Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: Hajj of women)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1863.
حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ جب حج سے واپس ہوئے تو حضرت اُم سنان انصاریہ ؓ سے فرمایا: ’’تمھیں حج سے کس بات نے روکا تھا؟‘‘ اس نے عرض کیا کہ فلاں شخص یعنی اس کے شوہر نے۔ اس کے پاس پانی بھرنے کے لیے دو اونٹ تھے۔ ایک پر وہ خود حج کرنے چلے گئے اور دوسرا زمین سیراب کرنے کے لیے تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’(اچھا تم عمرہ کرلو)رمضان میں جو عمرہ کرے وہ حج کے برابر ہے۔ یا(فرمایا) میرےساتھ حج کرنے کے برابر ہوتا ہے۔‘‘ اس روایت کو ابن جریج نے عطاء سے بیان کیا۔ انھوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے سنا، انھوں نے نبی ﷺ سے، اور عبید اللہ نے عبدالکریم سے روایت کیا، انھوں نےعطاء سے انھوں نے حضرت جابر ؓ سے اور انھوں نےنبی ﷺ سے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1809
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1863
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1863
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1863
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ جب حج سے واپس ہوئے تو حضرت اُم سنان انصاریہ ؓ سے فرمایا: ’’تمھیں حج سے کس بات نے روکا تھا؟‘‘ اس نے عرض کیا کہ فلاں شخص یعنی اس کے شوہر نے۔ اس کے پاس پانی بھرنے کے لیے دو اونٹ تھے۔ ایک پر وہ خود حج کرنے چلے گئے اور دوسرا زمین سیراب کرنے کے لیے تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’(اچھا تم عمرہ کرلو)رمضان میں جو عمرہ کرے وہ حج کے برابر ہے۔ یا(فرمایا) میرےساتھ حج کرنے کے برابر ہوتا ہے۔‘‘ اس روایت کو ابن جریج نے عطاء سے بیان کیا۔ انھوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے سنا، انھوں نے نبی ﷺ سے، اور عبید اللہ نے عبدالکریم سے روایت کیا، انھوں نےعطاء سے انھوں نے حضرت جابر ؓ سے اور انھوں نےنبی ﷺ سے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو یزید بن زریع نے خبر دی، کہا ہم کو حبیب معلم نے خبر دی، انہیں عطاءبن ابی رباح نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع سے واپس ہوئے تو آپ ﷺ نے ام سنان انصاریہ عورت ؓ سے دریافت فرمایا کہ تو حج کرنے نہیں گئی؟ انہوں نے عرض کی کہ فلاں کے باپ یعنی میرے خاوند کے پاس دو اونٹ پانی پلانے کے تھے ایک پر تو خود حج کو چلے گئے اور دوسرا ہماری زمین سیراب کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے، اس روایت کو ابن جریج نے عطاءسے سنا، کہا انہوں نے ابن عباس ؓ سے سنا، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے، اور عبید اللہ نے عبدالکریم سے روایت کیا، ان سے عطاءنے ان سے جابر ؓ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے۔
حدیث حاشیہ:
عبید اللہ عن عبدالکریم کی روایت کو ابن ماجہ نے وصل کیا ہے امام بخاری ؒ کا مطلب ان سندوں کے بیان کرنے سے یہ ہے کہ راویوں نے اس میں عطاءپر اختلاف کیا ہے، ابن ابی معلی اور یعقوب ابن عطاءنے بھی حبیب معلم اور ابن جریج کی طرح روایت کی ہے معلوم ہوا کہ عبدالکریم کی روایت شاذ ہے جو اعتبار کے قابل نہیں۔ حدیث میں جس عورت کا ذکر ہے وہ ام سنان ؓ ہیں جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ حج کرنے سے محروم رہ گئی تھیں۔ حج ان پر فرض بھی نہ تھا مگر آنحضرت ﷺ نے ان کی دلجوئی کے لیے فرمایا کہ رمضان میں اگر وہ عمرہ کرلیں تو اس محرومی کا کفارہ ہو جائے گا اس سے رمضان میں عمرہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): When the Prophet (ﷺ) returned after performing his Hajj, he asked Um Sinan Al-Ansari, "What did forbid you to perform Hajj?" She replied, "Father of so-and-so (i.e. her husband) had two camels and he performed Hajj on one of them, and the second is used for the irrigation of our land." The Prophet (ﷺ) said (to her), "Perform 'Umra in the month of Ramadan, (as it is equivalent to Hajj or Hajj with me (in reward)."