باب: درخت پر جوکھجور لگی ہوئی ہو اس میں بیع سلم کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Sales in which a Price is paid for Goods to be Delivered Later (As-Salam)
(Chapter: As-Salam for (the fruits of) dat-palms)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2249.
حضرت ابو بختری ہی سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کھجور میں بیع سلم کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے پھلوں کی بیع سے منع کیاہے تاآنکہ ان میں صلاحیت پیدا ہوجائے۔ اور آپ ﷺ نے سونے کے عوض چاندی کی بیع سے بھی منع کیا جبکہ ایک ادھار اور دوسرا نقد ہو۔ پھر میں نے اس کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے کھجور کی بیع سے منع کیا حتیٰ کہ وہ کھانے کے قابل ہوجائیں اور ان کا وزن کیاجاسکے۔ میں نے عرض کیا: وزن کیے جانے کا کیامطلب ہے؟ ان کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ ان کو محفوظ کرلیا جائے۔
تشریح:
(1) مطلب یہ ہے کہ درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کی خریدوفروخت اس وقت جائز ہے جب وہ کھانے کے قابل ہوجائیں، استعمال کے لائق ہوجائیں،پورا پکا ہوا نہ سہی نیم پختہ ہونا ضروری ہے۔ اس سے پہلے ان کی خریدوفروخت جائز نہیں۔ ہاں اگر درخت کے ذکر کے بغیر صرف اس طرح معاملہ طے کیا جائے کہ اتنے من یا اتنے ٹوکرے کھجور درکار ہے اور ان کی قیمت پیشگی ادا کردی جائے تو بیع سلم جائز ہے۔ فروخت کرنے والا جہاں سے بھی فراہم کرے اور اس کے پاس کھجور کا ایک بھی درخت نہ ہو۔ٹھیکیدار کی حیثیت سے یہ معاملہ شرعاً جائز ہے۔ درخت پر لگی کھجوروں کا وزن کرنا ناممکن ہے، اس لیے وزن کیے جانے کے یہ معنی کیے گئے کہ اس سے مراد انھیں اتار کر محفوظ کرلینا ہے۔ خرص،وزن اور أکل سب کے ایک ہی معنی ہیں کہ وہ کھانے کے قابل ہوجائیں۔ (2) امام بخاری ؒ کا ان احادیث سے یہ مقصد ہے کہ درخت پر لگی کھجوروں کے متعلق بیع سلم درست نہیں کیونکہ اس میں دھوکے اور نقصان کا اندیشہ ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2179
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2249
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2249
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2249
تمہید کتاب
سلم،لفظی اور معنوی طور پر سلف ہی ہے جس کے معنی پیشگی رقم دینے کے ہیں۔دراصل سلف اہل عراق اور سلم اہل حجاز کی لغت ہے۔سلف بیوع کی ایک قسم ہے جس میں قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اور سودا تاخیر سے معین مدت پر لیا جاتا ہے۔جو قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اسے رأس المال اور جو چیز تاخیر سے فروخت کی جاتی ہے اسے مسلم فیہ کہتے ہیں۔قیمت ادا کرنے والے کر رب السلم اور جنس ادا کرنے والے کو مسلم الیہ کہتے ہیں۔اسلام کا قاعدہ ہے کہ جو چیز معدوم ہو اس کی خریدوفروخت نہیں کی جاسکتی،لیکن اقتصادی ضرورت اور معاشی مصلحت کے پیش نظر لوگوں کی سہولت کےلیے اسے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے اور اس بیع کی مشروعیت پر امت کا اجماع ہے۔اس کے جواز کے لیے چند ایک شرائط ہیں جنھیں ہم آئندہ بیان کریں گے۔دور حاضر میں بڑے بڑے کاروبار خصوصاً بیرون ممالک سے تجارت سلم ہی کی بنیاد پر ہورہی ہے۔بین الاقوامی تجارت میں رقم پیشگی ادا کردی جاتی ہے یا بنک گارنٹی مہیا کی جاتی ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ قیمت کا کچھ حصہ پیشگی دیا جاتا ہے اور باقی چیز وصول ہونے کے بعد واجب الادا ہوتا ہے۔جملہ شرائط ایک معاہدے کی شکل میں تحریر کرلی جاتی ہیں،فریقین اس تحریر کے پابند ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ بیرون ممالک سے تجارت نہیں کی جاسکتی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اس کے متعلق الگ عنوان قائم کیا ہے اگرچہ کتاب البیوع میں اسے عام ابواب کی حیثیت سے بھی بیان کیا جاسکتا تھا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکتیس احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی ستائیس موصول ہیں۔اس عنوان کے تحت متعدد احادیث مکرر بیان ہوئی ہیں،صرف پانچ خالص ہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر چھوٹے چھوٹے آٹھ عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) معین ماپ میں بیع سلم کرنا۔(2) تول یا وزن مقرر کر کے بیع سلم کرنا۔(3) ایسے شخص سے بیع سلم کرنا جس کے پاس اصل مال نہیں ہے۔(4) درخت پر لگی کھجوروں کی بیع سلم کرنا۔(5) بیع سلم میں کسی کو ضامن بنانا۔(6) بیع سلم میں کوئی چیز گروی رکھنا۔(7) مقررہ مدت تک کے لیے بیع سلم کرنا۔(8) اونٹنی کے بچہ جننے کی مدت تک کےلیے بیع سلم کرنا۔بہر حال بیع سلم کے وقت جنس کا پایا جا نا ضروری نہیں،تاہم یہ ضروری ہے کہ اختتام مدت پر اس چیز کا عام دستیاب ہونا ممکن ہو۔بہرحال ہماری مذکورہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور اس میں پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد اور مصالح وضروریات سے آگہی کا پتہ چلتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔آمين يا رب العالمين.
تمہید باب
یعنی جس صورت میں کہ ہم کو بھروسہ ہوجائے کہ یہ درخت یقینا پھل دیں گے بلکہ پھل اب پختہ ہونے کے قریب ہی آگیا ہے تو ان حالات میں درخت پر لٹکی ہوئی کھجوروں میں بیع سلم جائز ہے۔
حضرت ابو بختری ہی سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کھجور میں بیع سلم کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے پھلوں کی بیع سے منع کیاہے تاآنکہ ان میں صلاحیت پیدا ہوجائے۔ اور آپ ﷺ نے سونے کے عوض چاندی کی بیع سے بھی منع کیا جبکہ ایک ادھار اور دوسرا نقد ہو۔ پھر میں نے اس کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے کھجور کی بیع سے منع کیا حتیٰ کہ وہ کھانے کے قابل ہوجائیں اور ان کا وزن کیاجاسکے۔ میں نے عرض کیا: وزن کیے جانے کا کیامطلب ہے؟ ان کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ ان کو محفوظ کرلیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
(1) مطلب یہ ہے کہ درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کی خریدوفروخت اس وقت جائز ہے جب وہ کھانے کے قابل ہوجائیں، استعمال کے لائق ہوجائیں،پورا پکا ہوا نہ سہی نیم پختہ ہونا ضروری ہے۔ اس سے پہلے ان کی خریدوفروخت جائز نہیں۔ ہاں اگر درخت کے ذکر کے بغیر صرف اس طرح معاملہ طے کیا جائے کہ اتنے من یا اتنے ٹوکرے کھجور درکار ہے اور ان کی قیمت پیشگی ادا کردی جائے تو بیع سلم جائز ہے۔ فروخت کرنے والا جہاں سے بھی فراہم کرے اور اس کے پاس کھجور کا ایک بھی درخت نہ ہو۔ٹھیکیدار کی حیثیت سے یہ معاملہ شرعاً جائز ہے۔ درخت پر لگی کھجوروں کا وزن کرنا ناممکن ہے، اس لیے وزن کیے جانے کے یہ معنی کیے گئے کہ اس سے مراد انھیں اتار کر محفوظ کرلینا ہے۔ خرص،وزن اور أکل سب کے ایک ہی معنی ہیں کہ وہ کھانے کے قابل ہوجائیں۔ (2) امام بخاری ؒ کا ان احادیث سے یہ مقصد ہے کہ درخت پر لگی کھجوروں کے متعلق بیع سلم درست نہیں کیونکہ اس میں دھوکے اور نقصان کا اندیشہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے ابوالبختری نے کہ میں نے ابن عمر ؓ سے کھجور کی درخت پر بیع سلم کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے پھل کو اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک وہ نفع اٹھانے کے قابل نہ ہو جائے، اسی طرح چاندی کو سونے کے بدلے بیچنے سے جب کہ ایک ادھار اور دوسرا نقد ہو منع فرمایا ہے۔ پھر میں نے ابن عباس ؓ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے کھجور کو درخت پر بیچنے سے جب تک وہ کھانے کے قابل نہ ہو جائے، اسی طرح جب تک وہ وزن کرنے کے قابل نہ ہوجائے منع فرمایا ہے۔ میں نے پوچھا کہ وزن کئے جانے کا کیا مطلب ہے؟ تو ایک صاحب نے جو ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ اس قابل نہ ہوجائے کہ وہ اندازہ کی جاسکے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Al-Bakhtari (RA): I asked Ibn 'Umar (RA) about Salam for dates. Ibn 'Umar (RA) replied, "The Prophet (ﷺ) forbade the sale (the fruits) of datepalms until they were fit for eating and also forbade the sale of silver for gold on credit." I also asked Ibn 'Abbas (RA) about it. Ibn 'Abbas (RA) replied, "The Prophet (ﷺ) forbade the sale of dates till they were fit for eating, and could be weighed." I asked him, "What is to be weighed (as the dates are on the trees)?" A man sitting by Ibn 'Abbas (RA) said, "It means till they are cut and stored."