Sahi-Bukhari:
Agriculture
(Chapter: What conditions are disliked in share-cropping)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2332.
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے کہ ہم مدینہ طیبہ میں سب سے بڑے زمیندار تھے۔ ہم میں سے ایک شخص اپنی زمین اس شرط پر بٹائی کے لیے دیتا تھا کہ زمین کایہ قطعہ میرے لیے اور اس ٹکڑے اور قطعے کی پیداوار تیرے لیے ہوگی۔ بسااوقات یہ قطعہ پیداوار دیتا اور دوسرے میں نہ ہوتی۔ تو نبی کریم ﷺ نے انھیں اس سے منع فرمادیا۔
تشریح:
(1) اگر معاملے میں کوئی شرط فاسد ہو یا نقصان اور دھوکے کا باعث ہو تو ایسا معاملہ ناجائز قرار پاتا ہے جیسا کہ مزارعت کی مذکورہ صورت میں ہے کہ آپ زمین کا ایک حصہ مخصوص کر لیں اور دوسرا حصہ مزارع کے لیے مخصوص کر دیں، یعنی اس کی پیداوار وہ لے گا۔ یہ شرط جھگڑے کا باعث تھی کیونکہ بسا اوقات ایک حصے میں فصل ہوتی اور دوسرے حصے میں کچھ نہ ہوتا، جب رسول اللہ ﷺ کے پاس بکثرت اس قسم کے مقدمات آنے لگے تو آپ نے اس سے منع فرما دیا۔ (2) ہمارے نزدیک مزارعت کی شرائط یہ ہیں: ٭ معاملہ کرنے والے دونوں عاقل ہوں، اپنی مرضی سے یہ عقد کریں اور ان کا بالغ ہونا ضروری نہیں۔ ٭ جو زمین مزارعت کے لیے دی جائے وہ بنجر نہ ہو بلکہ قابل کاشت ہو کیونکہ بنجر زمین کا معاملہ دوسری نوعیت کا ہے۔ ٭ مالک اور مزارع دونوں اپنا اپنا حصہ طے کر لیں کہ کس کو کتنا ملے گا؟ دونوں میں سے کوئی بھی اپنے لیے وزن یا کھیت مخصوص نہ کرے۔ ٭ زمین، ہل، بیل، بیج اور پانی کے بارے میں روز اول سے طے ہونا چاہیے کہ کون سی چیز کس کے ذمے ہو گی۔ ٭ زمین خالی کر کے کاشتکار کے حوالے کی جائے، کھڑی فصل والی زمین مزارعت کے لیے دینا محل نظر ہے۔ ٭ بٹائی پر دینے کے بعد فریقین کو طے شدہ حصے کے مطابق پیداوار میں شریک رہنا ہو گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2256
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2332
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2332
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2332
تمہید کتاب
انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تین بڑے بڑے ذرائع ہیں،انسان ان سے روزی کماتا ہے اور اپنی حاجات پوری کرتا ہے: (1) تجارت اور خریدوفروخت۔(2) صنعت وحرفت۔(3) زراعت وکھیتی باڑی۔زراعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ آدمی کوئی زمین جائز طریقے سے حاصل کرے یا اس کو وراثت میں ملے،پھر اس میں اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کرے اور اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے خود کھیتی باڑی سے قاصر ہے تو اسلام اسے حق دیتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لے۔اس مدد لینے کی تین صورتیں ہیں: ٭ اپنی زمین کسی کو بٹائی پر دے دے، یعنی زمین اور بیج وغیرہ اس کا ہو،البتہ محنت، ہل اور بیل وغیرہ دوسرے شخص کے ہوں۔ اس اشتراک سے جو کچھ پیدا ہو دونوں اسے تقسیم کرلیں۔٭زمین کا مالک نقد ٹھیکہ لے کر اپنی زمین کسی دوسرے کو دےدے۔ مالک طے شدہ ٹھیکہ وصول کرے اور ٹھیکہ دینے والا پوری پیداوار سے فائدہ اٹھائے۔٭زمین، بیج، ہل اور بیل وغیرہ ایک آدمی کا ہو اور وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لے کر زمین کو کاشت کرے اور پیداوار اٹھائے۔اب گویا کل چار صورتیں ہوئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تین صورتوں کو بیان کیا ہے:(1) آدمی خود کاشت کرے۔(2) اسے بٹائی پر دےدے۔(3) ٹھیکہ طے کرکے کسی دوسرے کو اپنی زمین حوالے کردے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کھیتی باڑی کرنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: " کھیتی باڑی جس گھر میں داخل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ذلت ورسوائی بھی داخل کردیتا ہے۔"( صحیح البخاری،الحرث والمزارعۃ،حدیث:2321) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے تو کھیتی باڑی کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے اور مذکورہ حدیث کا مصداق بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، نیز بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زمین بٹائی پر دینا یا اس کا طے شدہ ٹھیکہ وصول کرنا جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کے پاس زمین ہو وہ یا خود کھیتی باڑی کرے یا پھر اپنی زمین کسی دوسرے بھائی کو بہر حال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چالیس مرفوع احادیث پیش کی ہیں جن میں نو معلق اور اکتیس متصل ہیں۔ان میں بائیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ سات احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انتالیس آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان مرفوع احادیث اور آثار پر تقریباً اکیس چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں، ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:(1)کاشتکاری اور شجر کاری کی فضیلت۔(2) زرعی آلات میں حد سے زیادہ مصروفیت کے سنگین نتائج۔(3) کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا پالنا ۔(4) کاشتکاری کےلیے گائے بیل سے کام لینا۔(5) نصف پیداوار پر زمین کاشت کرنا۔(6) مدت کے تعین کے بغیر زمین کاشت کےلیے دینا۔(7) مزارعت میں کون سی شرائط مکروہ ہیں؟ (8) بنجر زمین کو آباد کر نے کا حکم۔(9) سونے چاندی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینا۔(10) شجر کاری کی اہمیت وافادیت۔ اس عنوان کے تحت زمین کرائے پر دینے اور بٹائی کے متعلق ارکان وشرائط کا بھی بیان ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار اسنادی مباحث اور حدیثی فوائد ذکر ہوں گے جن سے امام بخاری رحمہ کی جلالت قدر اور فقہی استعدادو ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین سے اٹھائے۔ أحب الصالحين ولست منهم ۔۔۔۔۔ لعل الله يرزقني صلاحا۔ وصلي الله علي نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے کہ ہم مدینہ طیبہ میں سب سے بڑے زمیندار تھے۔ ہم میں سے ایک شخص اپنی زمین اس شرط پر بٹائی کے لیے دیتا تھا کہ زمین کایہ قطعہ میرے لیے اور اس ٹکڑے اور قطعے کی پیداوار تیرے لیے ہوگی۔ بسااوقات یہ قطعہ پیداوار دیتا اور دوسرے میں نہ ہوتی۔ تو نبی کریم ﷺ نے انھیں اس سے منع فرمادیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اگر معاملے میں کوئی شرط فاسد ہو یا نقصان اور دھوکے کا باعث ہو تو ایسا معاملہ ناجائز قرار پاتا ہے جیسا کہ مزارعت کی مذکورہ صورت میں ہے کہ آپ زمین کا ایک حصہ مخصوص کر لیں اور دوسرا حصہ مزارع کے لیے مخصوص کر دیں، یعنی اس کی پیداوار وہ لے گا۔ یہ شرط جھگڑے کا باعث تھی کیونکہ بسا اوقات ایک حصے میں فصل ہوتی اور دوسرے حصے میں کچھ نہ ہوتا، جب رسول اللہ ﷺ کے پاس بکثرت اس قسم کے مقدمات آنے لگے تو آپ نے اس سے منع فرما دیا۔ (2) ہمارے نزدیک مزارعت کی شرائط یہ ہیں: ٭ معاملہ کرنے والے دونوں عاقل ہوں، اپنی مرضی سے یہ عقد کریں اور ان کا بالغ ہونا ضروری نہیں۔ ٭ جو زمین مزارعت کے لیے دی جائے وہ بنجر نہ ہو بلکہ قابل کاشت ہو کیونکہ بنجر زمین کا معاملہ دوسری نوعیت کا ہے۔ ٭ مالک اور مزارع دونوں اپنا اپنا حصہ طے کر لیں کہ کس کو کتنا ملے گا؟ دونوں میں سے کوئی بھی اپنے لیے وزن یا کھیت مخصوص نہ کرے۔ ٭ زمین، ہل، بیل، بیج اور پانی کے بارے میں روز اول سے طے ہونا چاہیے کہ کون سی چیز کس کے ذمے ہو گی۔ ٭ زمین خالی کر کے کاشتکار کے حوالے کی جائے، کھڑی فصل والی زمین مزارعت کے لیے دینا محل نظر ہے۔ ٭ بٹائی پر دینے کے بعد فریقین کو طے شدہ حصے کے مطابق پیداوار میں شریک رہنا ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید انصاری نے، انہوں نے حنظلہ زرقی سے سنا کہ رافع بن خدیج ؓ نے کہا کہ ہمارے پاس مدینہ کے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زمین زیادہ تھی۔ ہمارے یہاں طریقہ یہ تھا کہ جب زمین بصورت جنس کرایہ پر دیتے تو یہ شرط لگا دیتے کہ اس حصہ کی پیداوار تو میری رہے گی اور اس حصہ کی تمہاری رہے گی۔ پھر کبھی ایسا ہوتا کہ ایک حصہ کی پیداوار خوب ہوتی اور دوسرے کی نہ ہوتی۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو اس طرح معاملہ کرنے سے منع فرما دیا۔
حدیث حاشیہ:
یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ یہ ایک فاسد شرط ہے کہ یہاں کے پیداوار میں لوں گا وہاں کا تو لے، یہ سراسر نزاع کی صورت ہے۔ اسی لیے ایسی شرطیں لگانا مکروہ قرار دیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rafi (RA): We worked on farms more than anybody else in Medina. We used to rent the land and say to the owner, "The yield of this portion is for us and the yield of that portion is for you (as the rent)." One of those portions might yield something and the other might not. So, the Prophet (ﷺ) forbade us to do so.