تشریح:
(1) عنوان میں یہ بیان ہوا ہے کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر تلاش کی جائے جبکہ آخری حدیث میں چوبیسویں رات میں تلاش کرنے کا ذکر ہے اور یہ رات طاق نہیں ہے۔ شارحین بخاری نے اس اشکال کو بایں طور حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلی روایت میں ہے کہ آخری سات راتوں میں تلاش کرو اور اگر مہینہ تیس کا ہو تو یہ چوبیسویں رات بنتی ہے، اس لیے ابن عباس ؓ نے اس احتیاط کے پیش نظر چوبیس کہا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ چوبیس دن پورے ہو جائیں تو یہ رات تلاش کرو۔ اس طرح اس سے مراد پچیسویں رات ہی ہے۔ (إرشادالساري:593/4) (2) ’’چوبیسویں رات میں تلاش کرو۔‘‘ یہ روایت موصول ہے، یا معلق اس بارے میں اختلاف ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ کا رجحان ہے کہ یہ عبدالوہاب کے طریق سے موصول ہے، تاہم امام مزی ؒ نے پورے وثوق سے کہا ہے کہ یہ معلق روایت ہے، عن خالد سے الگ روایت ہے۔ (فتح الباري:333/4) (3) اس روایت میں یہ جملہ باعث اشکال ہے اور شارحین نے اس کو حل کرنے کی کوشش بھی کی ہے، وہ ہے (أربع و عشرين) ’’چوبیسویں رات‘‘ کیونکہ بات تو طاق راتوں سے متعلق ہے اور دیگر احادیث میں بھی طاق راتوں میں لیلۃ القدر تلاش کرنے کی ترغیب ہے۔ ابن عباس کا یہ قول انہی الفاظ سے کسی اور کتاب میں ہمیں نہیں مل سکا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں مسند احمد کے حوالے سے ابن عباس ؓ سے ایک روایت نقل کی ہے۔ یہ روایت ابن عباس ؓ سے مسند احمد: (1/255)، المعجم الکبیر للطبراني: (292/11) اور مصنف ابن أبي شیبة: 120/4 میں موصولاً مروی ہے اور اس میں ’’چوبیسویں رات‘‘ کے بجائے ’’ تئیسویں رات‘‘ کے الفاظ ہیں، اس لیے (فتح الباري:333/4) میں (ليلة أربع و عشرين) کے الفاظ سہو ہے۔ وہ روایت یوں ہے: ’’ابن عباس ؓ فرماتے ہیں: ایک رات میں سویا ہوا تھا کہ مجھے کہا گیا کہ یہ لیلۃ القدر ہے میں اٹھا تو اونگھ رہا تھا، میرا پاؤں رسول اللہ ﷺ کے خیمے کی رسی میں الجھ گیا۔ میں نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ کھڑے نماز ادا فرما رہے تھے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں: میں نے غور کیا تو وہ تئیسویں رات تھی۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس ؓ کے قول کی بنیاد یہی روایت ہے اور اس میں چوبیسویں کے بجائے تئیسویں کا ذکر ہے اور پھر چوبیسویں والی روایت معلق بھی ہے، اس لیے راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ’’چوبیسویں رات‘‘ کے الفاظ شاذ ہیں یا پھر راوی کا وہم ہے کیونکہ صحیح روایات میں طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم ہے اور مسند احمد کی روایت میں بھی تئیسویں رات کا ذکر ہے۔’’سات راتیں باقی رہ جائیں‘‘ والی روایت سے بھی یہی متبادر ہے کہ اس سے مراد تئیسویں رات ہے۔ واللہ أعلم