باب : جو چیز قبضہ میں ہو یا نہ ہو اور جو چیز بٹ گئی ہو اور جو نہ بٹی ہو، اس کا ہبہ کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: The received, unreceived, divided and undivided gifts)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺاور آپ کے اصحاب نے قبیلہ ہوازن کو ان کی تمام غنیمت ہبہ کردی، حالانکہ اس کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔
2606.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک شخص کا رسول اللہ ﷺ کے ذمے کچھ قرض تھا۔ (اس نے سختی سے اس کا تقاضا کیا تو) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے چاہا کہ اس کی خبر لیں لیکن آپ نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو۔ جس کا کوئی حق ہوتا ہے، اسے کچھ کہنے کا بھی حق ہے۔‘‘ آپ نے مزید فرمایا: ’’اس کے لیے اونٹ خریدکر اسے دے دو۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے عرض کیا: ہمیں اس عمر کا اونٹ نہیں ملتا بلکہ اس سے بہتر عمر کااونٹ دستیاب ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے لیے وہی خریدو اور اسے دے دو کیونکہ تم میں بہتر وہی شخص ہے جو (اپنے ذمے واجبات کی)ادائیگی بہتر طریقے سے کرے۔‘‘
تشریح:
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے غیر مقبوض چیز کا ہبہ ثابت کیا ہے، یعنی رسول اللہ ﷺ نے اونٹ خرید کر اسے دے دینے کا حکم دیا، حالانکہ آپ نے اس خرید کردہ اونٹ پر قبضہ نہیں کیا تھا، لہذا غیر مقبوض چیز کا ہبہ ثابت ہوا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2516
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2606
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2606
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2606
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس روایت کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے آگے حدیث: 2607 اور 2608 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ غیر تقسیم شدہ چیز کا ہبہ ثابت کرنا چاہتے ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ مشاع کا ہبہ صحیح ہے۔
اور نبی کریم ﷺاور آپ کے اصحاب نے قبیلہ ہوازن کو ان کی تمام غنیمت ہبہ کردی، حالانکہ اس کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک شخص کا رسول اللہ ﷺ کے ذمے کچھ قرض تھا۔ (اس نے سختی سے اس کا تقاضا کیا تو) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے چاہا کہ اس کی خبر لیں لیکن آپ نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو۔ جس کا کوئی حق ہوتا ہے، اسے کچھ کہنے کا بھی حق ہے۔‘‘ آپ نے مزید فرمایا: ’’اس کے لیے اونٹ خریدکر اسے دے دو۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے عرض کیا: ہمیں اس عمر کا اونٹ نہیں ملتا بلکہ اس سے بہتر عمر کااونٹ دستیاب ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے لیے وہی خریدو اور اسے دے دو کیونکہ تم میں بہتر وہی شخص ہے جو (اپنے ذمے واجبات کی)ادائیگی بہتر طریقے سے کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے غیر مقبوض چیز کا ہبہ ثابت کیا ہے، یعنی رسول اللہ ﷺ نے اونٹ خرید کر اسے دے دینے کا حکم دیا، حالانکہ آپ نے اس خرید کردہ اونٹ پر قبضہ نہیں کیا تھا، لہذا غیر مقبوض چیز کا ہبہ ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
نبی کریم ﷺ اورآپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے قبیلہ ہوازن کو وہ مال ہبہ کردیا جو ان سے بطور غنیمت حاصل کیاتھا، اور وہ مال غنیمت ابھی غیر تقسیم شدہ تھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن عثمان بن جبلہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے باپ نے خبر دی شعبہ سے، ان سے سلمہ نے بیان کیا کہ میں نے ابوسلمہ سے سنا اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ ایک شخص کا رسول اللہ ﷺ پر قرض تھا (اس نے سختی کے ساتھ تقاضا کیا) تو صحابہ اس کی طرف بڑھے۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا اسے چھوڑ دو، حق والے کو کچھ نہ کچھ کہنے کی گنجائش ہوتی ہی ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اس کے لیے ایک اونٹ اسی کے اونٹ کی عمر کا خرید کر اسے دے دو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اس سے اچھی عمر کا ہی اونٹ مل رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسی کو خرید کر دے دو کہ تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو قرض کے ادا کرنے میں سب سے اچھا ہو۔
حدیث حاشیہ:
بعضوں نے کہا اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے۔ کیوں کہ آنحضرت ﷺ نے ابورافع ؓ کو وکیل کیا تھا۔ انہوں نے اونٹ خریدا، تو ان کا قبضہ آنحضرت ﷺ کا قبضہ تھا اس لیے قبضہ سے پہلے یہ ہبہ نہ ہوا تواس کا جواب یہ ہے کہ ابورافع صرف خریدنے کے لیے وکیل ہوئے تھے نہ ہبہ کے لیے، تو ان کا قبضہ ہبہ کے احکام میں آنحضرت ﷺ کا قبضہ نہ تھا۔ پس امام بخاری ؒ کا مطلب حدیث سے نکل آیا اور غیر مقبوض کا ہبہ ثابت ہوا۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) owed a man some debt (and that man demanded it very harshly). The companions of the Prophet (ﷺ) wanted to harm him, but the Prophet (ﷺ) said to them, "Leave him, as the creditor has the right to speak harshly." He then added, "Buy (a camel) of the same age and give it to him." They said, "We cannot get except a camel of an older age than that of his." He said, "Buy it and give it to him, as the best amongst you is he who pays back his debt in the most handsome way.'