Sahi-Bukhari:
Umrah (Minor pilgrimage)
(Chapter: When a person performing 'Umra finish his Ihram?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عطاءبن ابی رباح نے جابر ؓ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے اپنے اصحاب کو یہ حکم دیا کہ حج کے احرام کو عمرہ سے بدل دیں اور طواف (بیت اللہ اور صفا و مروہ ) کریں پھر بال ترشوا کر احرام سے نکل جائیں۔تشریح : ابن بطال نے کہا میں تو علماءکا اختلاف اس باب میں نہیں جانتا کہ عمرہ کرنے والا اس وقت حلال ہوتا ہے جب طواف اور سعی سے فارغ ہو جائے، مگر ابن عباس ؓ سے ایک شاذ قول منقول ہے کہ صرف سعی کرنے سے حلال ہو جاتا ہے اور اسحاق بن راہویہ ( استاذ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ ) نے اسی کو اختیار کیا ہے اور امام بخاری نے یہ باب لا کر ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مذہب کی طرف اشارہ کیا اور قاضی عیاض نے بعض اہل علم سے نقل کیا ہے کہ عمرہ کرنے والا جہاں حرم میں پہنچا وہ حلال ہو گیا گو طواف اور سعی نہ کرے مگر صحیح بات وہی ہے جو باب اور حدیث سے ظاہر ہے۔
1791.
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کیا اور ہم ے بھی آپ کے ہمراہ عمرہ کیا جب آپ مکہ مکرمکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے بیت اللہ کاطواف کیا۔ پھر آپ نے صفا اورمروہ کی سعی کی تو ہم نے بھی آپ کے ساتھ سعی کی۔ اہل مکہ سے آپ کی حفاظت کرتے تھے مباداکوئی مشرک آپ کو تیر ماردے۔ میرے ایک ساتھی نے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ (اس وقت) بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے؟انھوں نے کہا کہ(اس وقت بیت اللہ میں داخل) نہیں(ہوئے تھے)۔
تشریح:
(1) حضرت ابن عباس ؓ کا موقف ہے کہ عمرہ کرنے والا جب بیت اللہ کا طواف مکمل کرے تو احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے ثابت کیا ہے کہ عمرہ کرنے والا اس وقت احرام کی پابندی سے آزاد ہو گا جب وہ بیت اللہ کے طواف کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی مکمل کرے، چنانچہ حضرت ابن ابی اوفى ؓ نے فرمایا: ہم نے بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی بھی کی۔ (2) واضح رہے کہ اس حدیث میں عمرۃ القضاء کا بیان ہے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ بیت اللہ میں داخل نہیں ہوئے تھے جیسا کہ اس حدیث میں صراحت ہے، نیز اس وقت ہنگامی حالات کے پیش نظر صحابۂ کرام ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی حفاظت و نگہداشت کا خصوصی اہتمام کرنا پڑا جیسا کہ حدیث میں اس کا ذکر ہے۔ (3) علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ عمرہ کرنے والا اس وقت احرام کی پابندیوں سے آزاد ہوتا ہے جب بیت اللہ کے طواف اور صفا و مروہ کی سعی سے فارغ ہو جائے مگر حضرت ابن عباس ؓ سے ایک شاذ قول منقول ہے کہ بیت اللہ کا طواف کرنے سے حلال ہو جاتا ہے۔ (فتح الباري:772/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1742
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1791
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1791
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1791
تمہید کتاب
عمره کے لغوی معنی زیارت کرنے کے ہیں۔ علمائے لغت نے اسے عمارة المسجد الحرام سے بھی مشتق بتایا ہے۔ گویا مخصوص آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کر کے مسجد حرام کی آبادی کا باعث بننا عمرہ کہلاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق حج کے مقابلے میں عمرے کو حج اصغر کہا جاتا ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الجزیۃ والموادعۃ،حدیث:3177) امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اکبر کے مسائل و احکام بیان کرنے کے بعد اب حج اصغر کے متعلق شرعی معلومات فراہم کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے۔ مختصر طور پر احکام عمرہ حسب ذیل ہیں:(1) میقات سے احرام باندھا جائے۔ احرام کی دو چادریں ہوتی ہیں: ایک پہن لی جائے اور دوسری اورھ لی جائے۔ احرام باندھتے وقت دونوں کندھے ڈھانپ لیے جائیں، پھر عمرے کی نیت کر کے تلبیہ کہتے رہنا چاہیے۔(2) مسجد حرام میں داخل ہوتے وقت (اللهم افتح لي أبواب رحمتك) دعا پڑھی جائے اور طواف شروع کرنے سے پہلے دایاں کندھا ننگا کر لیا جائے۔(3) حجراسود کے سامنے کھڑے ہو کر بسم الله الله أكبر کہا جائے۔ ممکن ہو تو حجراسود کو بوسہ دیا جائے یا اسے ہاتھ لگا کر ہاتھ چوم لیا جائے یا صرف ہاتھ سے اشارہ کیا جائے۔(4) بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے جائیں۔ پہلے تین چکر آہستہ آہستہ دوڑ کر لگائے جائیں۔ عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ پہلے تین چکروں کے بعد کندھے ڈھانپ لیے جائیں اور باقی چار چکر معمول کے مطابق پورے کیے جائیں۔ ہر چکر کی کوئی مخصوص دعا حدیث سے ثابت نہیں۔(5) ہر چکر میں رکن یمانی کو ہاتھ لگائیں۔ اگر ممکن نہ ہو تو ویسے ہی گزر جائیں۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھیں: (رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ)(6) سات چکر مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز برائے طواف اس طرح پڑھیں کہ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ ملائیں۔ اس کے بعد سیر ہو کر آب زم زم نوش کریں۔ اگر موقع ملے تو حجر اسود کو چومیں یا اسے ہاتھ لگائیں۔ اس کے بعد ملتزم سے چمٹ کر خوب دعائیں کریں۔(7) سعی کے لیے صفا کا رُخ کریں۔ صفا کے قریب پہنچ کر (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ) پڑھیں، نیز یہ الفاظ بھی کہیں: " نبدأ بما بدأ الله به " پھر اس (صفا پہاڑی) پر چڑھ کر قبلے کی طرف منہ کر کے تین مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔ پھر تین مرتبہ درج ذیل دعا پڑھیں: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحي و يميت وهو علی كل شئي قدير۔ لا إله إلا الله وحده أنجز وعده و نصر عبده وهزم الأحزاب وحده) (سنن ابی داؤد،المناسک،حدیث:1905) پھر حسب ضرورت دعائیں پڑھیں۔٭ صفا سے نیچے اتر کر چلنا شروع کر دیں۔ جب سبز رنگ کی لائٹ کے قریب پہنچیں تو دوسری سبز لائٹ تک صرف مرد حضرات ذرا تیز دوڑیں۔ پھر مروہ پر پہنچ کر وہی کچھ کریں جو صفا پر کیا تھا۔ صفا سے مروہ تک ایک چکر شمار ہو گا۔ اسی طرح سات چکر پورے کریں۔٭ سعی کرنے کے بعد اپنے بال منڈوائیں یا کتروائیں، البتہ منڈوانا افضل ہے۔ اس کے بعد احرام کھول کر معمول کے کپڑے پہن لیں کیونکہ اب عمرہ مکمل ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریبا چالیس مرفوع احادیث پر بیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ یہ عناوین دو حصوں پر مشتمل ہیں: ایک میں احکام عمرہ اور دوسرے میں آداب سفر بیان کیے ہیں۔ مسائل عمرہ میں عمرے کا وجوب اور اس کی فضیلت، حج سے پہلے عمرہ کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے؟ رمضان میں عمرہ کرنے کی فضیلت، روانگی کی رات عمرہ کرنا، مقام تنعیم سے عمرہ کرنا، حج کے بعد ہدی کے بغیر عمرہ کرنا، عمرے کا ثواب بقدر مشقت، کیا عمرے کے بعد طواف وداع ضروری ہے؟ عمرہ کرنے والے پر وہی پابندیاں ہیں جو حاجی کے لیے ہیں۔ عمرے سے فراغت کیونکر ہو گی؟ اور ان کے علاوہ دیگر مسائل بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں کل چالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں سے چار معلق اور چھتیس متصل ہیں۔ ان میں سے اکیس مکرر اور انیس اضافی ہیں۔ چار احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی پانچ آثار بھی ذکر کیے ہیں جن میں تین موصول اور دو معلق ہیں۔بہرحال ان احادیث کے مطالعے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور حدیثی استعداد کا پتہ چلتا ہے۔ امید ہے کہ قارئین ہماری گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی بصیرت اور عملی اصلاح سے ہمکنار کرے۔ آمین
تمہید باب
اس معلق روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث: 1785 کے تحت اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس میں طواف سے مراد بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی دونوں ہیں کیونکہ آئندہ روایات میں اس کی تفصیل ہے کہ عمرہ کرنے والا اس وقت تک احرام کی پابندی سے آزاد نہیں ہو سکتا جب تک وہ صفا اور مروہ کی سعی نہ کرے۔ (صحیح البخاری،حدیث:1794)
اور عطاءبن ابی رباح نے جابر ؓ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے اپنے اصحاب کو یہ حکم دیا کہ حج کے احرام کو عمرہ سے بدل دیں اور طواف (بیت اللہ اور صفا و مروہ ) کریں پھر بال ترشوا کر احرام سے نکل جائیں۔تشریح : ابن بطال نے کہا میں تو علماءکا اختلاف اس باب میں نہیں جانتا کہ عمرہ کرنے والا اس وقت حلال ہوتا ہے جب طواف اور سعی سے فارغ ہو جائے، مگر ابن عباس ؓ سے ایک شاذ قول منقول ہے کہ صرف سعی کرنے سے حلال ہو جاتا ہے اور اسحاق بن راہویہ ( استاذ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ ) نے اسی کو اختیار کیا ہے اور امام بخاری نے یہ باب لا کر ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مذہب کی طرف اشارہ کیا اور قاضی عیاض نے بعض اہل علم سے نقل کیا ہے کہ عمرہ کرنے والا جہاں حرم میں پہنچا وہ حلال ہو گیا گو طواف اور سعی نہ کرے مگر صحیح بات وہی ہے جو باب اور حدیث سے ظاہر ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کیا اور ہم ے بھی آپ کے ہمراہ عمرہ کیا جب آپ مکہ مکرمکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے بیت اللہ کاطواف کیا۔ پھر آپ نے صفا اورمروہ کی سعی کی تو ہم نے بھی آپ کے ساتھ سعی کی۔ اہل مکہ سے آپ کی حفاظت کرتے تھے مباداکوئی مشرک آپ کو تیر ماردے۔ میرے ایک ساتھی نے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ (اس وقت) بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے؟انھوں نے کہا کہ(اس وقت بیت اللہ میں داخل) نہیں(ہوئے تھے)۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابن عباس ؓ کا موقف ہے کہ عمرہ کرنے والا جب بیت اللہ کا طواف مکمل کرے تو احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے ثابت کیا ہے کہ عمرہ کرنے والا اس وقت احرام کی پابندی سے آزاد ہو گا جب وہ بیت اللہ کے طواف کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی مکمل کرے، چنانچہ حضرت ابن ابی اوفى ؓ نے فرمایا: ہم نے بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی بھی کی۔ (2) واضح رہے کہ اس حدیث میں عمرۃ القضاء کا بیان ہے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ بیت اللہ میں داخل نہیں ہوئے تھے جیسا کہ اس حدیث میں صراحت ہے، نیز اس وقت ہنگامی حالات کے پیش نظر صحابۂ کرام ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی حفاظت و نگہداشت کا خصوصی اہتمام کرنا پڑا جیسا کہ حدیث میں اس کا ذکر ہے۔ (3) علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ عمرہ کرنے والا اس وقت احرام کی پابندیوں سے آزاد ہوتا ہے جب بیت اللہ کے طواف اور صفا و مروہ کی سعی سے فارغ ہو جائے مگر حضرت ابن عباس ؓ سے ایک شاذ قول منقول ہے کہ بیت اللہ کا طواف کرنے سے حلال ہو جاتا ہے۔ (فتح الباري:772/3)
ترجمۃ الباب:
حضرت عطاء نے سیدنا جابر ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ وہ اپنے حرام حج کو عمرہ میں بدل لیں طواف کریں پھر بال چھوٹے کرائیں اور احرام کی پابندیوں سے آزاد ہوجائیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے جریر نے، ان سے اسماعیل نے، ان سے عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ بھی کیا اور ہم نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ عمرہ کیا، چنانچہ جب آپ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ نے پہلے (بیت اللہ کا ) طواف کیا اور آپ ﷺ کے ساتھ ہم نے بھی طواف کیا، پھر صفا اور مروہ آئے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ آئے۔ ہم آپ ﷺ کی مکہ والوں سے حفاظت کر رہے تھے کہ کہیں کوئی کافر تیر نہ چلا دے، میرے ایک ساتھی نے ابن ابی اوفی ؓ سے پوچھا کیا آنحضرت ﷺ کعبہ میں اندر داخل ہوئے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Isma'il (RA): Abdullah bin Abu Aufa said: "Allah's Apostle (ﷺ) performed 'Umra and we too performed 'Umra along with him. When he entered Makkah he performed the Tawaf (of Ka’bah) and we too performed it along with him, and then he came to the As-Safa and Al-Marwa (i.e. performed the Sai) and we also came to them along with him. We were shielding him from the people of Makkah lest they may hit him with an arrow." A friend of his asked him (i.e. 'Abdullah bin Aufa), "Did the Prophet (ﷺ) enter the Ka’bah (during that 'Umra)?" He replied in the negative.