Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Sexual intercourse with wife in Ramadan.)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوہریرہ ؓ سے مرفوعاً یوں مروی ہے کہ اگر کسی نے رمضان میں کسی عذر اور مرض کے بغیر ایک دن کا بھی روزہ نہیں رکھا تو ساری عمر کے روزے بھی اس کا بدلہ نہ ہوں گے اور ابن مسعودؓ کا بھی یہی قول ہے اور سعید بن مسیب، شعبی اور ابن جبیر اور ابراہیم اور قتادہ اور حمام نے بھی فرمایا کہ اس کے بدلہ میں ایک دن روزہ رکھنا چاہئے۔
1935.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ وہ جل گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تجھے کیا ہوا ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا کہ میں رمضان میں (دن کے وقت) بیوی سے صحبت کرلی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے پاس کھجوروں کا ایک تھیلا آیا جسے عرق کہاجاتا تھا، آپ نے فرمایا؛ ’’جلنے والا کہاں ہے؟‘‘ اس نے کہا کہ میں ادھر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے صدقہ کرو۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شخص نے رمضان المبارک میں دن کے وقت قصداً صحبت کی تھی کیونکہ بھول کر ایسا کرنے والا بالاتفاق گناہ گار نہیں۔ (2) جلنے کا مطلب یہ ہے کہ اس گناہ کی بنا پر وہ قیامت کے دن آگ میں جلے گا۔ اس روایت سے امام مالک نے استدلال کیا ہے کہ رمضان میں جماع سے روزہ توڑنے والے کے ذمے صرف ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے، دو ماہ کے روزے یا غلام کو آزاد کرنا نہیں، لیکن اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں کیونکہ اس حدیث میں اختصار ہے۔ تفصیلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’گردن آزاد کرو۔‘‘ اس نے کہا: میں اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا: ’’ساٹھ مساکین کو کھانا کھلاؤ۔‘‘ اس نے عرض کی: میرے پاس کچھ نہیں۔ اگرچہ اس روایت میں روزے رکھنے کا ذکر نہیں، تاہم دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے۔ (فتح الباري:208/4) واضح رہے کہ کفارے کی ترتیب یہ ہے: ایک گردن آزاد کی جائے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے جائیں۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا جائے۔ یہ کفارہ اس شخص کے ذمے ہے جو روزے کی حالت میں دانستہ اپنی بیوی سے مباشرت کرے۔ دانستہ کھانے پینے سے روزہ توڑنے پر یہ کفارہ نہیں کیونکہ حدیث مباشرت کے متعلق ہے، کھانے پینے کو مباشرت پر قیاس کرنا صحیح نہیں، اس لیے کہ عبادات میں قیاس نہیں چلتا۔ اگرچہ ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے روزہ توڑ دیا تو آپ نے یہ کفارہ بتایا لیکن یہ روایت مجمل ہے جسے دیگر روایات نے واضح کر دیا ہے کہ اس نے مباشرت کر کے روزہ توڑا تھا۔ (فتح الباري:211/4) البتہ بھول کر مباشرت کرنے پر کوئی کفارہ یا قضا نہیں ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اگر کوئی بھول کر رمضان میں روزہ کھول لے تو اس پر قضا اور کفارہ نہیں ہے۔ (المستدرك للحاكم:430/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1878
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1935
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1935
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1935
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
رمضان میں دن کے وقت قصداً بیوی سے جماع کرنے کا حکم بتانا مقصود ہے کیونکہ رات کے وقت جماع کرنا جائز ہے اور نادانستہ جماع کرنے کا حکم پہلے بیان ہو چکا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے اثر کو اصحاب السنن نے بیان کیا ہے۔ (سنن ابی داؤد،الصیام،حدیث:2396،واسنادہ ضعیف،انظر:ضعیف سنن ابی داؤد،حدیث:2396) اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اثر امام بیہقی نے متصل سند سے روایت کیا ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:4/228) امام بخاری رحمہ اللہ نے تقابل کے طور پر حضرت سعید بن مسیب وغیرہ کا قول ذکر کیا ہے کہ بلاوجہ روزہ ترک کر دینے پر وہ قضا لازم کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ایسے مفطر پر قضا واجب نہیں کرتے، حالانکہ یہ بات ان حضرات کے ذوق سے بعید ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تقابل مقصود نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ہر ایک کا قول نقل کر دیا ہے لیکن انجام اور نتیجہ دونوں کا ایک ہے۔ حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ دانستہ روزہ افطار کر دینے سے فضیلت ادا کسی صورت میں حاصل نہیں ہو سکتی، اگرچہ وہ زندگی بھر بطور قضا روزے رکھے لیکن یہ قول وجوب قضا کے منافی نہیں۔ ہمارے نزدیک مذکورہ اقوال زجروتوبیخ اور مبالغے پر محمول ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مذکورہ آثار پیش کرنے سے یہ مقصد ہے کہ روزے کی حرمت پامال کرنے پر قضا کا واجب ہونا اس میں اسلاف کا اختلاف ہے، البتہ دن کے وقت جماع سے روزہ توڑنے والے کو قضا کے علاوہ کفارہ بھی دینا ہو گا۔ (فتح الباری:4/206) سعید بن مسیب اور دیگر ائمہ کے اقوال کی تخریج کے لیے دیکھیے: تغلیق التعلیق علی صحیح البخاری: 3/173-175
اور ابوہریرہ ؓ سے مرفوعاً یوں مروی ہے کہ اگر کسی نے رمضان میں کسی عذر اور مرض کے بغیر ایک دن کا بھی روزہ نہیں رکھا تو ساری عمر کے روزے بھی اس کا بدلہ نہ ہوں گے اور ابن مسعودؓ کا بھی یہی قول ہے اور سعید بن مسیب، شعبی اور ابن جبیر اور ابراہیم اور قتادہ اور حمام نے بھی فرمایا کہ اس کے بدلہ میں ایک دن روزہ رکھنا چاہئے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ وہ جل گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تجھے کیا ہوا ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا کہ میں رمضان میں (دن کے وقت) بیوی سے صحبت کرلی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے پاس کھجوروں کا ایک تھیلا آیا جسے عرق کہاجاتا تھا، آپ نے فرمایا؛ ’’جلنے والا کہاں ہے؟‘‘ اس نے کہا کہ میں ادھر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے صدقہ کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شخص نے رمضان المبارک میں دن کے وقت قصداً صحبت کی تھی کیونکہ بھول کر ایسا کرنے والا بالاتفاق گناہ گار نہیں۔ (2) جلنے کا مطلب یہ ہے کہ اس گناہ کی بنا پر وہ قیامت کے دن آگ میں جلے گا۔ اس روایت سے امام مالک نے استدلال کیا ہے کہ رمضان میں جماع سے روزہ توڑنے والے کے ذمے صرف ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے، دو ماہ کے روزے یا غلام کو آزاد کرنا نہیں، لیکن اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں کیونکہ اس حدیث میں اختصار ہے۔ تفصیلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’گردن آزاد کرو۔‘‘ اس نے کہا: میں اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا: ’’ساٹھ مساکین کو کھانا کھلاؤ۔‘‘ اس نے عرض کی: میرے پاس کچھ نہیں۔ اگرچہ اس روایت میں روزے رکھنے کا ذکر نہیں، تاہم دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے۔ (فتح الباري:208/4) واضح رہے کہ کفارے کی ترتیب یہ ہے: ایک گردن آزاد کی جائے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے جائیں۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا جائے۔ یہ کفارہ اس شخص کے ذمے ہے جو روزے کی حالت میں دانستہ اپنی بیوی سے مباشرت کرے۔ دانستہ کھانے پینے سے روزہ توڑنے پر یہ کفارہ نہیں کیونکہ حدیث مباشرت کے متعلق ہے، کھانے پینے کو مباشرت پر قیاس کرنا صحیح نہیں، اس لیے کہ عبادات میں قیاس نہیں چلتا۔ اگرچہ ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے روزہ توڑ دیا تو آپ نے یہ کفارہ بتایا لیکن یہ روایت مجمل ہے جسے دیگر روایات نے واضح کر دیا ہے کہ اس نے مباشرت کر کے روزہ توڑا تھا۔ (فتح الباري:211/4) البتہ بھول کر مباشرت کرنے پر کوئی کفارہ یا قضا نہیں ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اگر کوئی بھول کر رمضان میں روزہ کھول لے تو اس پر قضا اور کفارہ نہیں ہے۔ (المستدرك للحاكم:430/1)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے مرفوع روایت ہے: "جس نے رمضان میں کسی عذر اور بیماری کے بغیر روزہ چھوڑ دیا اگر وہ ساری زندگی روزے رکھتا رہے پھر بھی اس کی فضیلت کو نہیں پاسکتا۔ "حضرت ابن مسعود ؓ نے بھی یہی کہا ہے۔ حضرت سعید بن مسیب، امام شعبی، سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی، قتادہ ، اورحماد نے کہا ہے کہ اس کے بجائے ایک دن ایک روزہ بطور قضا رکھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم نے یزید بن ہارون سے سنا، ان سے یحییٰ نے ( جو سعید کے صاحبزادے ہیں ) کہا، انہیں عبدالرحمن بن قاسم نے خبر دی، انہیں محمد بن جعفر بن زبیر بن عوام بن خویلد نے اور انہیں عباد بن عبداللہ بن زبیر ؓ نے خبر دی کہ انہوں نے عائشہ ؓ سے سنا، آپ نے کہا کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں دوزخ میں جل چکا۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہوئی؟ اس نے کہا کہ رمضان میں میں نے ( روزے کی حالت میں ) اپنی بیوی سے ہم بستری کر لی، تھوڑی دیر میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ( کھجور کا ) ایک تھیلہ جس کا نام عرق تھا، پیش کیا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ دوزخ میں جلنے والا شخص کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ حاضر ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ لے تو اسے خیرات کردے۔
حدیث حاشیہ:
آگے یہی واقعہ تفصیل سے آرہا ہے جس میں آپ نے اس شخص کو بطور کفارہ پے در پے دو ماہ کے روزوں کا حکم فرمایا تھا یا پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جرم ایک سنگین جرم ہے، جس کا کفارہ یہی ہے جو آنحضرت ﷺ نے بتلا دیا اور سعید بن مسیب وغیرہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ سزا مذکورہ کے علاوہ یہ روزہ بھی اسے مزید لازماً رکھنا ہوگا۔ امام اوزاعی نے کہا کہ اگر دو ماہ کے روزے رکھے تو قضا لازم نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): A man came to the Prophet (ﷺ) and said that he had been burnt (ruined). The Prophet (ﷺ) asked him what was the matter. He replied, "I had sexual intercourse with my wife in Ramadan (while I was fasting)." Then a basket full of dates was brought to the Prophet (ﷺ) and he asked, "Where is the burnt (ruined) man?" He replied, "I am present." The Prophet (ﷺ) told him to give that basket in charity (as expiation).