باب : روزہ دار کا پچھنا لگوانا اور قے کرنا کیسا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Cupping and vomiting in Saum (fast))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور مجھ سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے معاویہ بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عمر بن حکم بن ثوبان نے اور انہوں نے ابوہریرہ ؓ سنا کہ جب کوئی قے کرے تو روزہ نہیں ٹوٹتا کیوں کہ اس سے تو چیز باہر آتی ہے اند رنہیں جاتی اور ابوہریرؓسے یہ بھی منقول ہے کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن پہلی روایت زیادہ صحیح ہے اور ابن عباس اور عکرمہؓ نے کہاکہ روزہ ٹوٹتا ہے ان چیزوں سے جو اندر جاتی ہیں ان سے نہیں جو باہر آتی ہیں۔ ابن عمر ؓ بھی روزہ کی حالت میں پچھنا لگواتے لیکن بعد میں دن کو اسے ترک کردیا تھا اور رات میں پچھنا لگوانے لگے تھے اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بھی پچھنا لگوایا تھا اور سعد بن ابی وقاص اور زید بن ارقم اور ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے روزہ کی حالت میں پچھنا لگوایا، بکیر نے ام علقمہ سے کہا کہ ہم عائشہؓ کے ہاں ( روزہ کی حالت میں ) پچھنا لگوایا کرتے تھے اور آپ ہمیں روکتی نہیں تھیں، او رحسن بصری کئی صحابہ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا پچھنا لگانے والے اور لگوانے والے ( دونوں کا ) روزہ ٹوٹ گیا اور مجھ سے عیاش بن ولید نے بیان کیا او ران سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا اور ان سے حسن بصری نے ایسی ہی روایت کی، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا نبی کریم ﷺ سے روایت ہے تو انہوں نے کہا کہ ہاں پھر کہنے لگے اللہ بہتر جانتا ہے۔تشریح : اس کلام سے اس حدیث کا ضعف نکلتا ہے گو متعدد صحابہ سے مروی ہے مگر ہر توثیق میں کلام ہے امام احمد نے کہا کہ ثوبان اور شداد سے یہ حدیث صحیح ہوئی اور ابن خزیمہ نے بھی ایسا ہی کہا اور ابن معین کا یہ کہنا کہ اس باب میں کچھ ثابت نہیں یہ ہٹ دھرمی ہے اور امام بخاری اس کے بعد عبداللہ بن عباس ؓکی حدیث لائے اور یہ اشارہ کیا کہ ابن عباس ؓ کی حدیث از روئے سند قوی ہے۔ ( وحیدی ) قے اور پچھنا لگانا ان ہر دو مسئلوں میں سلف کا اختلا ف ہے جمہور کا قول یہ ہے کہ اگر قے خود بخود ہو جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا اور جو عمداً قے کرے ٹوٹ جاتا ہے اور پچھنا لگانے میں بھی جمہور کا قول یہ ہے کہ اس سے روزہ نہیں جاتا اب اسی پر فتوی ہے جس حدیث میں روزہ ٹوٹنے کا ذکر ہے وہ منسوخ ہے جیسا کہ دوسری جگہ یہ بحث آرہی ہے۔
1938.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حالت احرام اور حالت روزہ میں پچھنے لگوائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1881
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1938
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1938
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1938
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت روزے دار کے لیے قے اور سینگی لگانے کے احکام بیان کیے ہیں لیکن واضح طور پر دو ٹوک الفاظ میں کوئی فیصلہ نہیں کیا کیونکہ اس میں متقدمین کا اختلاف ہے، البتہ جو آثار پیش کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بحالت روزہ قے آنے اور سینگی لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ امام بخاری نے اس مقام پر خلاف معمول دو الگ الگ چیزوں کو ایک ہی عنوان کے تحت جمع کیا ہے، حالانکہ ان کی عادت ہے کہ جب ایک حدیث دو چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے تو اس پر الگ الگ عنوان قائم کرتے ہیں؟ چونکہ ان دونوں میں اخراج ہوتا ہے جو افطار کا باعث نہیں بنتا، اس لیے ان دونوں کو ایک ہی عنوان میں جمع کر دیا ہے۔ اس سے امام بخاری کی فراست و لیاقت طبع کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا اثر پیش کیا ہے کہ قے کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، پھر انہوں نے ایک قاعدہ بیان کیا کہ روزہ اس چیز سے فاسد ہوتا ہے جو پیٹ میں داخل ہو، باہر نکلنے والی چیز سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔ یہ قاعدہ عمومی ہو سکتا ہے کلی نہیں کیونکہ خروج منی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن منی کے اخراج کا عمومی سبب دخول ہے، اس لیے ضابطہ اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ قے آنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو اپنی کتاب "التاریخ الکبیر" میں بیان کیا ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: "جسے روزے کی حالت میں قے آ جائے اس پر قضا نہیں اور اگر جان بوجھ کر قے کرے تو اس پر قضا ہے۔" لیکن امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ روایت صحیح نہیں۔ لیکن ان دونوں اقوال کو بایں طور جمع کیا جا سکتا ہے کہ افطار اس صورت میں ہے جب دانستہ قے کرے اور غلبہ قے کی صورت میں عدم افطار ہے۔ ائمہ اربعہ کا یہی موقف ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ غلبۂ قے کی صورت میں اس کا پیٹ میں جانے کا خوف نہیں کیونکہ طبیعت نفس مدافعت کرتی ہے اور جب دانستہ قے کی جائے تو طبیعت مدفوع حصہ سے بخل کرتی ہے اور اس کے واپس لوٹنے کا احتمال رہتا ہے، اس لیے ایسا کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ (فتح الباری:4/223) اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے سینگی لگوانے کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول پیش کیا ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ روزہ اس چیز سے ٹوٹتا ہے جو پیٹ میں داخل ہو اور اس چیز سے نہیں ٹوٹتا جو پیٹ سے خارج ہو۔ اسے مصنف ابن ابی شیبہ (4/83) میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح حجرت عکرمہ کا قول بھی مصنف ابن ابی شیبہ (4/85) میں مذکور ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر مؤطا امام مالک میں بیان ہوا ہے کہ آپ بحالت روزہ سینگی لگوا لیتے تھے پھر کمزوری کی بنا پر اسے ترک کر دیا اور رات کو لگواتے تھے۔ (المؤطا للامام مالک:1/274،حدیث:675) اس کے علاوہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بہت محتاط قسم کے انسان تھے، شاید اس احتیاط کے پیش نظر آپ نے اسے ترک کیا ہو گا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے اثر کو بھی امام ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں متصل سند سے بیان کیا ہے کہ وہ رات کو سینگی لگواتے تھے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام مالک رحمہ اللہ نے مؤطا میں ذکر کیا ہے۔ (المؤطاللامام مالک:1/275،حدیث:676) زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا اثر مصنف عبدالرزاق (4/214) میں متصل سند سے مذکور ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا اثر ابن ابی شیبہ نے موصولاً ذکر کیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:4/85) ام علقمہ کا اثر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں موصولاً نقل کیا ہے۔ (التاریخ الکبیر:2/180) حسن بصری کی مرفوع روایت امام بیہقی نے ذکر کی ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی:4/265)
اور مجھ سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے معاویہ بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عمر بن حکم بن ثوبان نے اور انہوں نے ابوہریرہ ؓ سنا کہ جب کوئی قے کرے تو روزہ نہیں ٹوٹتا کیوں کہ اس سے تو چیز باہر آتی ہے اند رنہیں جاتی اور ابوہریرؓسے یہ بھی منقول ہے کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن پہلی روایت زیادہ صحیح ہے اور ابن عباس اور عکرمہؓ نے کہاکہ روزہ ٹوٹتا ہے ان چیزوں سے جو اندر جاتی ہیں ان سے نہیں جو باہر آتی ہیں۔ ابن عمر ؓ بھی روزہ کی حالت میں پچھنا لگواتے لیکن بعد میں دن کو اسے ترک کردیا تھا اور رات میں پچھنا لگوانے لگے تھے اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بھی پچھنا لگوایا تھا اور سعد بن ابی وقاص اور زید بن ارقم اور ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے روزہ کی حالت میں پچھنا لگوایا، بکیر نے ام علقمہ سے کہا کہ ہم عائشہؓ کے ہاں ( روزہ کی حالت میں ) پچھنا لگوایا کرتے تھے اور آپ ہمیں روکتی نہیں تھیں، او رحسن بصری کئی صحابہ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا پچھنا لگانے والے اور لگوانے والے ( دونوں کا ) روزہ ٹوٹ گیا اور مجھ سے عیاش بن ولید نے بیان کیا او ران سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا اور ان سے حسن بصری نے ایسی ہی روایت کی، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا نبی کریم ﷺ سے روایت ہے تو انہوں نے کہا کہ ہاں پھر کہنے لگے اللہ بہتر جانتا ہے۔تشریح : اس کلام سے اس حدیث کا ضعف نکلتا ہے گو متعدد صحابہ سے مروی ہے مگر ہر توثیق میں کلام ہے امام احمد نے کہا کہ ثوبان اور شداد سے یہ حدیث صحیح ہوئی اور ابن خزیمہ نے بھی ایسا ہی کہا اور ابن معین کا یہ کہنا کہ اس باب میں کچھ ثابت نہیں یہ ہٹ دھرمی ہے اور امام بخاری اس کے بعد عبداللہ بن عباس ؓکی حدیث لائے اور یہ اشارہ کیا کہ ابن عباس ؓ کی حدیث از روئے سند قوی ہے۔ ( وحیدی ) قے اور پچھنا لگانا ان ہر دو مسئلوں میں سلف کا اختلا ف ہے جمہور کا قول یہ ہے کہ اگر قے خود بخود ہو جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا اور جو عمداً قے کرے ٹوٹ جاتا ہے اور پچھنا لگانے میں بھی جمہور کا قول یہ ہے کہ اس سے روزہ نہیں جاتا اب اسی پر فتوی ہے جس حدیث میں روزہ ٹوٹنے کا ذکر ہے وہ منسوخ ہے جیسا کہ دوسری جگہ یہ بحث آرہی ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حالت احرام اور حالت روزہ میں پچھنے لگوائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو ہریرہ ؓہ نے فرمایا کہ جب کوئی قے کرے تواس کا روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ وہ باہر نکالتا ہے کچھ داخل نہیں کرتا۔ حضرت ابوہریرہ ؓہی سے منقول ہے کہ اس کا روزہ جاتارہتا ہے۔ لیکن پہلی بات ہی صحیح ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اورحضرت عکرمہ کہتے ہیں کہ روزہ اس چیز سے ٹوٹتا ہے جو داخل ہو اور اس سے نہیں جاتا جو خارج ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ روزے کی حالت میں سینگی لگواتے تھے۔ پھر انہوں نے اس عمل کر ترک کردیا اور رات کے وقت سینگی لگوانا شروع کردی۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓنے بھی رات کے وقت پچھنے لگوائے۔ حضرت سعد، ؓ حضرت زید ؓبن ارقم اور حضرت ام سلمہ ؓ عنہا سے مروی ہے کہ انھوں نے بحالت روزہ پچھنے لگوائے۔ ام علقمہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓکی موجودگی میں ہم پچھنے لگواتے تھے لیکن وہ ہمیں منع نہیں فرماتی تھیں۔ حسن بصری نے کئی ایک حضرات سے مرفوع روایت بیان کیا ہے۔ : "سینگی لگانے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ جاتا رہتا ہے۔ "عیاش نے بیان کیا، انھیں عبدالاعلیٰ نے خبر دی، انھوں نے کہا: ہمیں یونس بن حسن بصری سے اس جیسی خبردی ہے۔ ان سے کہا گیا کہ یہ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے؟توا نھوں نے فرمایا: جی ہاں، پھر کہا: اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، ان سے وہیب نے، وہ ایوب سے، وہ عکرمہ سے، وہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے احرام میں اور روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) was cupped while he was in the state of lhram, and also while he was observing a fast.