باب : اگر کوئی شخص اونٹ پر سوار ہو اور دوسرا شخص وہ اونٹ اس کو ہبہ کردے تو درست ہے
)
Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: If someone gives a camel as a gift to a man riding it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2611.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے اور میں ایک سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا: ’’تم اسے میرے ہاتھ فروخت کردو۔‘‘ پھر اسے خریدکر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اے عبداللہ!یہ تمہارا (اونٹ) ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اگر کوئی دوسرے شخص کو اونٹ ہبہ کرے اور جسے ہبہ کیا گیا ہے وہ خود اس پر سوار ہو تو یہ ہبہ جائز ہے۔ احناف کا دعویٰ ہے کہ جب کوئی چیز قبضے میں نہ ہو اسے فروخت یا ہبہ کرنا جائز نہیں۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں: قبضے کے بغیر بھی اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے جبکہ اس کے متعلق قانونی حق ملکیت حاصل ہو جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اونٹ پر سوار تھے، رسول اللہ ﷺ نے اسی حالت میں اسے خریدا پھر ازراہ نوازش انہیں ہبہ کر دیا، اس پر عملاً قبضہ نہیں بلکہ اس شخص اور ہبہ کیے ہوئے اونٹ کے درمیان ملکیت سے دستبرداری قبضہ ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قیمت ادا کرنے سے پہلے خریدی ہوئی چیز میں تصرف کرنا جائز ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2520
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2611
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2611
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2611
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے اور میں ایک سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا: ’’تم اسے میرے ہاتھ فروخت کردو۔‘‘ پھر اسے خریدکر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اے عبداللہ!یہ تمہارا (اونٹ) ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اگر کوئی دوسرے شخص کو اونٹ ہبہ کرے اور جسے ہبہ کیا گیا ہے وہ خود اس پر سوار ہو تو یہ ہبہ جائز ہے۔ احناف کا دعویٰ ہے کہ جب کوئی چیز قبضے میں نہ ہو اسے فروخت یا ہبہ کرنا جائز نہیں۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں: قبضے کے بغیر بھی اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے جبکہ اس کے متعلق قانونی حق ملکیت حاصل ہو جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اونٹ پر سوار تھے، رسول اللہ ﷺ نے اسی حالت میں اسے خریدا پھر ازراہ نوازش انہیں ہبہ کر دیا، اس پر عملاً قبضہ نہیں بلکہ اس شخص اور ہبہ کیے ہوئے اونٹ کے درمیان ملکیت سے دستبرداری قبضہ ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قیمت ادا کرنے سے پہلے خریدی ہوئی چیز میں تصرف کرنا جائز ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور حمیدی نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ ہم سے عمرو نے اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور میں ایک سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ نبی کریم ﷺ نے عمر ؓ سے فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے بیچ دے چنانچہ آپ نے اسے خرید لیا اور پھر فرمایا عبداللہ ! تو یہ اونٹ لے جا ( میں نے یہ تجھ کو بخش دیا )
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ ؓ اونٹ پر سوار تھے۔ آنحضرت ﷺ نے اسی حالت میں اسے خرید لیا اور پھر از راہ نوازش عبداللہ ؓ کو اسی حالت میں اسے ہبہ فرمادیا، اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
We were in the company of the Prophet (ﷺ) on a journey, and I was riding a troublesome camel. The Prophet (ﷺ) asked 'Umar to sell that camel to him. So, 'Umar sold it to him. The Prophet (ﷺ) then said, "O 'Abdullah! The camel is for you."