مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
´(اگر کسی نے کہا کہ)` میں نے عمر بھر کے لیے تمہیں یہ مکان دے دیا تو اسے عمریٰ کہتے ہیں(مطلب یہ ہے کہ اس کی عمر بھر کے لیے)مکان میں نے اس کی ملکیت میں دے دیا۔ قرآنی لفظ«استعمركم فيها»کا مفہوم یہ ہے کہ اس نے تمہیں زمین میں بسایا۔
2626.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’عمریٰ جائز ہے، یعنی نافذ ہو جائے گا۔‘‘ حضرت عطاء بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت جابر ؓ نے نبی ﷺ سے اسی طرح بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں عمریٰ اور رقبیٰ دونوں کا ذکر کیا ہے لیکن احادیث میں صرف عمریٰ کا ذکر ہے، معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک دونوں ایک ہیں یا ان کا حکم ایک جیسا ہے۔ (2) جمہور علماء کے نزدیک عمریٰ لینے والے کی ملک ہو جاتا ہے، دینے والے کی طرف واپس نہیں ہوتا، خواہ وہ شرط کرے۔ اگر کوئی مشروط عطیہ ہے تو شرط پوری ہونے پر اس کے مطابق عمل ہو گا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمریٰ اور رقبیٰ سے منع فرمایا ہے اور آپ نے انصار سے فرمایا تھا: ’’تم لوگ اپنی زمینیں اس طرح برباد نہ کرو جو شخص عمریٰ کرے گا وہ اسی کا ہو جائے گا جسے ہبہ کیا گیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الھبات، حدیث:4196(1625)) ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اپنا مال واپس لینا چاہتے ہو تو عمریٰ نہ کرو کیونکہ جب تم نے عمریٰ کر دیا تو وہ واپس نہیں ہو گا بلکہ تم مشروط طور پر عطیہ کرو، اس لیے جواز اور نہی کی احادیث میں تعارض نہیں ہے۔ (فتح الباري:293/5) ہمارے ہاں عمریٰ کا رواج نہیں بلکہ پسندیدہ طریقہ ہبہ کا ہے۔ اگر کوئی اپنی چیز شرعی طور پر دوسرے کو دینا چاہتا ہے تو ہبہ کے ذریعے سے وہ دی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2534
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2626
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2626
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2626
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
عمریٰ یہ ہے کہ عمر بھر کسی کو رہنے کے لیے مکان دینا اور رقبیٰ کسی کی موت سے مشروط کر کے کوئی چیز دینا، مثلاً: کسی کو اس شرط پر مکان دینا کہ اگر دینے والا پہلے مر گیا تو مکان لینے والے کا اور اگر لینے والا پہلے مر گیا تو وہ دینے والے کا ہو جائے گا۔ اس میں ہر ایک دوسرے کی موت کا منتظر رہتا تھا، اس لیے اس کا نام رقبیٰ ہوا۔ یہ دونوں معاہدے زمانۂ جاہلیت میں مروج تھے، اسلام نے ان کی اصلاح کر کے انہیں باقی رکھا ہے۔
´(اگر کسی نے کہا کہ)` میں نے عمر بھر کے لیے تمہیں یہ مکان دے دیا تو اسے عمریٰ کہتے ہیں (مطلب یہ ہے کہ اس کی عمر بھر کے لیے) مکان میں نے اس کی ملکیت میں دے دیا۔ قرآنی لفظ «استعمركم فيها» کا مفہوم یہ ہے کہ اس نے تمہیں زمین میں بسایا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’عمریٰ جائز ہے، یعنی نافذ ہو جائے گا۔‘‘ حضرت عطاء بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت جابر ؓ نے نبی ﷺ سے اسی طرح بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں عمریٰ اور رقبیٰ دونوں کا ذکر کیا ہے لیکن احادیث میں صرف عمریٰ کا ذکر ہے، معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک دونوں ایک ہیں یا ان کا حکم ایک جیسا ہے۔ (2) جمہور علماء کے نزدیک عمریٰ لینے والے کی ملک ہو جاتا ہے، دینے والے کی طرف واپس نہیں ہوتا، خواہ وہ شرط کرے۔ اگر کوئی مشروط عطیہ ہے تو شرط پوری ہونے پر اس کے مطابق عمل ہو گا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمریٰ اور رقبیٰ سے منع فرمایا ہے اور آپ نے انصار سے فرمایا تھا: ’’تم لوگ اپنی زمینیں اس طرح برباد نہ کرو جو شخص عمریٰ کرے گا وہ اسی کا ہو جائے گا جسے ہبہ کیا گیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الھبات، حدیث:4196(1625)) ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اپنا مال واپس لینا چاہتے ہو تو عمریٰ نہ کرو کیونکہ جب تم نے عمریٰ کر دیا تو وہ واپس نہیں ہو گا بلکہ تم مشروط طور پر عطیہ کرو، اس لیے جواز اور نہی کی احادیث میں تعارض نہیں ہے۔ (فتح الباري:293/5) ہمارے ہاں عمریٰ کا رواج نہیں بلکہ پسندیدہ طریقہ ہبہ کا ہے۔ اگر کوئی اپنی چیز شرعی طور پر دوسرے کو دینا چاہتا ہے تو ہبہ کے ذریعے سے وہ دی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
میں نے اس کو گھر عمر بھر کے لیے دے دیا، یعنی اس کی ملکیت میں دے دیا تو یہ عمری ہے۔ قرآن کریم میں ہے۔ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا اس کے معنی ہیں کہ اس نے تم کو زمین میں آباد کیا۔
فائدہ:عمر بھر کسی کو رہنے کے لیے مکان دینا عمریٰ کہلاتا ہے۔ اور رقبی کہتے ہیں۔ کسی کی موت سے مشروط کر کے کوئی چیز دینا، مثلاً کسی کو اس شرط پر مکان دینا کہ اگر دینے والا پہلے مر گیا تو مکان لینے والے کا اور اگر لینے والا پہلے مر گیا تو وہ دینے والے کا ہو جائے گا۔ اس میں ہر ایک دوسرے کی موت کا منتظر رہتا تھا، اس لیے اس کا نام رقبی ہوا۔ یہ دونوں عقد زمانہ جاہلیت میں مروج تھے۔ اسلام نے ان کی اصلاح کر کے انھیں باقی رکھا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے نضر بن انس نے بیان کیا، ان سے بشیر بن نہیک نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا عمریٰ جائز ہے اور عطاء نے کہا کہ مجھ سے جابر ؓ نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
کسی کو کوئی چیز صرف اس کی عمر تک بخش دینا اسی کو عمریٰ کہاگیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Umra is permissible." Ata said, "Jabir narrated the same to me from the Prophet."