Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: The marrying of Muhrim)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1837.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے بحالت احرام حضرت میمونہ ؓ سے نکاح کیا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں محرم کے نکاح کے متعلق فیصلہ نہیں کیا کہ جائز ہے یا ناجائز، البتہ پیش کردہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ محرم آدمی نکاح کر سکتا ہے اور امام بخاری کے نزدیک ممانعت کی احادیث ثابت نہیں ہیں اور نہ یہ رسول اللہ ﷺ کا خاصہ ہے لیکن اس بات پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ محرم آدمی نکاح کے بعد بیوی سے جماع نہیں کر سکتا جب تک وہ حلال نہیں ہو جاتا۔ حضرت عائشہ ؓ سے بھی احادیث مروی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت میمونہ ؓ سے بحالت احرام نکاح کیا تھا۔ (عمدةالقاري:521/7) واقعی امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ محرم نکاح کر سکتا ہے، چنانچہ انہوں نے کتاب النکاح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب نكاح المحرم)’’محرم کے نکاح کا بیان‘‘ اس سے مراد صرف عقد کرنا ہے کیونکہ دوران احرام میں مباشرت کرنے سے حج یا عمرہ فاسد ہو جاتا ہے۔ (فتح الباري:68/4) لیکن امام بخاری کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے جیسا کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’محرم شخص نہ نکاح کرے نہ نکاح کرائے اور نہ نکاح کا پیغام ہی بھیجے۔‘‘(صحیح مسلم، النکاح، حدیث:3446(1409)) حضرت میمونہ ؓ کا اپنا قول بھی اس کی تصدیق کرتا ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے نکاح کیا تو اس وقت ہم دونوں مقام سرف پر حالت احرم میں نہیں تھے بلکہ حلال تھے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1843) حضرت ابو رافع ؓ جو حضرت میمونہ ؓ کے غلام اور نکاح کے وقت قاصد تھے ان کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت میمونہ ؓ سے نکاح کیا تو آپ حلال تھے اور میں ان دونوں کے درمیان قاصد تھا، یعنی ایک دوسرے کو پیغام رسانی میرے ذریعے سے ہوئی تھی۔ (جامع الترمذي، الحج، حدیث:841) حضرت ابن عباس ؓ کا مذکورہ بیان وہم پر مبنی ہے جیسا کہ حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں: حضرت ابن عباس ؓ کو وہم ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حالت احرام میں حضرت میمونہ ؓ سے نکاح کیا۔ (مسندأحمد:332/6) یا انہیں جب اس نکاح کا علم ہوا تو اس وقت آپ محرم تھے۔ انہوں نے اپنے علم کے مطابق یہ کہہ دیا کہ آپ نے حالت احرام میں نکاح کیا۔ (2) بعض لوگ کہتے ہیں کہ محرم کو جماع کے لیے لونڈی خریدنا جائز ہے تو نکاح بھی درست ہو گا۔ حافظ ابن حجر ؒ اس قیاس کے متعلق فرماتے ہیں: یہ قیاس خلاف نص ہے، اس لیے قابل قبول نہیں۔ (فتح الباري:68/4) بہرحال ہمارے نزدیک محرم آدمی کے لیے نکاح کرنا یا نکاح کرانا جائز نہیں جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت ہے، اس بنا پر حضرت ابن عباس ؓ کی مذکورہ روایت مرجوح یا قابل تاویل ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1785
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1837
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1837
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1837
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے بحالت احرام حضرت میمونہ ؓ سے نکاح کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں محرم کے نکاح کے متعلق فیصلہ نہیں کیا کہ جائز ہے یا ناجائز، البتہ پیش کردہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ محرم آدمی نکاح کر سکتا ہے اور امام بخاری کے نزدیک ممانعت کی احادیث ثابت نہیں ہیں اور نہ یہ رسول اللہ ﷺ کا خاصہ ہے لیکن اس بات پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ محرم آدمی نکاح کے بعد بیوی سے جماع نہیں کر سکتا جب تک وہ حلال نہیں ہو جاتا۔ حضرت عائشہ ؓ سے بھی احادیث مروی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت میمونہ ؓ سے بحالت احرام نکاح کیا تھا۔ (عمدةالقاري:521/7) واقعی امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ محرم نکاح کر سکتا ہے، چنانچہ انہوں نے کتاب النکاح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب نكاح المحرم)’’محرم کے نکاح کا بیان‘‘ اس سے مراد صرف عقد کرنا ہے کیونکہ دوران احرام میں مباشرت کرنے سے حج یا عمرہ فاسد ہو جاتا ہے۔ (فتح الباري:68/4) لیکن امام بخاری کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے جیسا کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’محرم شخص نہ نکاح کرے نہ نکاح کرائے اور نہ نکاح کا پیغام ہی بھیجے۔‘‘(صحیح مسلم، النکاح، حدیث:3446(1409)) حضرت میمونہ ؓ کا اپنا قول بھی اس کی تصدیق کرتا ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے نکاح کیا تو اس وقت ہم دونوں مقام سرف پر حالت احرم میں نہیں تھے بلکہ حلال تھے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1843) حضرت ابو رافع ؓ جو حضرت میمونہ ؓ کے غلام اور نکاح کے وقت قاصد تھے ان کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت میمونہ ؓ سے نکاح کیا تو آپ حلال تھے اور میں ان دونوں کے درمیان قاصد تھا، یعنی ایک دوسرے کو پیغام رسانی میرے ذریعے سے ہوئی تھی۔ (جامع الترمذي، الحج، حدیث:841) حضرت ابن عباس ؓ کا مذکورہ بیان وہم پر مبنی ہے جیسا کہ حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں: حضرت ابن عباس ؓ کو وہم ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حالت احرام میں حضرت میمونہ ؓ سے نکاح کیا۔ (مسندأحمد:332/6) یا انہیں جب اس نکاح کا علم ہوا تو اس وقت آپ محرم تھے۔ انہوں نے اپنے علم کے مطابق یہ کہہ دیا کہ آپ نے حالت احرام میں نکاح کیا۔ (2) بعض لوگ کہتے ہیں کہ محرم کو جماع کے لیے لونڈی خریدنا جائز ہے تو نکاح بھی درست ہو گا۔ حافظ ابن حجر ؒ اس قیاس کے متعلق فرماتے ہیں: یہ قیاس خلاف نص ہے، اس لیے قابل قبول نہیں۔ (فتح الباري:68/4) بہرحال ہمارے نزدیک محرم آدمی کے لیے نکاح کرنا یا نکاح کرانا جائز نہیں جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت ہے، اس بنا پر حضرت ابن عباس ؓ کی مذکورہ روایت مرجوح یا قابل تاویل ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالمغیرہ عبدالقدوس بن حجاج نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اوزاعی نے بیان کیا، ان سے عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب میمونہ ؓ سے نکاح کیا تو آپ محرم تھے۔
حدیث حاشیہ:
شاید امام بخاری ؒ اس مسئلہ میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور اہل کوفہ سے متفق ہیں کہ محرم کے لیے عقد نکاح کرنا درست ہے، لیکن مجامعت بالاتفاق درست نہیں ہے۔ اور جمہور علماءکے نزدیک نکاح بھی احرام میں جائز نہیں۔ امام مسلم نے حضرت عثمان ؓ سے مرفوعاً نکالا ہے کہ محرم نہ نکاح کرے اپنا نہ دوسرا کوئی اس کا نکاح کرے نہ نکاح کا پیام دے۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ محرم کو جماع کے لیے لونڈی خریدنا درست ہے تو نکاح بھی درست ہوگا۔ حافظ نے کہا یہ قیاس بھی جو خلاف نص کے ہے قابل قبول نہیں۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) married Maimuna while he was in the state of Ihram, (only the ceremonies of marriage were held).