باب : اگر کسی نے کعبہ تک پیدل سفر کرنے کی منت مانی؟
)
Sahi-Bukhari:
Penalty of Hunting while on Pilgrimage
(Chapter: Whoever vowed to go on foot to the Ka'bah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1866.
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میری بہن نے بیت اللہ تک پیدل جانے کی نذرمانی اور مجھے حکم دیاکہ نبی ﷺ سے اس کے متعلق سوال کروں، چنانچہ میں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ پیدل بھی چلے اور سوار بھی ہوجائے۔‘‘ حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کرنے والے حضرت ابو الخیر ہیں جو ان سے جدانہ ہوتے تھے۔ اس کے بعد امام بخاری ؓ نے اس حدیث کی ایک دوسری سند ذکر کی ہے۔
تشریح:
(1) حدیث میں مذکور عقبہ بن عامر ؓ کی بہن کا نام ام حبان بنت عامر بتایا گیا ہے، حالانکہ اس کے بھائی کا نام عقبہ بن عامر بن نابی ہے جو انصاری ہیں اور غزوۂ بدر میں شریک ہوئے اور اس کے خاوند کا نام حرام بن محیصہ ہے۔ کتب حدیث میں اس عقبہ کی کوئی روایت نہیں ہے جبکہ حدیث میں جس عقبہ بن عامر کا ذکر ہے اس سے مراد وہ عقبہ ہیں جن کا جہینہ قبیلے سے تعلق ہے اور کتب حدیث میں ان سے کئی ایک احادیث مروی ہیں۔ یہ انصاری نہیں اور نہ غزوۂ بدر میں شریک ہی ہوئے ہیں، لہذا ان کی بہن کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ اس نے نذر مانی تھی کہ اوڑھنی کے بغیر، پیدل، ننگے پاؤں بیت اللہ جائے گی، نیز یہ عورت بھاری بھر کم، کمزور اور چلنے سے عاجز تھی۔ اس سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ اپنے سر پر اوڑھنی لے، سوار ہو جائے اور نذر کے کفارے کے طور پر تین دن کے روزے رکھے۔‘‘ (سنن النسائي، الأیمان والنذور، حدیث:3846) بعض روایات میں اسے اونٹ ذبح کرنے کا حکم دیا گیا۔ (مسندأحمد:201/4) اس کی تفصیل کتاب الأیمان والنذور میں بیان کی جائے گی۔ (فتح الباري:103/4)إن شاءاللہ۔ (2) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں ابو الخیر کا حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے سماع ثابت کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1812
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1866
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1866
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1866
تمہید کتاب
احرام پہننے کے بعد انسان جب حج یا عمرے کی نیت کرتا ہے تو اسے محرم کہتے ہیں۔ اس محرم پر احرام اور حرم کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حج اور عمرے کے مسائل و احکام اور آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد احرام اور حرم کی پابندیاں بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو اپنا مقدس گھر قرار دیا ہے، اسی طرح شہر مکہ کو جس میں یہ گھر بیت اللہ واقع ہے، بلد اللہ الحرام قرار دیا ہے۔ گویا دنیا بھر کے گھروں میں جس طرح کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت کا شرف حاصل ہے، پھر اس نسبت سے اس کی سمت میں کئی کئی میل کے علاقے کو حرم، یعنی واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ادب و احترام کے حوالے سے بہت سے کاموں اور باتوں کی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا میں اجازت ہے، مثلا: ان حدود میں کسی جانور کا شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ درخت کاٹنے اور پتے چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقے میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ گویا پورے علاقۂ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت ہے۔ اسی طرح بیت اللہ میں حاضری کے لیے فقیرانہ لباس، احرام سے متعلق بھی کچھ پابندیاں ہیں جو اسے پہنتے وقت عائد ہو جاتی ہیں، خواہ وہ حدود حرم میں داخل نہ ہوا ہو، جن میں سے ایک شکار کرنے کی ممانعت بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّـهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّـهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٤﴾) "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ ایسے شکار کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے، پھر اس کے بعد جو حد سے گزر گیا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔" (المآئدۃ94:5) اس کے بعد اس پابندی کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ کرو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے احرام اور حرم کی پابندیوں کو بیان کرنے کے لیے چھیالیس مرفوع متصل احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر ان پر پابندیوں کے حوالے سے ستائیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت اور اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ پابندیاں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) احرام کی پابندیاں: ان میں میدانی شکار کی ممانعت سرفہرست ہے۔ اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ تفصیل بیان کی ہے جسے ہم جستہ جستہ بیان کریں گے۔ (2) حرم کی پابندیاں: ان میں حرم کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ حرم میں شکار کو خوفزدہ نہ کیا جائے، وہاں جنگ و قتال اور لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے۔کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں حدود حرم اور حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ ان کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ عنوان کی مناسبت سے کچھ مسائل کا تذکرہ ہے جن کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری تھا: مثلا: محرم اگر دوران احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی نے حج بیت اللہ کی نذر مانی ہے لیکن اسے پورا کیے بغیر مر گیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ایک آدمی پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ بچوں اور عورتوں کے حج کی کیا حیثیت ہے؟ اسی طرح جو ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانتا ہے اسے کس حد تک نذر پوری کرنے کی اجازت ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے علاوہ دیگر اسنادی مباحث بھی بیان کی ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ان گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میری بہن نے بیت اللہ تک پیدل جانے کی نذرمانی اور مجھے حکم دیاکہ نبی ﷺ سے اس کے متعلق سوال کروں، چنانچہ میں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ پیدل بھی چلے اور سوار بھی ہوجائے۔‘‘ حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کرنے والے حضرت ابو الخیر ہیں جو ان سے جدانہ ہوتے تھے۔ اس کے بعد امام بخاری ؓ نے اس حدیث کی ایک دوسری سند ذکر کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث میں مذکور عقبہ بن عامر ؓ کی بہن کا نام ام حبان بنت عامر بتایا گیا ہے، حالانکہ اس کے بھائی کا نام عقبہ بن عامر بن نابی ہے جو انصاری ہیں اور غزوۂ بدر میں شریک ہوئے اور اس کے خاوند کا نام حرام بن محیصہ ہے۔ کتب حدیث میں اس عقبہ کی کوئی روایت نہیں ہے جبکہ حدیث میں جس عقبہ بن عامر کا ذکر ہے اس سے مراد وہ عقبہ ہیں جن کا جہینہ قبیلے سے تعلق ہے اور کتب حدیث میں ان سے کئی ایک احادیث مروی ہیں۔ یہ انصاری نہیں اور نہ غزوۂ بدر میں شریک ہی ہوئے ہیں، لہذا ان کی بہن کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔ اس نے نذر مانی تھی کہ اوڑھنی کے بغیر، پیدل، ننگے پاؤں بیت اللہ جائے گی، نیز یہ عورت بھاری بھر کم، کمزور اور چلنے سے عاجز تھی۔ اس سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ اپنے سر پر اوڑھنی لے، سوار ہو جائے اور نذر کے کفارے کے طور پر تین دن کے روزے رکھے۔‘‘ (سنن النسائي، الأیمان والنذور، حدیث:3846) بعض روایات میں اسے اونٹ ذبح کرنے کا حکم دیا گیا۔ (مسندأحمد:201/4) اس کی تفصیل کتاب الأیمان والنذور میں بیان کی جائے گی۔ (فتح الباري:103/4)إن شاءاللہ۔ (2) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں ابو الخیر کا حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے سماع ثابت کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی کہ ابن جریج نے انہیں خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے سعید بن ابی ایوب نے خبر دی، انہیں یزید بن حبیب نے خبر دی، انہیں ابوالخیر نے خبر دی، کہ عقبہ بن عامر ؓ نے بیان کیا میری بہن نے منت مانی تھی کہ بیت اللہ تک وہ پیدل جائیں گی، پھر انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے بھی پوچھ لو چنانچہ میں نے آپ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ پیدل چلیں اور سوار بھی ہوجائیں۔ یزید نے کہا کہ ابوالخیر ہمیشہ عقبہ ؓ کے ساتھ رہتے تھے۔ ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے یحییٰ بن ایوب نے، ان سے یزید نے ان سے ابوالخیر نے اوران سے عقبہ ؓ نے، پھر یہی حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Uqba bin 'Amir: My sister vowed to go on foot to the Ka’bah, and she asked me to take the verdict of the Prophet (ﷺ) about it. So, I did and the Prophet (ﷺ) said, "She should walk and also should ride."