باب : کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی گاڑنے سے نہ روکے
)
Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: Not to prevent a neighbour from fixing a peg)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2463.
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ کوئی پڑوسی دوسرےپڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے۔‘‘ پھر حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: کیا بات ہے کہ میں تمھیں اس بات سے روگردانی کرتے دیکھتا ہوں؟ اللہ کی قسم!میں یہ حدیث تم سے بیان کرتا رہوں گا۔
تشریح:
(1) معلوم ہوا کہ اگر ہمسایہ دیوار پر کوئی لکڑی یا گاڈر وغیرہ رکھنا چاہتا ہے تو دیوار کے مالک کے لیے روکنا جائز نہیں کیونکہ اس میں کوئی نقصان نہیں بلکہ ایسا کرنے سے دیوار مضبوط ہو جاتی ہے، ہاں دیوار کی توڑ پھوڑ جائز نہیں کیونکہ کسی کی ملکیت میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی تصرف نہیں کرنا چاہیے۔ بہتر یہ ہے کہ دیوار بناتے ہوئے اسے جگہ اور اخراجات کے اعتبار سے مشترکہ رکھا جائے تاکہ فریقین کا اس میں فائدہ ہو۔ اگر اکیلا آدمی اسے ایک اینٹ موٹی بنانا چاہتا ہے تو مشترکہ ڈیڑھ اینٹ، یعنی ساڑھے تیرہ (131/2) انچ موٹی بنائی جائے۔ بہرحال اگر دیوار کو نقصان پہنچنے کا خطرہ نہ ہو تو ہمسایہ دیوار استعمال کرنے سے نہ روکے، اس پر شہتیر یا گارڈر رکھنے کی اجازت خوشی سے دے دے۔ (2) حدیث کے آخر میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کا دھمکی آمیز بیان منقول ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب وہ مروان کے دورِ حکومت میں مدینہ طیبہ کے گورنر مقرر ہوئے تھے۔ اس میں ان کی ناراضی کا اظہار ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2379
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2463
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2463
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2463
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ کوئی پڑوسی دوسرےپڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے۔‘‘ پھر حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: کیا بات ہے کہ میں تمھیں اس بات سے روگردانی کرتے دیکھتا ہوں؟ اللہ کی قسم!میں یہ حدیث تم سے بیان کرتا رہوں گا۔
حدیث حاشیہ:
(1) معلوم ہوا کہ اگر ہمسایہ دیوار پر کوئی لکڑی یا گاڈر وغیرہ رکھنا چاہتا ہے تو دیوار کے مالک کے لیے روکنا جائز نہیں کیونکہ اس میں کوئی نقصان نہیں بلکہ ایسا کرنے سے دیوار مضبوط ہو جاتی ہے، ہاں دیوار کی توڑ پھوڑ جائز نہیں کیونکہ کسی کی ملکیت میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی تصرف نہیں کرنا چاہیے۔ بہتر یہ ہے کہ دیوار بناتے ہوئے اسے جگہ اور اخراجات کے اعتبار سے مشترکہ رکھا جائے تاکہ فریقین کا اس میں فائدہ ہو۔ اگر اکیلا آدمی اسے ایک اینٹ موٹی بنانا چاہتا ہے تو مشترکہ ڈیڑھ اینٹ، یعنی ساڑھے تیرہ (131/2) انچ موٹی بنائی جائے۔ بہرحال اگر دیوار کو نقصان پہنچنے کا خطرہ نہ ہو تو ہمسایہ دیوار استعمال کرنے سے نہ روکے، اس پر شہتیر یا گارڈر رکھنے کی اجازت خوشی سے دے دے۔ (2) حدیث کے آخر میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کا دھمکی آمیز بیان منقول ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب وہ مروان کے دورِ حکومت میں مدینہ طیبہ کے گورنر مقرر ہوئے تھے۔ اس میں ان کی ناراضی کا اظہار ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک ؓ علیہ نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے اعرج نے، اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے۔ پھر ابوہریرہ ؓ کہا کرتے تھے، یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں اس سے منہ پھیرنے والا پاتا ہوں۔ قسم اللہ! میں تو اس حدیث کا تمہارے سامنے برابر اعلان کرتا ہی رہوں گا۔
حدیث حاشیہ:
یا ایک کڑی لگانے سے، کیوں کہ حدیث میں دونوں طرح بصیغہ جمع اور بصیغہ مفرد منقول ہے۔ امام شافعی ؓ نے کہا کہ یہ حکم استحبابا ہے ورنہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہمسایہ کی دیوار پر اس کی اجازت کے بغیر کڑیاں رکھے۔ مالکیہ اور حنفیہ کا بھی یہی قول ہے۔ امام احمد اور اسحق اور اہل حدیث کے نزدیک یہ حکم وجوباً ہے اگر ہمسایہ اس کی دیوار پر کڑیاں لگانا چاہئے تو دیوار کے مالک کو اس کا روکنا جائز نہیں۔ اس لیے کہ اس میں کوئی نقصان نہیں اور دیوار مضبوط ہوتی ہے۔ گو دیوار میں سوراخ کرنا پڑے۔ امام بیہقی نے کہا، شافعی ؒ کا قول قدیم یہی ہے اور حدیث کے خلاف کوئی حکم نہیں دے سکتا اور یہ حدیث صحیح ہے۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Araj (RA): Abu Hurairah (RA) said, "Allah's Apostle (ﷺ) said, 'No-one should prevent his neighbor from fixing a wooden peg in his wall." Abu Hurairah (RA) said (to his companions), "Why do I find you averse to it? By Allah, I certainly will narrate it to you."