باب : رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزے نہ رکھے جائیں
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Not to observe Saum for a day or two ahead of Ramadan)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1914.
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھے لیکن اگر کوئی شخص ا پنے معمول کے روزے رکھتا ہو تو وہ اس دن روزہ رکھ لے۔‘‘
تشریح:
(1) استقبال رمضان کے پیش نظر اس ماہ مبارک سے ایک یا دو دن پہلے روزہ جائز نہیں۔ مخصوص حالات کے پیش نظر ان دنوں کے روزے رکھے جا سکتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ ایک شخص پیر یا جمعرات کا روزہ رکھتا ہے۔ اتفاق سے شعبان کا آخری دن پیر یا جمعرات ہو تو اس دن کا روزہ رکھنا جائز ہے۔ ٭ کسی کے ذمے قضا کے روزے تھے وہ رمضان سے ایک یا دو دن قبل انہیں رکھ سکتا ہے۔ ٭ کفارے اور نذر کا روزہ بھی ان دنوں میں رکھا جا سکتا ہے، البتہ رمضان کے استقبال کی نیت سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھنا درست نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے روزوں کو رؤیت ہلال سے مقید فرمایا ہے۔ گویا رؤیت ہلال رمضان کے روزوں کی علت ہے اور جس نے بطور استقبال رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھا اس نے علت میں طعن کیا اور اسے معیوب قرار دیا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ احتیاط کے پیش نظر رمضان سے ایک یا دو دن پہلے استقبالی روزہ رکھنا منع ہے۔ امام ترمذی ؒ نے بھی اس حدیث کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:165/4) اس حکم امتناعی کی وجہ یہ ہے کہ آئندہ رمضان کے روزے رکھنے میں قوت اور نشاط حاصل ہو، نیز نفلی روزہ، فرض روزے کے ساتھ مل کر لوگوں میں شک نہ پیدا کر دے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1860
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1914
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1914
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1914
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھے لیکن اگر کوئی شخص ا پنے معمول کے روزے رکھتا ہو تو وہ اس دن روزہ رکھ لے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) استقبال رمضان کے پیش نظر اس ماہ مبارک سے ایک یا دو دن پہلے روزہ جائز نہیں۔ مخصوص حالات کے پیش نظر ان دنوں کے روزے رکھے جا سکتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ ایک شخص پیر یا جمعرات کا روزہ رکھتا ہے۔ اتفاق سے شعبان کا آخری دن پیر یا جمعرات ہو تو اس دن کا روزہ رکھنا جائز ہے۔ ٭ کسی کے ذمے قضا کے روزے تھے وہ رمضان سے ایک یا دو دن قبل انہیں رکھ سکتا ہے۔ ٭ کفارے اور نذر کا روزہ بھی ان دنوں میں رکھا جا سکتا ہے، البتہ رمضان کے استقبال کی نیت سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھنا درست نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے روزوں کو رؤیت ہلال سے مقید فرمایا ہے۔ گویا رؤیت ہلال رمضان کے روزوں کی علت ہے اور جس نے بطور استقبال رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھا اس نے علت میں طعن کیا اور اسے معیوب قرار دیا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ احتیاط کے پیش نظر رمضان سے ایک یا دو دن پہلے استقبالی روزہ رکھنا منع ہے۔ امام ترمذی ؒ نے بھی اس حدیث کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:165/4) اس حکم امتناعی کی وجہ یہ ہے کہ آئندہ رمضان کے روزے رکھنے میں قوت اور نشاط حاصل ہو، نیز نفلی روزہ، فرض روزے کے ساتھ مل کر لوگوں میں شک نہ پیدا کر دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص رمضان سے پہلے ( شعبان کی آخری تاریخوں میں ) ایک یا دو دن کے روزے نہ رکھے البتہ اگر کسی کو ان میں روزے رکھنے کی عادت ہو تو وہ اس دن بھی روزہ رکھ لے۔
حدیث حاشیہ:
مثلاً کوئی ہر ماہ میں پیر یا جمعرات کا یا کسی اور دن کا روزہ ہر ہفتہ رکھتا ہے اور اتفاق سے وہ دن شعبان کی آخری تاریخوں میں آگیا تووہ یہ روزہ رکھ لے، نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت اس لیے بھی وارد ہوئی ہے تاکہ رمضان کے لیے طاقت قائم رہے اور کمزوری لاحق نہ ہو۔ الغرض ہر ہر قدم پر شریعت کے امر و نہی کو سامنے رکھنا یہی دین اور یہی عبادت اور یہی اسلام ہے اور یہی ایمان، ہر ہر جگہ اپنی عقل کا دخل ہرگز ہرگز نہ ہونا چاہئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "None of you should fast a day or two before the month of Ramadan unless he has the habit of fasting (Nawafil) (and if his fasting coincides with that day) then he can fast that day."