باب : جب حال معلوم ہو جائے تو مجرموں او رجھگڑے والوں کو گھر سے نکال دینا
)
Sahi-Bukhari:
Khusoomaat
(Chapter: Turning out the sinners and the quarrelsome people of the houses)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوبکر ؓ کی بہن ام فروہ ؓ نے جب وفات صدیق اکبر پر نوحہ کیا تو حضرت عمر فاروق ؓ نے انہیں ( ان کے گھر سے ) نکا ل دیا۔ تاکہ اس حرکت سے روح صدیق اکبر ؓ کو تکلیف نہ ہو۔ اور تجہیز و تکفین کے کام میں خلل نہ آئے۔ پھر عمر فاروق اعظم کا جلال نوحہ جیسے ناجائز کام کو کیسے برداشت کرسکتا تھا۔ ام فروہ والی روایت کو ابن سعد نے طبقات میں نکالا ہے۔
2420.
حضرت ابوہریر ب سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے ارادہ کیا کہ نماز کھڑی کردینے کا حکم دوں۔ جب کھڑی کردی جائے تو خود ان لوگوں کی طرف نکلوں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے۔ پھر ان سمیت (ان کے) گھروں کو آگ لگادوں۔‘‘
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کے خلاف اپنے قہر و غضب کا اظہار کیا ہے جو نماز کا وقت ہونے پر اذان سنتے ہیں لیکن مشاغل ترک کر کے نماز باجماعت ادا نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا: میں ایسے لوگوں کے گھروں میں آگ لگا دینا چاہتا ہوں کیونکہ جب ان کے گھر جلائے جائیں گے تو وہ خود نکل کر بھاگ جائیں گے، اس بنا پر اہل معاصی کا گھروں سے نکالنا ثابت ہوا۔ (2) اس سے پہلے عنوان میں مدعی اور مدعا علیہ کے درمیان ناروا گفتگو کے متعلق کچھ نرمی تھی، اب اشارہ کیا کہ حد سے بڑھ کر کوئی حرکت ہو تو ان پر سخت گرفت بھی ہو سکتی ہے، انہیں عدالت سے باہر نکالا جا سکتا ہے، اس اعتبار سے یہ حدیث عنوان کے مطابق ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2336
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2420
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2420
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2420
تمہید کتاب
لغوی طور پر خصومات، خصومت کی جمع ہے جس کے معنی لڑائی جھگڑے کے ہیں، لیکن یہاں اس قسم کا جھگڑا مراد ہے جو باہمی اختلاف کا باعث ہو۔ شریعت اسلامیہ میں کسی دینی یا دنیوی معاملے میں اختلاف برقرار رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کسی دنیوی معاملے میں اختلاف ہے تو کسی عدالت کی طرف رجوع کرنا ہو گا جو کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔ اسی طرح اگر کوئی دینی اختلاف ہے یا کوئی مسئلہ درپیش ہے تو مفتی کی طرف رجوع کیا جائے۔ اسے بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دینا ہو گا۔ اس کے متعلق متعدد قرآنی نصوص ہیں۔ اختصار کے پیش نظر چند ایک پیش کی جاتی ہیں:ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ) "اور جس بات میں بھی تم اختلاف کرو تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے۔" (الشوریٰ10:42) چونکہ وہی ہر چیز کا خالق ہے، اس لیے باہمی اختلافات کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی وہی رکھتا ہے۔ دنیا میں انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے اور قیامت کے دن کھلی عدالت میں خود فیصلے کرے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٥٩﴾) "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کا کہا مانو، نیز اولی الامر کی بھی فرمانبرداری کرو، پھر اگر تمہارا کوئی جھگڑا ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ تمہارے لیے یہ بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔" (النساء59:4)اس آیت میں واضح طور پر اختلاف اور جھگڑا ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کا قاعدہ یہ ہے کہ اسے کتاب اللہ اور سنت رسول پر پیش کر دیا جائے۔ اس آیت کریمہ سے تقلید جامد کی صراحت کے ساتھ نفی ہوتی ہے۔ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ کی ہے، تاہم اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اس کے رسول کی اطاعت بھی اللہ ہی کی اطاعت ہے کیونکہ اس کے اوامر و نواہی معلوم کرنے کا ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥﴾) "تمہارے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلاف میں آپ کو حاکم تسلیم نہ کر لیں، پھر آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق اپنے دلوں میں کوئی گھٹن محسوس نہ کریں اور اس فیصلے پر سر تسلیم خم نہ کر دیں۔" (النساء65:4)ان قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلافات و تنازعات کو برقرار رکھنا اسلام کے مزاج کے منافی ہے۔ انہیں دور کرنے ہی میں عافیت اور خیروبرکت ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ہاں ایک مشہور حدیث ہے جس کے خود ساختہ ہونے میں کوئی شک نہیں: "میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہے" حقیقت یہ ہے کہ امت کا اختلاف باعثِ رحمت نہیں بلکہ زحمت کا موجب ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان قائم کر کے ہمیں اختلافات کی حقیقت سے آگاہ کیا ہے۔ اس کے آداب، شرائط اور حدودوقیود کی وضاحت کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے انیس مرفوع روایات پیش کی ہیں جن میں تین معلق اور سولہ متصل ہیں۔ مرفوع روایات کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینِ عظام سے مروی تقریباً پانچ آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے دس عنوان قائم کیے ہیں، چیدہ، چیدہ عنوانات حسب ذیل ہیں:٭ مسلمان اور یہودی کے درمیان جھگڑا ہو جانا۔ ٭ معاملے کے دو فریق کس حد تک ایک دوسرے کو کچھ کہہ سکتے ہیں؟ ٭ جرائم پیشہ اور شرارتی لوگوں کو گھروں سے نکال دیا جائے۔ ٭ جس آدمی سے خطرہ ہو اسے قید کیا جا سکتا ہے۔ ٭ خاص مقصد کے لیے کسی کا تعاقب کیا جا سکتا ہے۔ ٭ حرم میں کسی کو باندھنا اور قید کرنا۔بہرحال اس عنوان کے تحت بہت سے مسائل زیر بحث آئیں گے جن کا تعلق لڑائی جھگڑے اور باہمی اختلافات سے ہے۔ ہماری معروضات کی روشنی میں ان کا مطالعہ مفید رہے گا۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
یہ روایت ابن سعد نے متصل سند سے اپنی کتاب طبقات میں بیان کی ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد:2/144) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہمشیر کا نام "ام فروہ" تھا، انہیں نوحہ کرنے کی وجہ سے گھر سے نکال دیا گیا تاکہ تجہیز و تکفین جیسے کام میں خلل پیدا نہ ہو۔ (فتح الباری:5/93)
اور ابوبکر ؓ کی بہن ام فروہ ؓ نے جب وفات صدیق اکبر پر نوحہ کیا تو حضرت عمر فاروق ؓ نے انہیں ( ان کے گھر سے ) نکا ل دیا۔ تاکہ اس حرکت سے روح صدیق اکبر ؓ کو تکلیف نہ ہو۔ اور تجہیز و تکفین کے کام میں خلل نہ آئے۔ پھر عمر فاروق اعظم کا جلال نوحہ جیسے ناجائز کام کو کیسے برداشت کرسکتا تھا۔ ام فروہ والی روایت کو ابن سعد نے طبقات میں نکالا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریر ب سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے ارادہ کیا کہ نماز کھڑی کردینے کا حکم دوں۔ جب کھڑی کردی جائے تو خود ان لوگوں کی طرف نکلوں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے۔ پھر ان سمیت (ان کے) گھروں کو آگ لگادوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کے خلاف اپنے قہر و غضب کا اظہار کیا ہے جو نماز کا وقت ہونے پر اذان سنتے ہیں لیکن مشاغل ترک کر کے نماز باجماعت ادا نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا: میں ایسے لوگوں کے گھروں میں آگ لگا دینا چاہتا ہوں کیونکہ جب ان کے گھر جلائے جائیں گے تو وہ خود نکل کر بھاگ جائیں گے، اس بنا پر اہل معاصی کا گھروں سے نکالنا ثابت ہوا۔ (2) اس سے پہلے عنوان میں مدعی اور مدعا علیہ کے درمیان ناروا گفتگو کے متعلق کچھ نرمی تھی، اب اشارہ کیا کہ حد سے بڑھ کر کوئی حرکت ہو تو ان پر سخت گرفت بھی ہو سکتی ہے، انہیں عدالت سے باہر نکالا جا سکتا ہے، اس اعتبار سے یہ حدیث عنوان کے مطابق ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو بکرؓ کی ہمشیرہ نے جب(ان کی وفات پر) نوحہ کیا تو حضرت عمر فاروق ؓ نے انھیں گھر سے نکال دیا۔
فائدہ:حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمشیرہ کا نام"ام فروہ"تھا، انھیں نوحہ کرنے کی وجہ سے گھر سے نکال دیا گیاتاکہ تجہیزوتکفین جیسے کام میں خلل پیدا نہ ہو
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے حمید بن عبدالرحمن نے، ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، میں نے تو یہ ارادہ کر لیا تھا کہ نماز کی جماعت قائم کرنے کا حکم دے کر خود ان لوگوں کے گھروں میں جاؤں جو جماعت میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر کو جلا دوں۔
حدیث حاشیہ:
اس سے بھی ثابت ہوا کہ خطاکاروں پر کس حد تک تعزیر کا حکم ہے۔ خصوصاً نماز باجماعت میں تساہل برتنا اتنی بڑی غلطی ہے جس کے ارتکاب کرنے والوں پر آپ ﷺ نے اپنے انتہائی غیظ و غضب کا اظہار فرمایا۔ اسی سے باب کا مقصد ثابت ہوا۔
تشریح : حدیث میں لفظ فأحرق علیهم سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ جب گھر جلائے جائیں گے تو وہ نکل بھاگیں گے۔ پس گھر سے نکالنا جائز ہوا۔ ہمارے شیخ امام ابن قیم نے اس حدیث سے اور کئی حدیثوں سے دلیل لی ہے۔ کہ شریعت میں تعزیر بالمال درست ہے یعنی حاکم اسلام کسی جرم کی سزا میں مجرم کو مالی تاوان کر سکتا ہے۔ پچھلے باب میں مدعی اور مدعی علیہ کے باہمی ناروا کلام کے بارے میں کچھ نرمی تھی۔ مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ نے یہ باب منعقد فرما کر اشارہ کیا کہ اگر حد سے باہر کوئی حرکت ہو تو ان پر سخت گرفت بھی ہوسکتی ہے۔ ان کو عدالت سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔ حضرت امام نے حضرت عمر ؓ کے اس اقدام سے استدلال فرمایا کہ انہوں نے حضرت ابوبکر ؓ کی وفات پر خود ان کی بہن ام فروہ ؓ کو جب نوحہ کرتے دیکھا تو ان کو گھر سے نکلوا دیا۔ بلکہ بعض دوسری نوحہ کرنے والی عورتوں کو درے مار مار کر گھر سے باہر نکالا۔ فثبتت مشروعیة الاقتصار علی إخراج أهل المعصیة من باب الولي و محل إخراج الخصوم إذا وقع منهم من المراء واللدد ما یقتضي ذلك(فتح الباري)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "No doubt, I intended to order somebody to pronounce the Iqama of the (compulsory congregational) prayer and then I would go to the houses of those who do not attend the prayer and burn their houses over them."