باب : رمضان کہا جائے یا ماہ رمضان؟اور جن کے نزدیک دونوں لفظوں کی گنجائش ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Should it be said "Ramadan" or "the month of Ramadan"? And whoever thinks that both are permissible)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے رمضان کے روزے رکھے اور آپ ﷺنے فرمایا کہ رمضان سے آگے روزہ نہ رکھو۔یہ باب لا کر امام بخاری نے اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیا جسے ابوعدی نے ابوہریرہ ؓ سے مرفوعاً نکالا ہے کہ رمضان مت کہو۔ رمضان اللہ کا نام ہے، اس کی سند میں ابومعشر ہے، وہ ضعیف الحدیث ہے، لفظ رمضان نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہوا اور شہر رمضان خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا۔ ثابت ہوا کہ دونوں طرح سے اس مہینہ کا نام لیا جاسکتا ہے ان ہر دو احادیث کو خود امام بخاری نے وصل کیا ہے۔
1900.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’جب تم (رمضان کا) چاند دیکھوتو روزہ دیکھو اور جب تم شوال کا چاند دیکھو تو روزہ موقوف کرو۔ اگر مطلع ابر آلود ہوتو اس کے لیے اندازہ کرلو۔‘‘
تشریح:
(1) رمضان کے چاند کا اندازہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے تیس دن پورے کر لو۔ امام بخاری ؒ یہ حدیث اسی مقصد کے لیے لائے ہیں کہ لفظ رمضان لفظ "شهر" کے بغیر استعمال ہو سکتا ہے لیکن اس حدیث میں سرے سے لفظ رمضان استعمال ہی نہیں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے عقیل اور یونس کے حوالے سے جو معلق روایت ذکر کی ہے اس میں ہلال رمضان کے الفاظ ہیں اور یہی ان کا محل استشہاد ہے۔ اس روایت کو علامہ اسماعیلی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ زہری کی روایت کے علاوہ بھی ایک حدیث میں ہلال رمضان کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ (2) بہرحال امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ رمضان یا شہر رمضان کہنے میں کوئی کراہت نہیں کیونکہ دونوں طرح سے احادیث منقول ہیں۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اگر لفظ شہر پر کوئی قرینہ موجود ہو تو جائز ہے بصورت دیگر ناجائز لیکن یہ موقف مرجوح ہے۔ (فتح الباري:146/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1846
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1900
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1900
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1900
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
پہلی حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی حدیث: 1901 کے تحت متصل سند سے اور تفصیل سے روایت کیا ہے۔ دوسری حدیث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی موصولا ذکر کیا ہے۔ (دیکھیے حدیث: 1914) ان روایات میں روزے کی نسبت ماہ رمضان کے بجائے صرف رمضان کی طرف کی گئی ہے جو جواز کی دلیل ہے، اس کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے رمضان کے روزے رکھے اور آپ ﷺنے فرمایا کہ رمضان سے آگے روزہ نہ رکھو۔یہ باب لا کر امام بخاری نے اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیا جسے ابوعدی نے ابوہریرہ ؓ سے مرفوعاً نکالا ہے کہ رمضان مت کہو۔ رمضان اللہ کا نام ہے، اس کی سند میں ابومعشر ہے، وہ ضعیف الحدیث ہے، لفظ رمضان نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہوا اور شہر رمضان خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا۔ ثابت ہوا کہ دونوں طرح سے اس مہینہ کا نام لیا جاسکتا ہے ان ہر دو احادیث کو خود امام بخاری نے وصل کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’جب تم (رمضان کا) چاند دیکھوتو روزہ دیکھو اور جب تم شوال کا چاند دیکھو تو روزہ موقوف کرو۔ اگر مطلع ابر آلود ہوتو اس کے لیے اندازہ کرلو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) رمضان کے چاند کا اندازہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے تیس دن پورے کر لو۔ امام بخاری ؒ یہ حدیث اسی مقصد کے لیے لائے ہیں کہ لفظ رمضان لفظ "شهر" کے بغیر استعمال ہو سکتا ہے لیکن اس حدیث میں سرے سے لفظ رمضان استعمال ہی نہیں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے عقیل اور یونس کے حوالے سے جو معلق روایت ذکر کی ہے اس میں ہلال رمضان کے الفاظ ہیں اور یہی ان کا محل استشہاد ہے۔ اس روایت کو علامہ اسماعیلی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ زہری کی روایت کے علاوہ بھی ایک حدیث میں ہلال رمضان کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ (2) بہرحال امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ رمضان یا شہر رمضان کہنے میں کوئی کراہت نہیں کیونکہ دونوں طرح سے احادیث منقول ہیں۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اگر لفظ شہر پر کوئی قرینہ موجود ہو تو جائز ہے بصورت دیگر ناجائز لیکن یہ موقف مرجوح ہے۔ (فتح الباري:146/4)
ترجمۃ الباب:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جس نے رمضان کے روزے رکھے۔ "نیز فرمایا: "رمضان سے پہلے استقبالی روزے نہ رکھو۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے سالم نے خبر دی کہ ابن عمر ؓ نے کہا میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب رمضان کا چاند دیکھو تو روزہ شروع کردو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو روزہ افطار کر دو اور اگر ابر ہو تو اندازہ سے کام کرو۔ ( یعنی تیس روزے پورے کر لو ) اور بعض نے لیث سے بیان کیا کہ مجھ سے عقیل اور یونس نے بیان کیا کہ ” رمضان کا چاند “ مراد ہے۔
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ رمضان شریف کے روزے شروع کرنے اور عید الفطر منانے ہر دو کے لیے رویت ہلال ضروری ہے، اگر ہر دو مرتبہ 29 تاریخ میں رویت ہلال نہ ہو تو تیس دن پورے کرنے ضروری ہیں، عید کے چاند میں لوگ بہت سی بے اعتدالیاں کر جاتے ہیں جو نہ ہونی چاہئیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "When you see the crescent (of the month of Ramadan), start fasting, and when you see the crescent (of the month of Shawwal), stop fasting; and if the sky is overcast (and you can't see It) then regard the crescent (month) of Ramadan (as of 3O days)".