Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: (What kind of) animals can be killed by a Muhrim)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1831.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چھپکلی کے متعلق فرمایا: ’’یہ موذی جانور ہے۔‘‘ مگر میں نے یہ نہیں سنا کہ آپ نے اس کو مارڈالنے کا حکم دیا ہو۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری ؒ) نے فرمایا: اس حدیث کے بیان کرنے سے ہمارا مقصدیہ ہے کہ منیٰ حرم میں داخل ہےاور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حرم میں سانپ مارنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کا اسے موذی قرار دینا اس بات کی علامت ہے کہ اسے قتل کرنا جائز ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کا اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے نہ سننا حکم امتناعی کی دلیل نہیں بن سکتا جبکہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ خود امام بخاری ؒ نے اس روایت کو بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، بدءالخلق، حدیث:3306) حضرت ام شریک ؓ نے بھی رسول اللہ ﷺ سے اس کے مارنے کا حکم بیان کیا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ چھپکلی نے حضرت ابراہیم ؑ کی آگ کو تیز کرنے کے لیے پھونکیں ماری تھیں۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3359) بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے مارنے پر نوید ثواب سنائی ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ’’جو چھپکلی کو پہلی ضرب میں قتل کرے گا اسے سو نیکیاں ملیں گی‘‘(صحیح مسلم، السلام، حدیث:5847(2240)) (2) ابن عبد البر ؒ نے اجماع نقل کیا ہے کہ حل و حرم میں چھپکلی کو مارنا جائز ہے لیکن حضرت عطاء بن ابی رباح سے حرم میں چھپکلی مارنے کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا: اگر تجھے اذیت پہنچائے تو اس کے قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے مارنے کو اس کی ضرر رسانی پر موقوف خیال کرتے ہیں۔ (فتح الباري:54/4) (3) حدیث کے آخر میں مذکور امام بخاری ؒ کے ارشاد کا تعلق سابقہ حدیث: (1830) سے ہے۔ چونکہ اکثر نسخوں میں اس کا ذکر ہے، اس لیے اسے یہیں رہنے دیا گیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1779
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1831
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1831
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1831
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چھپکلی کے متعلق فرمایا: ’’یہ موذی جانور ہے۔‘‘ مگر میں نے یہ نہیں سنا کہ آپ نے اس کو مارڈالنے کا حکم دیا ہو۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری ؒ) نے فرمایا: اس حدیث کے بیان کرنے سے ہمارا مقصدیہ ہے کہ منیٰ حرم میں داخل ہےاور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حرم میں سانپ مارنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ کا اسے موذی قرار دینا اس بات کی علامت ہے کہ اسے قتل کرنا جائز ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کا اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے نہ سننا حکم امتناعی کی دلیل نہیں بن سکتا جبکہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ خود امام بخاری ؒ نے اس روایت کو بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، بدءالخلق، حدیث:3306) حضرت ام شریک ؓ نے بھی رسول اللہ ﷺ سے اس کے مارنے کا حکم بیان کیا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ چھپکلی نے حضرت ابراہیم ؑ کی آگ کو تیز کرنے کے لیے پھونکیں ماری تھیں۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3359) بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے مارنے پر نوید ثواب سنائی ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ’’جو چھپکلی کو پہلی ضرب میں قتل کرے گا اسے سو نیکیاں ملیں گی‘‘(صحیح مسلم، السلام، حدیث:5847(2240)) (2) ابن عبد البر ؒ نے اجماع نقل کیا ہے کہ حل و حرم میں چھپکلی کو مارنا جائز ہے لیکن حضرت عطاء بن ابی رباح سے حرم میں چھپکلی مارنے کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا: اگر تجھے اذیت پہنچائے تو اس کے قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے مارنے کو اس کی ضرر رسانی پر موقوف خیال کرتے ہیں۔ (فتح الباري:54/4) (3) حدیث کے آخر میں مذکور امام بخاری ؒ کے ارشاد کا تعلق سابقہ حدیث: (1830) سے ہے۔ چونکہ اکثر نسخوں میں اس کا ذکر ہے، اس لیے اسے یہیں رہنے دیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے چھپکلی کو موذی کہا تھا لیکن میں نے آپ سے یہ نہیں سنا کہ آپ نے اسے مارنے کا بھی حکم دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ابن عبدالبر نے کہا اس پر علماءکا اتفاق ہے کہ چھپکلی مار ڈالنا حل اور حرم دونوں جگہ درست ہے، واللہ أعلم۔ حافظ نے کہا کہ ابن عبدالحکیم نے امام مالک سے اس کے خلاف نقل کیا کہ اگر محرم چھپکلی کو مارے تو صدقہ دے کیوں کہ وہ ان پانچ جانوروں میں نہیں ہے جن کا قتل جائز ہے اور ابن ابی شیبہ نے عطا سے نکالا کہ بچھو وغیرہ پر قیاس کیا جاسکتا ہے اورحل و حرم میں اسے مارنا بھی درست کہا جاسکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aisha (RA) the wife of the Prophet (ﷺ): Allah's Apostle (ﷺ) called the salamander a bad animal, but I did not hear him ordering it to be killed."