Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: Carrying of arms by a Muhrim)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
عکرمہ نے کہا کہ اگر دشمن کا خوف ہو اور کوئی ہتھیار باندھے تو اسے فدیہ دینا چاہئے لیکن عکرمہ کے سوا اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ فدیہ دے۔حافظ نے کہا عکرمہ کا یہ اثر مجھ کو موصولاً نہیں ملا۔ ابن منذر نے حسن بصری سے نقل کیا انہوں نے محرم کو تلوار باندھنا مکروہ سمجھا۔ ہتھیار بند ہونا اسی وقت درست ہے جب کسی دشمن کا خوف ہو جیسا کہ باب سے ظاہر ہے۔
1844.
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ماہ ذوالقعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ فرمایاتو اہل مکہ آپ کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا حتی کہ آپ نے ان سے اس شرط پر صلح کی کہ ہتھیارنیام میں ڈال کر مکہ میں داخل ہوں گے۔
تشریح:
(1) محرم کے لیے ضرورت کے وقت ہتھیار بند ہونا جائز ہے کیونکہ اگر ایسے حالات میں ہتھیار ساتھ لے جانا جائز نہ ہوتا تو اہل مکہ مسلمانوں سے صلح میں یہ شرط کیوں لگاتے کہ مکہ میں داخل ہوتے وقت ہتھیار ننگے نہ ہوں؟ (2) اس سے معلوم ہوا کہ محرم حج اور عمرے کے وقت کسی خطرے کے پیش نظر اپنے ساتھ ہتھیار لے جا سکتا ہے اور اس قسم کے حفاظتی اقدامات توکل کے خلاف نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت عکرمہ کے علاوہ وجوب فدیہ کا کوئی بھی قائل نہیں، نیز سلاح سے مراد وہ ہتھیار ہیں جن سے جنگ لڑی جائے۔ جو ہتھیار لباس کی طرح پہنا جاتا ہے اس سے اجتناب کرنا چاہیے جیسا کہ زرہ وغیرہ ہوتی ہے۔ اس سے قتال نہیں کیا جاتا اور یہ قمیص کی طرح ہے۔ محرم آدمی اس کے پہننے سے اجتناب کرے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1792
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1844
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1844
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1844
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
حضرت عکرمہ کا اثر موصولا ہمیں کسی کتاب میں نہیں ملا، البتہ حسن بصری سے مروی ہے کہ وہ محرم کے لیے تلوار لٹکانے کو مکروہ خیال کرتے تھے۔ (فتح الباری:4/76)
عکرمہ نے کہا کہ اگر دشمن کا خوف ہو اور کوئی ہتھیار باندھے تو اسے فدیہ دینا چاہئے لیکن عکرمہ کے سوا اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ فدیہ دے۔حافظ نے کہا عکرمہ کا یہ اثر مجھ کو موصولاً نہیں ملا۔ ابن منذر نے حسن بصری سے نقل کیا انہوں نے محرم کو تلوار باندھنا مکروہ سمجھا۔ ہتھیار بند ہونا اسی وقت درست ہے جب کسی دشمن کا خوف ہو جیسا کہ باب سے ظاہر ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ماہ ذوالقعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ فرمایاتو اہل مکہ آپ کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا حتی کہ آپ نے ان سے اس شرط پر صلح کی کہ ہتھیارنیام میں ڈال کر مکہ میں داخل ہوں گے۔
حدیث حاشیہ:
(1) محرم کے لیے ضرورت کے وقت ہتھیار بند ہونا جائز ہے کیونکہ اگر ایسے حالات میں ہتھیار ساتھ لے جانا جائز نہ ہوتا تو اہل مکہ مسلمانوں سے صلح میں یہ شرط کیوں لگاتے کہ مکہ میں داخل ہوتے وقت ہتھیار ننگے نہ ہوں؟ (2) اس سے معلوم ہوا کہ محرم حج اور عمرے کے وقت کسی خطرے کے پیش نظر اپنے ساتھ ہتھیار لے جا سکتا ہے اور اس قسم کے حفاظتی اقدامات توکل کے خلاف نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت عکرمہ کے علاوہ وجوب فدیہ کا کوئی بھی قائل نہیں، نیز سلاح سے مراد وہ ہتھیار ہیں جن سے جنگ لڑی جائے۔ جو ہتھیار لباس کی طرح پہنا جاتا ہے اس سے اجتناب کرنا چاہیے جیسا کہ زرہ وغیرہ ہوتی ہے۔ اس سے قتال نہیں کیا جاتا اور یہ قمیص کی طرح ہے۔ محرم آدمی اس کے پہننے سے اجتناب کرے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت عکرمہ نے کہا: اگر محرم کو دشمن سے خطرہ ہوتو ہتھیار پہن لے اس صورت میں اسے فدیہ دینا ہوگا، لیکن فدیہ دینے کے متعلق ان سے کسی نے اتفاق نہیں کیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبیداللہ بن موصلی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسرائیل نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسحاق نے بیان کیااور ان سے براءؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ذی قعدہ میں عمرہ کیا تو مکہ والوں نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا، پھر ان سے اس شرط پر صلح ہوئی کہ ہتھیار نیام میں ڈال کر مکہ میں داخل ہوں گے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara: The Prophet (ﷺ) assumed Ihram for Umra in the month of Dhul-Qa'da but the (pagan) people of Makkah refused to admit him into Makkah till he agreed on the condition that he would not bring into Makkah any arms but sheathed.