Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Saum (fasting) on alternate days)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1978.
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے انھیں فرمایا: ’’مہینے میں تین روزے رکھا کرو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ اس طرح سلسلہ کلام جاری رہا، آخر کار آپ نے فرمایا: ’’ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو۔‘‘ نیز آپ نےفرمایا: ’’ہر مہینے میں قرآن ختم کیا کرو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ اس طرح گفتگو چلتی رہی حتیٰ کہ آ پ نے فرمایا: ’’تین دن میں ختم کرلیا کرو۔‘‘
تشریح:
اس روایت میں اختصار ہے۔ امام مسلم ؒ نے اسے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ہمیشہ روزے سے رہتے اور ایک رات میں قرآن ختم کر لیتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں مہینے میں تین دن، پھر چھ دن، پھر نو دن بالآخر بارہ دن روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی لیکن حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کا اصرار تھا کہ میں اس سے زیادہ روزے رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن روزہ افطار کرنے کا حکم دیا، اور اسے افضل قرار دیا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2730(1159)) اسی طرح ایک رات میں قرآن ختم کرنے کی شرعی حیثیت کی تفصیل "فضائل القرآن" میں بیان ہو گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1921
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1978
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1978
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1978
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے انھیں فرمایا: ’’مہینے میں تین روزے رکھا کرو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ اس طرح سلسلہ کلام جاری رہا، آخر کار آپ نے فرمایا: ’’ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو۔‘‘ نیز آپ نےفرمایا: ’’ہر مہینے میں قرآن ختم کیا کرو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ اس طرح گفتگو چلتی رہی حتیٰ کہ آ پ نے فرمایا: ’’تین دن میں ختم کرلیا کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں اختصار ہے۔ امام مسلم ؒ نے اسے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ہمیشہ روزے سے رہتے اور ایک رات میں قرآن ختم کر لیتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں مہینے میں تین دن، پھر چھ دن، پھر نو دن بالآخر بارہ دن روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی لیکن حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کا اصرار تھا کہ میں اس سے زیادہ روزے رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن روزہ افطار کرنے کا حکم دیا، اور اسے افضل قرار دیا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2730(1159)) اسی طرح ایک رات میں قرآن ختم کرنے کی شرعی حیثیت کی تفصیل "فضائل القرآن" میں بیان ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ نے بیان کیا کہ میں نے مجاہد سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن عمرو ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مہینہ میں صرف تین دن کے روزے رکھا کر۔ انہوں نے کہا کہ مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے۔ اسی طرح وہ برابر کہتے رہے ( کہ مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے ) یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کر۔ آپ ﷺ نے ان سے یہ بھی فرمایا کہ مہینہ میں ایک قرآن مجید ختم کیا کر۔ انہوں نے اس پر بھی کہا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ اور برابر یہی کہتے رہے۔ یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تین دن میں ( ایک قرآن ختم کیا کر )
حدیث حاشیہ:
امام مسلم کی روایت میں یوں ہے آپ ﷺ نے فرمایا ایک مہینے میں ایک ختم قرآن کا کیا کر۔ میں نے کہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، اچھا بیس دن میں ختم کیا کر، میں نے کہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، اچھا دس دن میں ختم کیا کر۔ میں نے کہا، مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اچھا سات دن میں ختم کیا کر۔ اور اس سے زیادہ مت پڑھ۔ ( یعنی سات دن سے کم میں ختم نہ کر ) اسی لیے اکثر علماءنے سات دن سے کم میں قرآن کا ختم کرنا مکروہ رکھا ہے۔ قسطلانی نے کہا میں نے بیت المقدس میں ایک بوڑھے کو دیکھا جس کو ابوالطاہر کہتے تھے وہ رات میں قرآن کے آٹھ ختم کیا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ مترجم کہتا ہے یہ خلافت سنت ہے۔ عمدہ یہی ہے کہ قرآن مجید کو سمجھ سمجھ کر چالیس دن میں ختم کیا جائے انتہاءیہ ہے کہ تین دن میں ختم ہو۔ اس سے کم میں جو قرآن ختم کرے گا گویا اس نے گھاس کاٹی ہے إلا ماشاءاللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mujahid from 'Abdullah bin 'Amr (RA): The Prophet (ﷺ) said (to 'Abdullah), "Fast three days a month." 'Abdullah said, (to the Prophet) "I am able to fast more than that." They kept on arguing on this matter till the Prophet (ﷺ) said, "Fast on alternate days, and recite the whole Qur'an once a month." 'Abdullah said, "I can recite more (in a month)," and the argument went on till the Prophet (ﷺ) said, "Recite the Qur'an once each three days." (i.e. you must not recite the whole Qur'an in less than three days).