Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: Trade of cloth and other things)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ( سورۃ نور میں ) کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔ قتادہ نے کہا کہ کچھ لوگ ایسے تھے جو خرید و فروخت اور تجارت کرتے تھے لیکن اگر اللہ کے حقوق میں سے کوئی حق سامنے آجاتا تو ان کی تجارت اور خرید و فروخت انہیں اللہ کی یاد سے غافل نہیں رکھ سکتی تھی، جب تک وہ اللہ کے حق کو ادا نہ کرلیں۔ ( ان کو چین نہیں آتا تھا ) تشریح : بعض نے باب التجارۃ فی البر کو زا کے ساتھ پڑھا ہے تو ترجمہ یہ ہوگا کہ کپڑے کی تجارت کرنا مگر باب کی حدیث میں کپڑے کی تجارت کا ذکر نہیں ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آگے چل کر جو باب سمندر میں تجارت کرنے کا بیان کیا، اس کا جوڑ یہی ہے کہ یہاں خشکی کی تجارت مذکور ہو۔ بعض نے ضم با کے ساتھ فی البر پڑھا یعنی گندم کی تجارت تو اس کا باب کی حدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ بہرحال فی البر یعنی خشکی میں تجارت کرنا، یہی نسخہ زیادہ صحیح ہے، مراد یہ ہے کہ مسلمان کے لیے خشکی اور تری، صحرا اور سمندر سب کارگاہ عمل ہیں۔ اسی جوش عمل نے مسلمان کو شرق سے تاغرب دنیا کہ ہر حصہ میں پہنچا دیا۔
2061.
حضرت ابو منہال سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں کرنسی کا کاروبار کرتاتھا۔ میں نے اس کے متعلق حضرت زید بن ارقم ؓ سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ ایک دوسری سندکے مطابق حضرت ابو منہال کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم ؓ سے کرنسی کے کاروبار کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تجارت کرتے تھے۔ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بیع صرف یعنی کرنسی کے کاروبار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’اگر نقد بنقد ہوتو کوئی حرج نہیں، اگر ادھار ہوتو جائز نہیں۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے آیت کریمہ اور حدیث کے عموم سے خشکی وغیرہ میں تجارت کرنے کو ثابت کیا ہے،چنانچہ حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم ؓ نے فرمایا:ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے ہی میں پیشۂ تجارت سے منسلک تھے۔ان الفاظ سے امام بخاری ؒ نے اپنا مدعا ثابت کیا ہے۔(2)سونے چاندی کے سکوں کا باہمی تبادلہ"صرف" کہلاتا ہے۔اس کی دو صورتیں ہیں:٭چاندی کے بدلے چاندی اور سونے کے بدلے سونا۔اس کے جائز ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں:٭ دونوں کا وزن برابر ہو۔٭دست بدست ہوں۔اگر ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار ہویا نقد کی صورت میں وزن میں کمی بیشی کی گئی تو معاملہ حرام ہوجائے گا۔٭ سونے کو چاندی یا چاندی کو سونے کے عوض خریدنا۔اس صورت میں وزن کا برابر ہونا تو ضروری نہیں،تاہم اس کا نقد بنقد ہونا ضروری ہے۔ اگر کمی بیشی کے ساتھ معاملہ ادھار ہوا تو جائز نہیں ہوگا۔اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے،البتہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے عموم سے خشکی میں تجارت کے جائز ہونے کو ثابت کیا ہے ۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2000.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2061
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2061
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2061
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے آئندہ ایک عنوان سمندری تجارت کے متعلق قائم کیا ہے،اس لیے مناسب یہی ہے کہ اس مقام پر خشکی وغیرہ میں تجارت کا بیان ہو۔مراد یہ ہے کہ مسلمان کے لیے خشکی، صحراء اور سمندر سب کارگاہ عمل میں ہیں۔اسی جوش عمل نے مسلمانوں کو شرق و غرب، یعنی دنیا کے ہر حصے میں پہنچادیا۔حضرت قتادہ سے مروی اثر ہمیں موصولاً دستیاب نہیں ہوسکا،البتہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق تفسیر عبدالرزاق میں ہے کہ وہ بازار میں ہوتے تو اذان ہوتے ہی لوگ اپنی دکانیں بند کرکے مسجد میں آجاتے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ان کا طرز عمل دیکھ کر فرماتے کہ انھی حضرات کے متعلق مذکورہ آیت نازل ہوئی ہے۔(فتح الباری (4/371)
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ( سورۃ نور میں ) کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔ قتادہ نے کہا کہ کچھ لوگ ایسے تھے جو خرید و فروخت اور تجارت کرتے تھے لیکن اگر اللہ کے حقوق میں سے کوئی حق سامنے آجاتا تو ان کی تجارت اور خرید و فروخت انہیں اللہ کی یاد سے غافل نہیں رکھ سکتی تھی، جب تک وہ اللہ کے حق کو ادا نہ کرلیں۔ ( ان کو چین نہیں آتا تھا ) تشریح : بعض نے باب التجارۃ فی البر کو زا کے ساتھ پڑھا ہے تو ترجمہ یہ ہوگا کہ کپڑے کی تجارت کرنا مگر باب کی حدیث میں کپڑے کی تجارت کا ذکر نہیں ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آگے چل کر جو باب سمندر میں تجارت کرنے کا بیان کیا، اس کا جوڑ یہی ہے کہ یہاں خشکی کی تجارت مذکور ہو۔ بعض نے ضم با کے ساتھ فی البر پڑھا یعنی گندم کی تجارت تو اس کا باب کی حدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ بہرحال فی البر یعنی خشکی میں تجارت کرنا، یہی نسخہ زیادہ صحیح ہے، مراد یہ ہے کہ مسلمان کے لیے خشکی اور تری، صحرا اور سمندر سب کارگاہ عمل ہیں۔ اسی جوش عمل نے مسلمان کو شرق سے تاغرب دنیا کہ ہر حصہ میں پہنچا دیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو منہال سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں کرنسی کا کاروبار کرتاتھا۔ میں نے اس کے متعلق حضرت زید بن ارقم ؓ سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ ایک دوسری سندکے مطابق حضرت ابو منہال کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم ؓ سے کرنسی کے کاروبار کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تجارت کرتے تھے۔ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بیع صرف یعنی کرنسی کے کاروبار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’اگر نقد بنقد ہوتو کوئی حرج نہیں، اگر ادھار ہوتو جائز نہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے آیت کریمہ اور حدیث کے عموم سے خشکی وغیرہ میں تجارت کرنے کو ثابت کیا ہے،چنانچہ حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم ؓ نے فرمایا:ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے ہی میں پیشۂ تجارت سے منسلک تھے۔ان الفاظ سے امام بخاری ؒ نے اپنا مدعا ثابت کیا ہے۔(2)سونے چاندی کے سکوں کا باہمی تبادلہ"صرف" کہلاتا ہے۔اس کی دو صورتیں ہیں:٭چاندی کے بدلے چاندی اور سونے کے بدلے سونا۔اس کے جائز ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں:٭ دونوں کا وزن برابر ہو۔٭دست بدست ہوں۔اگر ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار ہویا نقد کی صورت میں وزن میں کمی بیشی کی گئی تو معاملہ حرام ہوجائے گا۔٭ سونے کو چاندی یا چاندی کو سونے کے عوض خریدنا۔اس صورت میں وزن کا برابر ہونا تو ضروری نہیں،تاہم اس کا نقد بنقد ہونا ضروری ہے۔ اگر کمی بیشی کے ساتھ معاملہ ادھار ہوا تو جائز نہیں ہوگا۔اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے،البتہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے عموم سے خشکی میں تجارت کے جائز ہونے کو ثابت کیا ہے ۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "کچھ لوگ ایسے ہیں کہ انھیں تجارت اور خریدوفروخت اللہ کی یادسے غافل نہیں کرتی۔ "حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ صحابہ کرام ؓ ایسے لوگ تھے جو خریدوفروخت اور تجارت کرتے لیکن جب ان کے سامنے حقوق اللہ سے کوئی حق آتاتو تجارت اور خریدوفروخت انھیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرتی تاآنکہ وہ اسے ادا کرلیتے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی اور ان سے ابوالمنہال نے بیان کیا کہ میں سونے چاندی کی تجارت کیا کرتا تھا۔ اس لیے میں نے زید بن ارقم ؓ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اور مجھ سے فضل بن یعقوب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حجاج بن محمد نے بیان کیا کہ ابن جریج نے بیان کیا کہ مجھے عمرو بن دینار اور عامر بن مصعب نے خبر دی، ان دونوں حضرات نے ابوالمنہال سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے براءبن عازب اور زید بن ارقم ؓ سے سونے چاندی کی تجارت کے متعلق پوچھا، تو ان دونوں بزرگوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے عہد میں تاجر تھے، اس لیے ہم نے آپ سے سونے چاندی کے متعلق پوچھا تھا۔ آپ نے جواب یہ دیا تھا کہ ( لین دین ) ہاتھوں ہاتھ ہو توکوئی حرج نہیں لیکن ادھار کی صورت میں جائز نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
مثلاً ایک شخص نقد روپیہ دے اور دوسرا کہے میں اس کے بدل کا روپیہ ایک مہینہ کے بعد دوں گا تو یہ درست نہیں ہے۔ بیع صرف میں سب کے نزدیک تقابض یعنی دونوں بدلوں کا نقدانقد دیا جانا شرط ہے اور میعاد کے ساتھ درست نہیں ہوتی اب اس میں اختلاف ہے کہ اگر جنس ایک ہی ہو مثلاً روپے کو روپے سے یا اشرفیوں کو اشرفیوں سے تو کمی یا زیادتی درست ہے یا نہیں؟ حنفیہ کے نزدیک کمی اور زیادتی جب جنس ایک ہو تو درست نہیں اور ان کے مذہب پر کلدار اور حالی سکہ کا بدلنا مشکل ہو جاتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ کچھ پیسے شریک کردے، تاکہ کمی اور زیادتی سب کے نزدیک جائز ہو جائے۔ ( وحیدی ) اس حدیث کے عموم سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا ہے کہ خشکی میں تجارت کرنا درست ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Al-Minhal (RA): I used to practice money exchange, and I asked Zaid bin 'Arqam about it, and he narrated what the Prophet (ﷺ) said in the following: Abu Al-Minhal said, "I asked Al-Bara' bin ' Azib (RA) and Zaid bin Arqam about practicing money exchange. They replied, 'We were traders in the time of Allah's Apostle (ﷺ) and I asked Allah's Apostle (ﷺ) about money exchange. He replied, 'If it is from hand to hand, there is no harm in it; otherwise it is not permissible."