Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: The acceptance of presents from Al-Mushrikun)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ کے ساتھ ہجرت کی تو وہ ایک ایسے شہر میں پہنچے جہاں ایک کافر بادشاہ یا ( یہ کہا کہ ) ظالم بادشاہ تھا۔ اس بادشاہ نے کہا کہ انہیں ( ابراہیمؑ کو ) آجر ( ہاجرہ ) کو دے دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( خیبر کے یہ ودیوں کی طرف سے دشمنی میں ) ہد یہ کے طور پر بکری کا ایسا گوشت پیش کیا گیا تھا جس میں زہر تھا۔ ابوحمید نے بیان کیا کہ ایلہ کے حاکم نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں سفید خچر اور چادر ہد یہ کے طور بھیجی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لکھوایا کہ وہ اپنی قوم کے حاکم کی حیثیت سے باقی رہے۔ ( کیوں کہ اس نی جز یہ دینا منظور کرلیا تھا )۔ تشریح : دومۃ الجندل ایک شہر کا نام تھا تبوک کے قریب۔ وہاں کا بادشاہ اکیدر بن عبدالملک بن عبدالجن نصرانی تھا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اسے گرفتار کرکے لائے۔ آنحضرتﷺ نے اسے آزاد فرمادیا کیو ںکہ وہ جزیہ دینے پر راضی ہوگیا تھا۔ اس نے ہدیہ مذکور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا تھا۔ کہتے ہیں حضرت سارہ بہت خوبصورت تھیں۔ ان کے حسن و جمال کی تعریف سن کر بادشاہ نے ان کو بلا بھیجا۔ بعض لوگوں نے اس کا نام عمرو بن امرءالقیس بتلایا ہے۔ حضرت ہاجرہ اس کی بیٹی تھیں۔ بادشاہ نے حضرت سارہ کی کرامت دیکھ کر چاہا کہ اس کی بیٹی اس مبارک خاندان میں داخل ہوکر برکتوں سے حصہ پائے۔ حضرت ہاجرہ کو لونڈی باندی کہنا غلط ہے جس کا تفصیلی بیان پیچھے گزر چکا ہے۔ ایلہ نامی مقام مذکورہ مکہ سے مصر جاتے ہوئے سمندر کے کنارے ایک بندرگاہ تھی وہاں کے عیسائی حاکم کا نام یوحنا بن اوبہ تھا۔ ان روایات کے نقل کرنے سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ مشرکین و کفار کے ہدایا کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ ان روایات سے ظاہر ہے۔
2618.
حضرت عبدالرحمان بن ابو بکر ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک سو تیس اشخاص نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا تم میں سے کسی کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟‘‘ پتہ چلا ہے کہ ایک شخص کے پاس ایک صاع کے بقدرآٹا ہے۔ وہ گوندھا گیا۔ اتنے میں ایک لمبا تڑنگا مشرک بکریوں کا ریوڑ ہانکتا ہوا وہاں پہنچا تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: ’’ہدیہ کے لیے لائے ہو یا فروخت کرنے کاارادہ ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں، بلکہ فروخت کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ آپ ﷺ نے اس سے بکری خریدی، اسے ذبح کرکے اس کاگوشت بنایا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ اس کی کلیجی وغیرہ اکھٹی کرکے اس کو بھونا جائے۔ (راوی نے کہا:) اللہ کی قسم! ایک سو تیس میں سے کوئی شخص ایسا باقی نہ رہا جس کو آپ نے کلیجی کا ٹکڑا کاٹ کر نہ دیاہو۔ اگر وہ موجود تھا تو اس کو دیا ورنہ اس کا حصہ رکھ چھوڑا۔ پھر آپ نے گوشت کے دو تھال تیار کیے۔ سب لوگوں نے سیر ہوکر اسے کھایا۔ پھر دوتھالوں میں سے کچھ بچ بھی رہا جسے ہم نے اونٹ پر رکھ لیا۔ أوکماقال۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مشرک سے پوچھا: ’’تم یہ بکریاں بطور ہدیہ لائے ہو یا انہیں فروخت کرنے کا ارادہ ہے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرک کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔ اگر ناجائز ہوتا تو آپ اس کے متعلق دریافت کیوں کرتے؟ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے دل میں رحم آ جاتا ہے اور اس میں طمع اور لالچ کے جذبات نہیں ہوتے، مسلمانوں کا قافلہ دیکھ کر ممکن ہے کہ مشرک کو خیال آئے، اس موقع پر کچھ ہدیہ پیش کرنا چاہیے، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ ہدیہ لائے ہو یا فروخت کرنے کا ارادہ ہے۔ (2) اس کا یہ مطلب نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دل میں کوئی طمع تھی، البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے مشرکین کے ہدایا قبول کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الخراج، حدیث:3057) اس میں تطبیق یوں ہے کہ آپ ان مشرکین کا ہدیہ قبول کرتے تھے جن سے ایمان کی توقع ہوتی تھی، اور جس ہدیے میں مشرکین سے دوستی بڑھانا مقصود ہو تو وہ جائز نہیں۔ بہرحال امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ کفار و مشرکین سے ہدایا قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ حالات سازگار ہوں، سیاسی اور معاشرتی طور پر کوئی پیچیدگی نہ ہو، البتہ اس مشرک کا ہدیہ قبول کرنا منع ہے جو دوستی اور محبت کی بنا پر ہو جس سے محبت اور تعلقات بڑھانا مقصود ہو۔ واللہ أعلم(فتح الباري:284/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2526
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2618
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2618
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2618
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت متصل سند سے آئندہ بیان ہو گی۔ (صحیح البخاری،احادیث الانبیاء،حدیث:3358) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کا زہر آلود گوشت پیش کرنے کا واقعہ بھی اسی عنوان کے تحت ذکر کیا جائے گا۔ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت متصل طور پر پہلے بیان ہو چکی ہے۔ (صحیح البخاری،الزکاۃ،حدیث:1481) ان روایات کا مطلب ہے کہ اگر مشرکین کے ساتھ سیاسی اور معاشرتی تعلقات صحیح ہوں تو ان کے تحائف قبول کرنے صحیح ہیں، بصورت دیگر تحائف کا تبادلہ مفاد پرستی ہے۔
اور ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ کے ساتھ ہجرت کی تو وہ ایک ایسے شہر میں پہنچے جہاں ایک کافر بادشاہ یا ( یہ کہا کہ ) ظالم بادشاہ تھا۔ اس بادشاہ نے کہا کہ انہیں ( ابراہیمؑ کو ) آجر ( ہاجرہ ) کو دے دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( خیبر کے یہ ودیوں کی طرف سے دشمنی میں ) ہد یہ کے طور پر بکری کا ایسا گوشت پیش کیا گیا تھا جس میں زہر تھا۔ ابوحمید نے بیان کیا کہ ایلہ کے حاکم نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں سفید خچر اور چادر ہد یہ کے طور بھیجی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لکھوایا کہ وہ اپنی قوم کے حاکم کی حیثیت سے باقی رہے۔ ( کیوں کہ اس نی جز یہ دینا منظور کرلیا تھا )۔ تشریح : دومۃ الجندل ایک شہر کا نام تھا تبوک کے قریب۔ وہاں کا بادشاہ اکیدر بن عبدالملک بن عبدالجن نصرانی تھا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اسے گرفتار کرکے لائے۔ آنحضرتﷺ نے اسے آزاد فرمادیا کیو ںکہ وہ جزیہ دینے پر راضی ہوگیا تھا۔ اس نے ہدیہ مذکور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا تھا۔ کہتے ہیں حضرت سارہ بہت خوبصورت تھیں۔ ان کے حسن و جمال کی تعریف سن کر بادشاہ نے ان کو بلا بھیجا۔ بعض لوگوں نے اس کا نام عمرو بن امرءالقیس بتلایا ہے۔ حضرت ہاجرہ اس کی بیٹی تھیں۔ بادشاہ نے حضرت سارہ کی کرامت دیکھ کر چاہا کہ اس کی بیٹی اس مبارک خاندان میں داخل ہوکر برکتوں سے حصہ پائے۔ حضرت ہاجرہ کو لونڈی باندی کہنا غلط ہے جس کا تفصیلی بیان پیچھے گزر چکا ہے۔ ایلہ نامی مقام مذکورہ مکہ سے مصر جاتے ہوئے سمندر کے کنارے ایک بندرگاہ تھی وہاں کے عیسائی حاکم کا نام یوحنا بن اوبہ تھا۔ ان روایات کے نقل کرنے سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ مشرکین و کفار کے ہدایا کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ ان روایات سے ظاہر ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبدالرحمان بن ابو بکر ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک سو تیس اشخاص نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا تم میں سے کسی کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟‘‘ پتہ چلا ہے کہ ایک شخص کے پاس ایک صاع کے بقدرآٹا ہے۔ وہ گوندھا گیا۔ اتنے میں ایک لمبا تڑنگا مشرک بکریوں کا ریوڑ ہانکتا ہوا وہاں پہنچا تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: ’’ہدیہ کے لیے لائے ہو یا فروخت کرنے کاارادہ ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں، بلکہ فروخت کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ آپ ﷺ نے اس سے بکری خریدی، اسے ذبح کرکے اس کاگوشت بنایا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ اس کی کلیجی وغیرہ اکھٹی کرکے اس کو بھونا جائے۔ (راوی نے کہا:) اللہ کی قسم! ایک سو تیس میں سے کوئی شخص ایسا باقی نہ رہا جس کو آپ نے کلیجی کا ٹکڑا کاٹ کر نہ دیاہو۔ اگر وہ موجود تھا تو اس کو دیا ورنہ اس کا حصہ رکھ چھوڑا۔ پھر آپ نے گوشت کے دو تھال تیار کیے۔ سب لوگوں نے سیر ہوکر اسے کھایا۔ پھر دوتھالوں میں سے کچھ بچ بھی رہا جسے ہم نے اونٹ پر رکھ لیا۔ أوکماقال۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مشرک سے پوچھا: ’’تم یہ بکریاں بطور ہدیہ لائے ہو یا انہیں فروخت کرنے کا ارادہ ہے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرک کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔ اگر ناجائز ہوتا تو آپ اس کے متعلق دریافت کیوں کرتے؟ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے دل میں رحم آ جاتا ہے اور اس میں طمع اور لالچ کے جذبات نہیں ہوتے، مسلمانوں کا قافلہ دیکھ کر ممکن ہے کہ مشرک کو خیال آئے، اس موقع پر کچھ ہدیہ پیش کرنا چاہیے، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ ہدیہ لائے ہو یا فروخت کرنے کا ارادہ ہے۔ (2) اس کا یہ مطلب نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دل میں کوئی طمع تھی، البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے مشرکین کے ہدایا قبول کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الخراج، حدیث:3057) اس میں تطبیق یوں ہے کہ آپ ان مشرکین کا ہدیہ قبول کرتے تھے جن سے ایمان کی توقع ہوتی تھی، اور جس ہدیے میں مشرکین سے دوستی بڑھانا مقصود ہو تو وہ جائز نہیں۔ بہرحال امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ کفار و مشرکین سے ہدایا قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ حالات سازگار ہوں، سیاسی اور معاشرتی طور پر کوئی پیچیدگی نہ ہو، البتہ اس مشرک کا ہدیہ قبول کرنا منع ہے جو دوستی اور محبت کی بنا پر ہو جس سے محبت اور تعلقات بڑھانا مقصود ہو۔ واللہ أعلم(فتح الباري:284/5)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺسے بیا ن کیا کہ (آپ نے فرمایا: )"حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ علیہ السلام کو لے کر ہجرت کی اور ایک ایسی بستی میں پہنچے جہاں کا بادشاہ ظالم تھا(اس نے سارہ سے دست درازی کرنا چاہی تو اس کا ہاتھ مفلوج ہوگیا) اس نے کہا: انھیں ہاجرہ بطور خدمت دو۔ "ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بکری کا گوشت بطور ہدیہ پیش کیا گیا جس میں زہر ملاہواتھا۔ حضرت ابو حمید ساعدیؓنے کہا: ایلہ کے بادشاہ نے نبی کریمﷺ کو سفید خچر بطور ہدیہ بھیجا اور آپ نے اسے ایک ریشمی چادر عنائیت فرمائی اور اسے اس علاقے کی حکومت لکھ دی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نے بیان کیا اور ان سے عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ نے بیان کیا کہ ہم ایک سو تیس آدمی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (ایک سفر میں) تھے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا کسی کے ساتھ کھانے کی بھی کوئی چیز ہے؟ ایک صحابی کے ساتھ تقریباً ایک صاع کھانا (آٹا) تھا۔ وہ آٹا گوندھا گیا۔ پھر ایک لمبا تڑنگا مشرک پریشان حال بکریاں ہانکتا ہوا آیا۔ تو نبی اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا یہ بیچنے کے لیے ہیں۔ یا کسی کا عط یہ ہی یا آپ نے (عطیہ کی بجائے) ہبہ فرمایا۔ اس نے کہا کہ نہیں بیچنے کے لیے ہیں۔ آپ نے اس سے ایک بکری خریدی پھر وہ ذبح کی گئی۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اس کی کلیجی بھوننے کے لیے کہا۔ قسم خدا کی ایک سو تیس اصحاب میں سے ہر ایک کو اس کلیجی میں سے کاٹ کے دیا۔ جو موجود تھے انہیں تو آپ نے فورا ہی دے دیا اور جو اس وقت موجود نہیں تھے ان کا حصہ محفوظ رکھ لیا۔ پھر بکری کے گوشت کو دو بڑی قابوں میں رکھاگیا اور سب نے خوب سیر ہوکر کھایا۔ جو کچھ قابوں میں بچ گیا تھا اسے اونٹ پر رکھ کر ہم واپس لائے۔ أو کما قال۔
حدیث حاشیہ:
اس سے بھی کسی کافر مشرک کا ہدیہ قبول کرنا یا اس سے کوئی چیز خریدناجائز ثابت ہوا اور آنحضرت ﷺ کا ایک عظیم معجزہ بھی ثابت ہوا کہ آپ کی دعاءسے وہ قلیل گوشت سب کے لیے کافی ہوگیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur-Rahman bin Abu Bakr (RA): We were one-hundred and thirty persons accompanying the Prophet (ﷺ) who asked us whether anyone of us had food. There was a man who had about a Sa of wheat which was mixed with water then. A very tall pagan came driving sheep. The Prophet (ﷺ) asked him, "Will you sell us (a sheep) or give it as a present?" He said, "I will sell you (a sheep)." The Prophet (ﷺ) bought a sheep and it was slaughtered. The Prophet (ﷺ) ordered that its liver and other abdominal organs be roasted. By Allah, the Prophet (ﷺ) gave every person of the one-hundred-and-thirty a piece of that; he gave all those of them who were present; and kept the shares of those who were absent.The Prophet (ﷺ) then put its meat in two huge basins and all of them ate to their fill, and even then more food was left in the two basins which were carried on the camel (or said something like it).