باب : نبی کریم ﷺ کے اصحاب ؓ ( سفر میں ) روزہ رکھتے یا نہ رکھتے وہ ایک دوسرے پر نکتہ چینی نہیں کیا کرتے تھے۔
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Not to criticize each other for observing Saum or not (on journeys))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1947.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ سفر کیا کرتے تھے، روزہ رکھنے والا، ترک کرنے والے پر اور چھوڑنے والا روزے دار پر عیب نہیں لگاتا تھا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جن کا موقف ہے کہ دوران سفر میں روزہ رکھنا بے سود اور لاحاصل ہے، اس کا کوئی ثواب نہیں۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سفر میں اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو روزہ رکھنے والوں کو اجازت نہیں کہ وہ اس پر زبان طعن دراز کریں کیونکہ روزہ نہ رکھنے والا شرعی رخصت پر عمل پیرا ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کو شرعی رخصت پر عمل کرنے سے منع کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ﴾(البقرة185:2) ’’جو شخص بیمار ہو یا دوران سفر میں ہو تو وہ روزہ چھوڑ دے اور بعد میں دوسرے دنوں سے اس گنتی کو پورا کر لے۔‘‘ امام بخاری ؒ کا موقف یہ ہے کہ اگر دوران سفر میں روزہ رکھنے سے انسان کو انتہائی تکلیف سے دوچار ہونا پڑے تو یہ اس کے لیے قابل ملامت عیب ہے اور جو اس حالت کو نہ پہنچے تو اس کے لیے روزہ رکھنا یا چھوڑ دینا باعث عیب نہیں۔ صحیح مسلم میں اس کی مزید وضاحت ہے، حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جنگ پر جاتے، اس دوران میں کوئی بھی روزے دار، دوسروں کو ملامت نہ کرتا اور نہ روزہ ترک کرنے والا ہی دوسروں پر عیب لگاتا۔ جسے روزہ رکھنے کی ہمت ہوتی وہ روزہ رکھ کر اچھا کام کرتا اور جو اپنے اندر کمزوری محسوس کرتا وہ اسے چھوڑ کر اچھا کام کرتا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2618(1116)) (3) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: یہ حدیث اس سلسلے میں اختلاف کو ختم کرنے کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ (فتح الباري:237/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1890
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1947
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1947
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1947
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ سفر کیا کرتے تھے، روزہ رکھنے والا، ترک کرنے والے پر اور چھوڑنے والا روزے دار پر عیب نہیں لگاتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جن کا موقف ہے کہ دوران سفر میں روزہ رکھنا بے سود اور لاحاصل ہے، اس کا کوئی ثواب نہیں۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سفر میں اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو روزہ رکھنے والوں کو اجازت نہیں کہ وہ اس پر زبان طعن دراز کریں کیونکہ روزہ نہ رکھنے والا شرعی رخصت پر عمل پیرا ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کو شرعی رخصت پر عمل کرنے سے منع کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ﴾(البقرة185:2) ’’جو شخص بیمار ہو یا دوران سفر میں ہو تو وہ روزہ چھوڑ دے اور بعد میں دوسرے دنوں سے اس گنتی کو پورا کر لے۔‘‘ امام بخاری ؒ کا موقف یہ ہے کہ اگر دوران سفر میں روزہ رکھنے سے انسان کو انتہائی تکلیف سے دوچار ہونا پڑے تو یہ اس کے لیے قابل ملامت عیب ہے اور جو اس حالت کو نہ پہنچے تو اس کے لیے روزہ رکھنا یا چھوڑ دینا باعث عیب نہیں۔ صحیح مسلم میں اس کی مزید وضاحت ہے، حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جنگ پر جاتے، اس دوران میں کوئی بھی روزے دار، دوسروں کو ملامت نہ کرتا اور نہ روزہ ترک کرنے والا ہی دوسروں پر عیب لگاتا۔ جسے روزہ رکھنے کی ہمت ہوتی وہ روزہ رکھ کر اچھا کام کرتا اور جو اپنے اندر کمزوری محسوس کرتا وہ اسے چھوڑ کر اچھا کام کرتا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2618(1116)) (3) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: یہ حدیث اس سلسلے میں اختلاف کو ختم کرنے کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ (فتح الباري:237/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ( رمضان میں ) سفر کیا کرتے تھے۔ ( سفر میں بہت سے روزے سے ہوتے اور بہت سے بے روزہ ہوتے ) لیکن روزے دار بے روزہ دار پر اور بے روزہ دار روزے دار پر کسی قسم کی عیب جوئی نہیں کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے اور یہ بھی کہ سفر میں کوئی روزہ نہ رکھے تو رکھنے والوں کو اجازت نہیں ہے کہ وہ اس پر زبان طعن دراز کریں۔ وہ شرعی رخصت پر عمل کر رہا ہے کسی کو یہ حق نہیں وہ اسے شرعی رخصت سے روک سکے اور ہر شرعی رخصت کے لیے یہ بطور اصول کے ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): We used to travel with the Prophet (ﷺ) and neither did the fasting persons criticize those who were not fasting, nor did those who were not fasting criticize the fasting ones.