے، صرف وقوف عرفہ اور رمی جمار عمرہ میں نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے صفا اور مروہ کو اپنی نشانیاں قرار دیا ہے۔ ان کے درمیان سعی کرنے سے ہزار ہا سال پہلے پیش آنے والے اس واقعے کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جب حضرت ہاجرہ ؑ نے اپنے نور نظر سیدنا اسماعیل ؑ کے لیے پانی کی تلاش میں والہانہ طور پر چکر لگائے تھے، پھر اس کے نتیجے میں چشمۂ زم زم ظاہر ہوا تھا۔ (2) حدیث کے آخر میں امام بخاری ؒ کی پیش کردہ سفیان کی روایت کو طبری نے متصل سند سے بیان کیا ہے لیکن یہ مرفوع نہیں بلکہ اس میں صرف موقوف حصہ بیان ہوا ہے اور ابو معاویہ کی روایت کو امام مسلم نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: "اللہ تعالیٰ اس شخص کا حج یا عمرہ پورا نہیں کرے گا جو صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کرتا۔"(صحیح مسلم، الحج، حدیث:3079(1277))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1741
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1790
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1790
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1790
تمہید کتاب
عمره کے لغوی معنی زیارت کرنے کے ہیں۔ علمائے لغت نے اسے عمارة المسجد الحرام سے بھی مشتق بتایا ہے۔ گویا مخصوص آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کر کے مسجد حرام کی آبادی کا باعث بننا عمرہ کہلاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق حج کے مقابلے میں عمرے کو حج اصغر کہا جاتا ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الجزیۃ والموادعۃ،حدیث:3177) امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اکبر کے مسائل و احکام بیان کرنے کے بعد اب حج اصغر کے متعلق شرعی معلومات فراہم کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے۔ مختصر طور پر احکام عمرہ حسب ذیل ہیں:(1) میقات سے احرام باندھا جائے۔ احرام کی دو چادریں ہوتی ہیں: ایک پہن لی جائے اور دوسری اورھ لی جائے۔ احرام باندھتے وقت دونوں کندھے ڈھانپ لیے جائیں، پھر عمرے کی نیت کر کے تلبیہ کہتے رہنا چاہیے۔(2) مسجد حرام میں داخل ہوتے وقت (اللهم افتح لي أبواب رحمتك) دعا پڑھی جائے اور طواف شروع کرنے سے پہلے دایاں کندھا ننگا کر لیا جائے۔(3) حجراسود کے سامنے کھڑے ہو کر بسم الله الله أكبر کہا جائے۔ ممکن ہو تو حجراسود کو بوسہ دیا جائے یا اسے ہاتھ لگا کر ہاتھ چوم لیا جائے یا صرف ہاتھ سے اشارہ کیا جائے۔(4) بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے جائیں۔ پہلے تین چکر آہستہ آہستہ دوڑ کر لگائے جائیں۔ عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ پہلے تین چکروں کے بعد کندھے ڈھانپ لیے جائیں اور باقی چار چکر معمول کے مطابق پورے کیے جائیں۔ ہر چکر کی کوئی مخصوص دعا حدیث سے ثابت نہیں۔(5) ہر چکر میں رکن یمانی کو ہاتھ لگائیں۔ اگر ممکن نہ ہو تو ویسے ہی گزر جائیں۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھیں: (رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ)(6) سات چکر مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز برائے طواف اس طرح پڑھیں کہ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ ملائیں۔ اس کے بعد سیر ہو کر آب زم زم نوش کریں۔ اگر موقع ملے تو حجر اسود کو چومیں یا اسے ہاتھ لگائیں۔ اس کے بعد ملتزم سے چمٹ کر خوب دعائیں کریں۔(7) سعی کے لیے صفا کا رُخ کریں۔ صفا کے قریب پہنچ کر (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ) پڑھیں، نیز یہ الفاظ بھی کہیں: " نبدأ بما بدأ الله به " پھر اس (صفا پہاڑی) پر چڑھ کر قبلے کی طرف منہ کر کے تین مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔ پھر تین مرتبہ درج ذیل دعا پڑھیں: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحي و يميت وهو علی كل شئي قدير۔ لا إله إلا الله وحده أنجز وعده و نصر عبده وهزم الأحزاب وحده) (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1905) پھر حسب ضرورت دعائیں پڑھیں۔٭ صفا سے نیچے اتر کر چلنا شروع کر دیں۔ جب سبز رنگ کی لائٹ کے قریب پہنچیں تو دوسری سبز لائٹ تک صرف مرد حضرات ذرا تیز دوڑیں۔ پھر مروہ پر پہنچ کر وہی کچھ کریں جو صفا پر کیا تھا۔ صفا سے مروہ تک ایک چکر شمار ہو گا۔ اسی طرح سات چکر پورے کریں۔٭ سعی کرنے کے بعد اپنے بال منڈوائیں یا کتروائیں، البتہ منڈوانا افضل ہے۔ اس کے بعد احرام کھول کر معمول کے کپڑے پہن لیں کیونکہ اب عمرہ مکمل ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریبا چالیس مرفوع احادیث پر بیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ یہ عناوین دو حصوں پر مشتمل ہیں: ایک میں احکام عمرہ اور دوسرے میں آداب سفر بیان کیے ہیں۔ مسائل عمرہ میں عمرے کا وجوب اور اس کی فضیلت، حج سے پہلے عمرہ کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے؟ رمضان میں عمرہ کرنے کی فضیلت، روانگی کی رات عمرہ کرنا، مقام تنعیم سے عمرہ کرنا، حج کے بعد ہدی کے بغیر عمرہ کرنا، عمرے کا ثواب بقدر مشقت، کیا عمرے کے بعد طواف وداع ضروری ہے؟ عمرہ کرنے والے پر وہی پابندیاں ہیں جو حاجی کے لیے ہیں۔ عمرے سے فراغت کیونکر ہو گی؟ اور ان کے علاوہ دیگر مسائل بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں کل چالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں سے چار معلق اور چھتیس متصل ہیں۔ ان میں سے اکیس مکرر اور انیس اضافی ہیں۔ چار احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی پانچ آثار بھی ذکر کیے ہیں جن میں تین موصول اور دو معلق ہیں۔بہرحال ان احادیث کے مطالعے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور حدیثی استعداد کا پتہ چلتا ہے۔ امید ہے کہ قارئین ہماری گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی بصیرت اور عملی اصلاح سے ہمکنار کرے۔ آمین
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا۔ جبکہ میں اس وقت نوعمر تھا۔ درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے بارے میں آپ کیا فرماتی ہیں: ’’صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے ان کی سعی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی ان کی سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ حضرت عائشہ ؓ نے یہ سن کرفرمایا: ایسا ہرگز نہیں۔ اگر مطلب یہ ہوتا جیسا کہ تم کہہ رہے ہو تو آیت یوں ہوتی: اس پر کوئی گناہ نہیں اگر وہ ان کاطواف نہ کرے۔ لیکن یہ آیت تو انصار کے متعلق نازل ہوئی جو منات کے لیے احرام باندھتے تھے جو قدید کے سامنے رکھا ہوا تھا۔ اور وہ صفا اور مروہ کی سعی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: ’’بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جوشخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کاطواف(سعی) کرے۔‘‘ سفیان اور ابو معاویہ نے ہشام سے بیان کرتے ہوئے یہ مزید الفاظ نقل کیے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کا حج یا عمرہ پورا نہیں کرے گا۔ جس نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج کی طرح عمرہ کرتے ہوئے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا ضروری ہے، صرف وقوف عرفہ اور رمی جمار عمرہ میں نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے صفا اور مروہ کو اپنی نشانیاں قرار دیا ہے۔ ان کے درمیان سعی کرنے سے ہزار ہا سال پہلے پیش آنے والے اس واقعے کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جب حضرت ہاجرہ ؑ نے اپنے نور نظر سیدنا اسماعیل ؑ کے لیے پانی کی تلاش میں والہانہ طور پر چکر لگائے تھے، پھر اس کے نتیجے میں چشمۂ زم زم ظاہر ہوا تھا۔ (2) حدیث کے آخر میں امام بخاری ؒ کی پیش کردہ سفیان کی روایت کو طبری نے متصل سند سے بیان کیا ہے لیکن یہ مرفوع نہیں بلکہ اس میں صرف موقوف حصہ بیان ہوا ہے اور ابو معاویہ کی روایت کو امام مسلم نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: "اللہ تعالیٰ اس شخص کا حج یا عمرہ پورا نہیں کرے گا جو صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کرتا۔"(صحیح مسلم، الحج، حدیث:3079(1277))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد (عروہ بن زبیر ) نے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ صدیقہ ؓ سے پوچھا جب کہ ابھی میں نو عمر تھاکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”صفا اور مروہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں اس لیے جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے ان کی سعی کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔“ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی ان کی سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ یہ سن کر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں۔ اگر مطلب یہ ہوتا جیسا کہ تم بتا رہے ہو پھر تو ان کی سعی نہ کرنے میں واقعی کوئی حرج نہیں تھا، لیکن یہ آیت تو انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو منات بت کے نام کا احرام باندھتے تھے جو قدید کے مقابل میں رکھا ہوا تھا وہ صفا اور مروہ کی سعی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے، جب اسلام آیا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا اور اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ” صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں اس لیے جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے یے ان کی سعی کرنے میں کوئی گناہ نہیں “ سفیان اور ابومعاویہ نے ہشام سے یہ زیادتی نکالی ہے کہ جو کوئی صفا مروہ کا پھیرا نہ کرے تو اللہ ا اس کا حج اور عمرہ پورا نہ کرے گا۔
حدیث حاشیہ:
یہ اس لیے کہ اللہ پاک نے صفا اور مروہ پہاڑیوں کو بھی اپنے شعائر قرا ر دیا ہے اور اس سعی سے ہزار ہا سال قبل کے اس واقعہ کی یاد تازہ ہوتی ہے جب کہ حضرت ہاجرہ ؑ نے اپنے نور نظر اسماعیل ؑ کے لیے یہاں پانی کی تلاش میں چکر لگائے تھے اور اس موقع پر چشمہ زمزم کا ظہور ہوا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hisham Ibn 'Urwa from his father who said: While I was a youngster, I asked 'Aisha (RA) the wife of the Prophet. "What about the meaning of the Statement of Allah; "Verily! (the mountains) As-Safa and Al Marwa, are among the symbols of Allah. So, it is not harmful if those who perform Hajj or 'Umra of the House (Ka’bah at Makkah) to perform the going (Tawaf) between them? (2.158) I understand (from that) that there is no harm if somebody does not perform the Tawaf between them." 'Aisha (RA) replied, "No, for if it were as you are saying, then the recitation would have been like this: 'It is not harmful not to perform Tawaf between them.' This verse was revealed in connection with the Ansar who used to assume the Ihram for the idol Manat which was put beside a place called Qudaid and those people thought it not right to perform the Tawaf of As-Safa and Al-Marwa. When Islam came, they asked Allah's Apostle (ﷺ) about that, and Allah revealed:-- "Verily! (the mountains) As-Safa and Al-Marwa Are among the symbols of Allah. So, it is not harmful of those who perform Hajj or 'Umra of the House (Ka’bah at Makkah) to perform the going (Tawaf) between them." (2.158) Sufyan and Abu Muawiyah added from Hisham (from 'Aisha (RA)): "The Hajj or 'Umra of the person who does not perform the going (Tawaf) between As-Safa and Al-Marwa is incomplete in Allah's sight.