Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Observing Saum (fast) on Friday)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اگر کسی نے خالی ایک جمعہ کے دن کے روزہ کی نیت کر لی تو اسے توڑ ڈالے
1985.
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے ا نھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’تم میں سے کوئی جمعہ کے دن روزہ نہ رکھے مگر ایک دن جمعہ سے پہلے یا ایک دن اس کے بعد ساتھ ملائے۔‘‘
تشریح:
(1) قبل ازیں بیان ہوا تھا کہ کسی معقول عذر کی وجہ سے نفلی روزہ افطار کیا جا سکتا ہے، مثلا: مہمان نے میزبان کو قسم دی کہ وہ اس کے ساتھ کھانا کھائے یا میزبان نے پرتکلف کھانا تیار کیا تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے روزہ توڑا جا سکتا ہے لیکن ایسا کرنا ضروری نہیں، مثلا: اگر کوئی کسی کے گھر جاتا ہے اور اہل خانہ اسے "ماحضر" پیش کرتے ہیں تو ایسے حالات میں روزہ توڑنا ضروری نہیں جیسا کہ پیش کردہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال نفلی روزہ توڑنا یا نہ توڑنا حالات و ظروف پر موقوف ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس ؓ کے لیے تین دعائیں فرمائیں: ٭ اے اللہ! اس کے مال و اولاد میں برکت عطا فرما۔ ٭ اے اللہ! اس کی عمر لمبی کر۔ ٭ اے اللہ! اسے قیامت کے دن معاف کر دے۔ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد:19/7، طبع دار صادر، بیروت) حضرت انس کہتے ہیں: دو دعاؤں کی قبولیت کو میں نے بچشم خود ملاحظہ کر لیا ہے، انصار مدینہ میں سب سے زیادہ مال دار میں ہوں، (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1982) نیز ان کا ایک باغ تھا جو سال میں دو دفعہ پھل لاتا تھا۔ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث:3833) فوت شدہ اولاد کا حدیث میں ذکر ہے اور جو اولاد زندہ رہی وہ ایک سو سے زیادہ تھی، (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6377(2481)) البتہ ایک دعا کے متعلق فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ اسے بھی شرف قبولیت عطا کرے گا اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھے معاف کر دے گا۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6377(2481)) (3) واضح رہے کہ جب حجاج بن یوسف بصرہ آیا تو اس وقت حضرت انس ؓ کی عمر کچھ اوپر اسی برس تھی اور آپ سو برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ (فتح الباري:291/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1928
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1985
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1985
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1985
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
بعض نسخوں میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جب روزے دار نے جمعہ سے پہلے روزہ نہ رکھا ہو اور نہ جمعہ کے بعد ہی روزہ رکھنے کا ارادہ ہو تو صرف اکیلے جمعہ کا روزہ نہ رکھا جائے۔ یہ تفسیر آخری حدیث سے ماخوذ ہے۔ (فتح الباری:4/295)
اگر کسی نے خالی ایک جمعہ کے دن کے روزہ کی نیت کر لی تو اسے توڑ ڈالے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے ا نھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’تم میں سے کوئی جمعہ کے دن روزہ نہ رکھے مگر ایک دن جمعہ سے پہلے یا ایک دن اس کے بعد ساتھ ملائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) قبل ازیں بیان ہوا تھا کہ کسی معقول عذر کی وجہ سے نفلی روزہ افطار کیا جا سکتا ہے، مثلا: مہمان نے میزبان کو قسم دی کہ وہ اس کے ساتھ کھانا کھائے یا میزبان نے پرتکلف کھانا تیار کیا تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے روزہ توڑا جا سکتا ہے لیکن ایسا کرنا ضروری نہیں، مثلا: اگر کوئی کسی کے گھر جاتا ہے اور اہل خانہ اسے "ماحضر" پیش کرتے ہیں تو ایسے حالات میں روزہ توڑنا ضروری نہیں جیسا کہ پیش کردہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال نفلی روزہ توڑنا یا نہ توڑنا حالات و ظروف پر موقوف ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس ؓ کے لیے تین دعائیں فرمائیں: ٭ اے اللہ! اس کے مال و اولاد میں برکت عطا فرما۔ ٭ اے اللہ! اس کی عمر لمبی کر۔ ٭ اے اللہ! اسے قیامت کے دن معاف کر دے۔ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد:19/7، طبع دار صادر، بیروت) حضرت انس کہتے ہیں: دو دعاؤں کی قبولیت کو میں نے بچشم خود ملاحظہ کر لیا ہے، انصار مدینہ میں سب سے زیادہ مال دار میں ہوں، (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1982) نیز ان کا ایک باغ تھا جو سال میں دو دفعہ پھل لاتا تھا۔ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث:3833) فوت شدہ اولاد کا حدیث میں ذکر ہے اور جو اولاد زندہ رہی وہ ایک سو سے زیادہ تھی، (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6377(2481)) البتہ ایک دعا کے متعلق فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ اسے بھی شرف قبولیت عطا کرے گا اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھے معاف کر دے گا۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6377(2481)) (3) واضح رہے کہ جب حجاج بن یوسف بصرہ آیا تو اس وقت حضرت انس ؓ کی عمر کچھ اوپر اسی برس تھی اور آپ سو برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ (فتح الباري:291/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی بھی شخص جمعہ کے دن اس وقت تک روزہ نہ رکھے جب تک اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک بعد روزہ نہ رکھتا ہو۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ بعض لوگوں کی جو عادت ہوتی ہے کہ ہفتے میں ایک دو دن خاص کرکے اس میں روزہ رکھتے ہیں۔ جیسے کوئی پیر جمعرات کو روزہ رکھتا ہے، کوئی پیر منگل کو، کوئی جمعرات جمعہ کو تو یہ تخصیص آنحضرت ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ ابن تین نے کہا بعض نے اسی وجہ سے ایسی تخصیص کو مکروہ رکھا ہے۔ لیکن عرفہ کے دن اور عاشور اور ایام بیض کی تخصیص تو خود حدیث سے ثابت ہے۔ حافظ نے کہا کئی ایک احادیث میں یہ وارد ہے کہ آپ ﷺ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ مگر شاید امام بخاری ؒ کے نزدیک وہ حدیثیں صحیح نہیں ہیں حالانکہ ابوداؤد اور ترمذی اور نسائی نے نکالا۔ اور ابن حبان نے اس کو صحیح کہا۔ حضرت عائشہ ؓ سے کہ آنحضرت ﷺ قصد کرکے پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے اور نسائی ا ور ابوداؤد نے نکالا۔ ابن خزیمہ نے اس کو صحیح کہا، اسامہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا آپ ﷺ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا اس دن اعمال پیش کئے جاتے ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل اس وقت اٹھایا جائے جب میں روزہ سے ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): I heard the Prophet (ﷺ) saying, "None of you should fast on Friday unless he fasts a day before or after it."