باب : اگر عربوں پر جہاد ہو اور کوئی ان کو غلام بنائے پھر ہبہ کرے یا عربی لونڈی سے جماع کرے یا فد یہ لے یہ سب باتیں درست ہیں یا بچوں کو قید کرے
)
Sahi-Bukhari:
Manumission of Slaves
(Chapter: Whoever possessed Arab slaves)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ نحل میں فرمایا ” اللہ تعالیٰ نے ایک مملوک غلام کی مثال بیان کی ہے جو بے بس ہو اور ایک وہ شخص جسے ہم نے اپنی طرف سے روزی دی ہو، وہ اس میں پوشیدہ اور ظاہرہ خرچ بھی کرتا ہو کیا یہ دونوں شخص برابر ہیں ( ہرگز نہیں ) تمام تعریف اللہ کے لیے ہے۔ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں۔ کہ حمد کی حقیقت کیا ہے اور غیراللہ جو اپنے لیے حمد کا دعوے دار ہو وہ کس قدر احمق اور بے عمل ہے۔
2542.
ابن محیریز کہتے ہیں: میں نے حضرت ابو سعید خدری ؒ کو دیکھا تو ان سے سوال کیا۔ انھوں نے جواباً فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ بنو مصطلق کے لیے روانہ ہوئے تو ہمیں عرب کے چند قیدی ہاتھ لگے۔ چونکہ ہم پر عورتوں سے الگ رہنا گراں ہوگیا تھا۔ اس لیے ہمیں عورتوں سے ملنے کی خواہش ہوئی۔ ہم نے ان سے عزل کرنا چاہا تو ہم نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تم پر لازم ہے کہ ایسا مت کرو کیونکہ کوئی بھی جان جوقیامت تک پیدا ہونے والی ہو، وہ پیدا ہوکر رہے گی۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عربوں کو نہ صرف غلام لونڈی بنایا جا سکتا ہے بلکہ ایسی لونڈیوں سے جماع بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن اس امر پر اتفاق ہے کہ ایک حیض آ جانے کے بعد لونڈی سے جماع کرنا جائز ہے تاکہ اس کا رحم فارغ ہو جائے۔ (2) عزل، خاوند بیوی کا ایک نجی معاملہ ہے اسے بنیاد بنا کر فیملی پلاننگ کے متعلق ’’قومی تحریک‘‘ چلانا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ اس کے متعلق مکمل بحث کتاب النکاح میں آئے گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2454
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2542
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2542
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2542
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ عتق مصدر ہے جس کے معنی آزاد ہونے اور قوت حاصل کرنے کے ہیں۔ غلام کو آزادی کے بعد شرعی قوت حاصل ہو جاتی ہے جو اس کی ماتحتی اور زیردستی ختم کر دینے کی باعث ہے۔ عتق کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی آدمی سے غلامی کو ختم کر دینا۔ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس غلام کے ہر عضو کے بدلے اس کے ہر عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا حتیٰ کہ اس کی شرمگاہ کو غلام کی شرمگاہ کے بدلے آزاد کر دیا جائے گا۔" (صحیح البخاری،کفارات الایمان،حدیث:6715،وصحیح مسلم،العتق،حدیث:3797(1509)) یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ (63)، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سڑسٹھ (67)، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ستر (70)، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دوران محاصرہ میں بیس (20)، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے سو (100)، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار (1000)، ذو کلاع حمیری رضی اللہ عنہ نے ایک دن میں آٹھ ہزار (8000) اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تیس ہزار (30000) غلام آزاد کیے۔ (سبل السلام)حضرت سفینہ ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھے آزاد کرتے وقت یہ شرط لگائی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک آپ کی خدمت کرتا رہوں گا۔ (مسند احمد:5/221)اس قدر فضیلت کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اب غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے اور عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ علمی اعتبار سے یہ امانت اسلاف نے ہمارے حوالے کی ہے۔ ہم بھی اسی حوالے سے اس امانت کو آگے منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ غلام، اسیران جنگ کی ایک شاخ ہے۔ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق کفار سے جنگ کے دوران میں جو لوگ گرفتار ہوں ان کے متعلق حکم ہے کہ ان پر احسان کرو یا ان سے فدیے کا معاملہ کر لو۔ احسان میں چار چیزیں شامل ہیں: ٭ دوران قید میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔ ٭ قتل یا دائمی قید کے بجائے انہیں غلام بنا کر مسلمان افراد کے حوالے کر دیا جائے۔ ٭ ان پر ٹیکس لگا کر انہیں ذمی بنا لیا جائے۔ ٭ انہیں بلا معاوضہ رہا کر دیا جائے۔ اسی طرح فدیہ کا معاملہ کرنے کی تین صورتیں ہیں: ٭ مالی معاوضہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے۔ ٭ قتل یا دائمی قید کے بجائے انہیں غلام بنا کر افراد مسلمین کے حوالے کر دیا جائے۔ ٭ اپنے ان آدمیوں سے جو دشمن کی قید میں ہوں تبادلہ کر لیا جائے۔جنگی قیدیوں پر احسان کی دوسری صورت یہ ہے کہ انہیں غلام بنا کر افراد کی ملکیت میں دے دیا جائے اور ان کے مالکان کو ہدایت کی جائے کہ وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق لونڈیوں سے "فائدہ اٹھانے" کی بھی اجازت ہے۔ ہمارے ہاں کچھ "روشن خیال" لوگ مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر لونڈیوں سے "فائدہ اٹھانے" کے معاملے میں غلط فہمی کا شکار ہیں اور آئے دن اس شبہ کی آڑ میں اسلام کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ ان کے ازالے کے لیے مولانا مودودی مرحوم کے الفاظ کو مستعار لیتے ہوئے چند مسائل ذکر کیے جاتے ہیں:(1) جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں، ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کر لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالے کر دی جائیں۔ حکومت کو اختیار ہے چاہے ان کو رہا کر دے، چاہے ان سے فدیہ لے، چاہے ان کا تبادلہ ان مسلمان قیدیوں سے کر لے جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں اور چاہے انہی سپاہیوں میں تقسیم کر دے۔ ایک سپاہی صرف اسی عورت سے تمتع کرنے (فائدہ اٹھانے) کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔(2) جو عورت اس طرح کسی کی ملک میں دی جائے اس کے ساتھ بھی اس وقت تک مباشرت نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں اور یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے۔(3) جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملے میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں، ان کا مذہب خواہ کوئی ہو، بہرحال جب وہ تقسیم کر دی جائیں گی تو جن کے حصے میں وہ آئیں وہ ان سے تمتع کر سکتے ہیں۔(4) جو عورت جس شخص کے حصے میں دی گئی ہو صرف وہی اس کے ساتھ تمتع کر سکتا ہے۔ کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس عورت سے جو اولاد ہو گی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی جس کی ملک وہ عورت ہے۔ اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ صاحب اولاد ہو جانے کے بعد وہ عورت فروخت نہیں کی جا سکے گی اور مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہو جائے گی۔(5) جو عورت اس طرح کسی شخص کی ملک میں آئی ہو اسے اگر اس کا مالک کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دے دے تو پھر مالک کو اس سے دوسری تمام خدمات لینے کا حق تو رہتا ہے لیکن شہوانی تعلق کا حق باقی نہیں رہتا۔(6) جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پر چار کی پابندی لگائی ہے، اس طرح لونڈیوں کی تعداد پر نہیں لگائی لیکن اس معاملے میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مال دار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید خرید کر جمع کر لیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنا لیں بلکہ در حقیقت معاملے میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے۔(7) ملکیت کے تمام دوسرے حقوق کی طرح وہ مالکانہ حقوق بھی قابل انتقال ہیں جو کسی شخص کو ازروئے قانون کسی اسیر جنگ پر حکومت نے عطا کیے ہوں۔(8) حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا کہ نکاح ایک قانونی فعل ہے، لہذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتا وہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع میں کراہت محسوس کرے۔(9) اسیران جنگ میں سے کسی عورت کو کسی شخص کی ملکیت میں دے دینے کے بعد پھر حکومت اسے واپس لینے کی مجاز نہیں رہتی بالکل اسی طرح جیسے کسی عورت کا ولی اس کو کسی کے نکاح میں دے چکنے کے بعد پھر واپس لینے کا حق دار نہیں رہتا۔(10) اگر کوئی فوجی کمانڈر محض وقتی اور عارضی طور پر اپنے سپاہیوں کو قیدی عورتوں سے شہوانی پیاس بجھا لینے کی اجازت دے دے اور محض کچھ وقت کے لیے انہیں فوج میں تقسیم کرے تو یہ اسلامی قانون کی رو سے قطعاً ایک ناجائز فعل ہے۔ اس میں اور زنا میں کوئی فرق نہیں ہے اور زنا اسلامی قانون میں جرم ہے۔ (تفہیم القرآن،سورہ نساء،حاشیہ نمبر:44)اگرچہ دور حاضر میں غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے، تاہم آج بھی اگر کسی مقروض کا قرض ادا کر دیا جائے یا کسی ناحق مقدمے میں پھنسے ہوئے انسان کو رہائی دلائی جائے تو ایسا کرنا بھی غلام کو آزاد کرنے کے مترادف ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد مرفوع احادیث پر تقریباً بیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں غلاموں کے حقوق و آداب بیان کیے ہیں۔ دوران مطالعہ میں قارئین کرام کو بے شمار احکام و مسائل سے آگاہی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی عربی کو غلام بنایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ عربی جب قید ہو جائے، یعنی دوران جنگ میں پکڑا جائے تو اسے غلام بنانا جائز ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا میلان بھی جواز کی طرف معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے اس سلسلے میں جو آیت پیش کی ہے اس میں مملوک کا مطلق ذکر ہے، اس میں عربی یا عجمی ہونے کی پابندی نہیں بلکہ عموم کے اعتبار سے عربی اور عجمی دونوں کو شامل ہے۔ پھر امام بخاری رحمہ اللہ نے تفصیل سے پانچ چیزیں ذکر کی ہیں: ٭ ان کا ہبہ کرنا۔ ٭ ان کی خریدوفروخت کرنا۔٭ ان کی لونڈیوں سے جماع کرنا۔ ٭ ان سے فدیہ لینا۔ ٭ ان کی اولاد کو قیدی بنانا۔ انہوں نے اس عنوان کے تحت چار احادیث ذکر کی ہیں اور ہر حدیث سے ایک الگ حکم ثابت کیا ہے، البتہ ان کی خریدوفروخت کے متعلق صراحتاً ذکر نہیں ہے لیکن روایت کے بعض طرق میں خریدوفروخت کی صراحت موجود ہے جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے۔ (فتح الباری:5/211)
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ نحل میں فرمایا ” اللہ تعالیٰ نے ایک مملوک غلام کی مثال بیان کی ہے جو بے بس ہو اور ایک وہ شخص جسے ہم نے اپنی طرف سے روزی دی ہو، وہ اس میں پوشیدہ اور ظاہرہ خرچ بھی کرتا ہو کیا یہ دونوں شخص برابر ہیں ( ہرگز نہیں ) تمام تعریف اللہ کے لیے ہے۔ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں۔ کہ حمد کی حقیقت کیا ہے اور غیراللہ جو اپنے لیے حمد کا دعوے دار ہو وہ کس قدر احمق اور بے عمل ہے۔
حدیث ترجمہ:
ابن محیریز کہتے ہیں: میں نے حضرت ابو سعید خدری ؒ کو دیکھا تو ان سے سوال کیا۔ انھوں نے جواباً فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ بنو مصطلق کے لیے روانہ ہوئے تو ہمیں عرب کے چند قیدی ہاتھ لگے۔ چونکہ ہم پر عورتوں سے الگ رہنا گراں ہوگیا تھا۔ اس لیے ہمیں عورتوں سے ملنے کی خواہش ہوئی۔ ہم نے ان سے عزل کرنا چاہا تو ہم نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تم پر لازم ہے کہ ایسا مت کرو کیونکہ کوئی بھی جان جوقیامت تک پیدا ہونے والی ہو، وہ پیدا ہوکر رہے گی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عربوں کو نہ صرف غلام لونڈی بنایا جا سکتا ہے بلکہ ایسی لونڈیوں سے جماع بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن اس امر پر اتفاق ہے کہ ایک حیض آ جانے کے بعد لونڈی سے جماع کرنا جائز ہے تاکہ اس کا رحم فارغ ہو جائے۔ (2) عزل، خاوند بیوی کا ایک نجی معاملہ ہے اسے بنیاد بنا کر فیملی پلاننگ کے متعلق ’’قومی تحریک‘‘ چلانا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ اس کے متعلق مکمل بحث کتاب النکاح میں آئے گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "۔۔۔ وہ مملوک غلام جو کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور وہ شخص جسے ہماری طرف سے اچھارزق ملا وہ اس سے خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتا ہے، کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟تمام تعریف اللہ کے لیے ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے، انہیں محمد بن یحییٰ بن حبان نے، ان سے ابن محیریز نے کہ میں نے ابوسعید ؓ کو دیکھا تو ان سے ایک سوال کیا، آپ نے جواب میں کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ بنی مصطلق کے لیے نکلے۔ اس غزوے میں ہمیں (قبیلہ بنی مصطلق کے) عرب قیدی ہاتھ آئے (راستے ہی میں) ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور عورت سے الگ رہنا ہم کو مشکل ہوگیا۔ ہم نے چاہا کہ عزل کرلیں۔ جب رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا، تم عزل کرسکتے ہو، اس میں کوئی قباحت نہیں لیکن جن روحوں کی بھی قیامت تک کے لیے پیدائش مقدر ہوچکی ہے وہ تو ضرور پیدا ہوکر رہیں گی (لہٰذا تمہارا عزل کرنا بیکار ہے)
حدیث حاشیہ:
عزل کہتے ہیں انزال کے وقت ذکر باہر نکال لینے کو تاکہ رحم میں منی نہ پہنچے اور عورت کو حمل نہ رہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کو پسند نہیں فرمایا، اسی لیے ارشاد ہوا کہ تمہارے عزل کرنے سے مقدر الٰہی کے مطابق پیدا ہونے والے بچے کی پیدائش رک نہیں سکتی۔ عزل کو عام طور پر مکروہ سمجھاگیا، کیوں کہ اس میں قطع اور تقلیل نسل ہے۔ بحالات موجودہ جو فیملی پلاننگ کے نام سے تقلیل نسل کے پروگرام چلائے جارہے ہیں، شریعت اسلامی سے اس کا علی الاطلاق جواز ڈھونڈنا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ قطع نسل ہی کی ایک صورت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Muhairiz (RA): I saw Abu Said and asked him about coitus interruptus. Abu Said said, "We went with Allah's Apostle, in the Ghazwa of Barli Al-Mustaliq and we captured some of the 'Arabs as captives, and the long separation from our wives was pressing us hard and we wanted to practice coitus interruptus. We asked Allah's Apostle (ﷺ) (whether it was permissible). He said, "It is better for you not to do so. No soul, (that which Allah has) destined to exist, up to the Day of Resurrection, but will definitely come, into existence."