باب : پانی وغیرہ جو چیز بھی پاس ہو اس سے روزہ افطار کرلینا چاہئے
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Iftar (to break the Saum (fast)))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1956.
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک سفر کیا۔ آپ نے روزہ رکھاہوا تھا۔ جب سورج غروب ہو گیا تو آپ نے(کسی سے) فرمایا: ’’اتر کر ہمارے لیے ستو تیار کر۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! شام تو ہونے دیجئے آپ نے فرمایا: ’’اتر کر ہمارے لیے ستو تیار کر۔‘‘ اس نے پھر عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! ابھی دن باقی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اتر اور ہمارے لیے ستو بنا۔‘‘ وہ اترا اور آپ کے لیے ستو تیار کیے، پھر آپ نے فرمایا: ’’جب تم رات کو دیکھو کہ وہ ادھر سے آگئی ہے تو روزے دار اپنا روزہ افطار کردے۔‘‘ آپ نے ا پنی انگشت مبارک سے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔
تشریح:
(1) ستو چونکہ پانی میں تیار کیے جاتے ہیں اور اس وقت یہی کچھ موجود تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں تیار کرنے کا حکم دیا۔ امام بخاری ؒ نے اسی سے عنوان ثابت کیا ہے۔ اس کے علاوہ ترمذی میں ہے کہ روزے دار کو چاہیے کہ وہ کھجور سے روزہ افطار کرے اور اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے روزہ کھول لے۔ (سنن الترمذي، الصیام، حدیث:694) (2) چونکہ افطاری کے وقت روزے دار کی دعا قبول ہوتی ہے، اس لیے مندرجہ ذیل دعا پڑھنا مسنون ہے: (ذهب الظمأُ وابتلتِ العروقُ وثبت الأجرُ إن شاءالله)’’پیاس ختم ہو گئی اور رگیں تر ہو گئیں اور اللہ کے ہاں اجر، ان شاءاللہ، ثابت ہو گیا۔‘‘ (سنن أبي داود، الصیام، حدیث:2357) (3) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مخاطب حضرت بلال ؓ تھے جیسا کہ ابوداود کی روایت میں صراحت ہے۔ (سنن أبي داود، الصیام، حدیث:2352) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پانی کا بندوبست کرنے والے کو بلایا، رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ خدمت سرانجام دینے والے حضرت بلال ؓ ہیں جیسا کہ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ (4) اس حدیث سے اظہار خیال کی آزادی ثابت ہوتی ہے اگرچہ وہ خیال امر واقعہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اس لیے ہر شخص کو اپنے اظہار خیال کا حق ہے مگر جب وہ غلط ثابت ہو جائے تو حق کو تسلیم کرنا انتہائی ضروری ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1899
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1956
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1956
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1956
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک سفر کیا۔ آپ نے روزہ رکھاہوا تھا۔ جب سورج غروب ہو گیا تو آپ نے(کسی سے) فرمایا: ’’اتر کر ہمارے لیے ستو تیار کر۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! شام تو ہونے دیجئے آپ نے فرمایا: ’’اتر کر ہمارے لیے ستو تیار کر۔‘‘ اس نے پھر عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! ابھی دن باقی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اتر اور ہمارے لیے ستو بنا۔‘‘ وہ اترا اور آپ کے لیے ستو تیار کیے، پھر آپ نے فرمایا: ’’جب تم رات کو دیکھو کہ وہ ادھر سے آگئی ہے تو روزے دار اپنا روزہ افطار کردے۔‘‘ آپ نے ا پنی انگشت مبارک سے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ستو چونکہ پانی میں تیار کیے جاتے ہیں اور اس وقت یہی کچھ موجود تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں تیار کرنے کا حکم دیا۔ امام بخاری ؒ نے اسی سے عنوان ثابت کیا ہے۔ اس کے علاوہ ترمذی میں ہے کہ روزے دار کو چاہیے کہ وہ کھجور سے روزہ افطار کرے اور اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے روزہ کھول لے۔ (سنن الترمذي، الصیام، حدیث:694) (2) چونکہ افطاری کے وقت روزے دار کی دعا قبول ہوتی ہے، اس لیے مندرجہ ذیل دعا پڑھنا مسنون ہے: (ذهب الظمأُ وابتلتِ العروقُ وثبت الأجرُ إن شاءالله)’’پیاس ختم ہو گئی اور رگیں تر ہو گئیں اور اللہ کے ہاں اجر، ان شاءاللہ، ثابت ہو گیا۔‘‘ (سنن أبي داود، الصیام، حدیث:2357) (3) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مخاطب حضرت بلال ؓ تھے جیسا کہ ابوداود کی روایت میں صراحت ہے۔ (سنن أبي داود، الصیام، حدیث:2352) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پانی کا بندوبست کرنے والے کو بلایا، رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ خدمت سرانجام دینے والے حضرت بلال ؓ ہیں جیسا کہ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ (4) اس حدیث سے اظہار خیال کی آزادی ثابت ہوتی ہے اگرچہ وہ خیال امر واقعہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اس لیے ہر شخص کو اپنے اظہار خیال کا حق ہے مگر جب وہ غلط ثابت ہو جائے تو حق کو تسلیم کرنا انتہائی ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں جا رہے تھے، آپ ﷺ روزے سے تھے، جب سورج غروب ہوا تو آپ نے ایک شخص سے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول، انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! تھوڑی دیر اور ٹھہرئیے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول انہوں نے پھر یہی کہا کہ یا رسول اللہ ! ابھی تو دن باقی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اتر کر ستو ہمارے لیے گھول، چنانچہ انہوں نے اتر کر ستو گھولا۔ آنحضرت ﷺ نے پھر فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ رات کی تاریکی ادھر سے آگئی تو روزہ دار کو روزہ افطار کرلینا چاہئے۔ آپ ﷺ نے اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔
حدیث حاشیہ:
حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ ستو پانی سے گھولے گئے تھے اور اس وقت یہی حاضر تھا تو پانی وغیرہ ماحضر سے روزہ کھولنا ثابت ہوا۔ ترمذی نے مرفوعاً نکالا کہ کھجور سے روزہ افطار کرے اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے۔ ( وحیدی ) حضرت مسدد بن مسرہد امام بخاری کے جلیل القدر اساتذہ میں سے ہیں اور جامع الصحیح میں ان سے بکثرت روایات ہیں۔ یہ بصرہ کے باشندے تھے۔ حماد بن زید اور ابوعوانہ وغیرہ سے حدیث کی سماعت فرمائی۔ ان سے امام بخاری ؒ کے علاوہ اور بھی بہت سے محدثین نے روایت کی ہے۔ 228ھ میں انتقال ہوا۔ رحمهم اللہ تعالیٰ علیهم أجمعین ( آمین )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Abi Aufa" We were traveling with Allah's Apostle (ﷺ) and he was fasting, and when the sun set, he said to (someone), "Get down and mix Sawiq with water for us." He replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! (Will you wait) till it is evening?" The Prophet (ﷺ) again said, "Get down and mix Sawiq with water for us." He replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! It is still daytime." The Prophet (ﷺ) said again, "Get down and mix Sawiq with water for us." So, he got down and carried out that order. The Prophet (ﷺ) then said, "When you see night falling from this side, the fasting person should break his fast," and he beckoned with his finger towards the east.