باب : اگر ظلم کی بات پر لوگ گواہ بننا چاہیں تو گواہ نہ بنے
)
Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: Do not be a witness for injustice, if asked for that)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2652.
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’سب لوگوں میں بہتر میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر جو ان کے قریب ہیں، پھر جو ان کے قریب ہیں۔ ان کے بعد کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قسم سے پہلے گواہی دیں گے اور گواہی سے پہلےقسم اٹھائیں گے۔‘‘ حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں ہمارے بزرگ ہمیں لڑکپن میں گواہی اور عہد و پیمان پر مارا کرتے تھے۔
تشریح:
(1) حدیث میں بہترین زمانوں سے مراد صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کا زمانہ ہے۔ اس کے بعد مسلمان آفتاب نبوت سے جتنے دور ہوتے گئے اتنا اندھیرا چھاتا گیا۔ آخر کار ایسے تیز طرار لوگ پیدا ہوں گے کہ گواہی دینا اور قسم اٹھانا ان کا پیشہ ہو گا۔ وہ کبھی گواہی سے پہلے قسمیں اٹھائیں گے اور کبھی قسم سے پہلے گواہی دیں گے۔ اس کا سبب یہ ہو گا کہ وہ لوگ دینی احکام کی پرواہ نہیں کریں گے۔ (2) حضرت ابراہیم نخعی ؒ کے زمانے میں گواہی کے متعلق بزرگوں کا اہتمام اس لیے تھا کہ گواہی سوچ سمجھ کر دی جائے اور اس سلسلے میں کسی پر زیادتی نہ کی جائے۔ بہرحال جھوٹی گواہی دینا اور جھوٹی قسم اٹھانا بہت مذموم حرکت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2560
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2652
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2652
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2652
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’سب لوگوں میں بہتر میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر جو ان کے قریب ہیں، پھر جو ان کے قریب ہیں۔ ان کے بعد کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قسم سے پہلے گواہی دیں گے اور گواہی سے پہلےقسم اٹھائیں گے۔‘‘ حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں ہمارے بزرگ ہمیں لڑکپن میں گواہی اور عہد و پیمان پر مارا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث میں بہترین زمانوں سے مراد صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کا زمانہ ہے۔ اس کے بعد مسلمان آفتاب نبوت سے جتنے دور ہوتے گئے اتنا اندھیرا چھاتا گیا۔ آخر کار ایسے تیز طرار لوگ پیدا ہوں گے کہ گواہی دینا اور قسم اٹھانا ان کا پیشہ ہو گا۔ وہ کبھی گواہی سے پہلے قسمیں اٹھائیں گے اور کبھی قسم سے پہلے گواہی دیں گے۔ اس کا سبب یہ ہو گا کہ وہ لوگ دینی احکام کی پرواہ نہیں کریں گے۔ (2) حضرت ابراہیم نخعی ؒ کے زمانے میں گواہی کے متعلق بزرگوں کا اہتمام اس لیے تھا کہ گواہی سوچ سمجھ کر دی جائے اور اس سلسلے میں کسی پر زیادتی نہ کی جائے۔ بہرحال جھوٹی گواہی دینا اور جھوٹی قسم اٹھانا بہت مذموم حرکت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان نے خبردی منصور سے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہیں عبیدہ نے اور ان سے عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر وہ لوگ جو اس کے بعد ہوں گے، پھر وہ لوگ جو اس کے بعد ہوں گے اور اس کے بعد ایسے لوگوں کا زمانہ آئے گا جو قسم سے پہلے گواہی دیں گے اور گواہی سے پہلے قسم کھائیں گے۔ ابراہیم نخعی ؓ نے بیان کیا کہ ہمارے بڑے بزرگ شہادت اور عہد کا لفظ زبان سے نکالنے پر ہمیں مارتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ کہ أشھد باللہ یا علی عھد اللہ ایسی باتوں کے منہ سے نکالنے پر ہمارے بزرگ ہم کو مارا کرتے تھے تا کہ قسم کھانے کی عادت نہ پڑ جائے۔ موقع بے موقع قسم کھانے کی عادت بہتر نہیں ہے قسم میں احتیاط لازمی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The people of my generation are the best, then those who follow them, and then whose who follow the latter. After that there will come some people whose witness will go ahead of their oaths, and their oaths will go ahead of their witness." Ibrahim (a sub-narrator) said, "We used to be beaten for taking oaths by saying, 'I bear witness by the Name of Allah or by the Covenant of Allah."