مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” وہ لوگ آپ کے سامنے اللہ کی قسم کھاتے ہیں ، تم کو راضی کرنے کے لیے “ اور سورۃ نساء میں ” پھر تیرے پاس اللہ کی قسم کھاتے آتے ہیں کہ ہماری نیت تو بھلائی اور ملاپ کی تھی “ قسم میں یوں کہا جائے باللہ ، واللہ ( اللہ کی قسم ) اور نبی کریم ﷺنے فرمایا ، اور وہ شخص جو اللہ کی قسم عصر کے بعد کھاتا ہے اور اللہ کے سوا کسی کی قسم نہ کھائیں ۔ بعض نسخوں میں اور دو آیتیں بھی مذکور ہیں ویحلفون با انہم لمنکم ( التوبہ: 56 ) اور فےقسمن با لشہادتنآ احق من شہادتہما ( المائدۃ: 107 ) ۔ اور آیتوں کے لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ قسم میں تغلےظ یعنی سختی ضروری نہیں صرف اللہ کی قسم کافی ہے۔ عرب میں باللہ، تاللہ، واللہ یہ تینوں کلمے قسم میں کہے جاتے ہیں۔ مضمون باب میں آخری جملہ ولا یحلف بغیراللہ یہ حضرت امام بخاری کا کلام ہے۔ غیراللہ کی قسم کھانا جائز نہیں۔
2678.
حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ سےروایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آتے ہی اس نے اسلام کے متعلق سوال کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دن اور رات میں نماز پنجگانہ ادا کرنا۔‘‘ اس نے عرض کیا: آیا اس کے علاوہ اور بھی کوئی نمازمجھ پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، اگر نفل پڑھو تو الگ بات ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’رمضان کے روزے رکھنا ہے۔‘‘ اس نے عرض کیا: آیا ان کے علاوہ بھی مجھ پر روزے فرض ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔ الا یہ کہ تم نفلی روزے رکھو۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کا ذکر کیا تو اس نے کہا: کیا مجھ پر زکاۃ کے علاوہ اور بھی فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، اگر نفلی صدقہ کروتو اور بات ہے۔‘‘ پھر وہ شخص یہ کہتا ہوا واپس گیا: اللہ کی قسم! میں اس سے زیادہ یا کم نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر اس نے سچ کہا تو کامیاب ہوجائے گا۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2583
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2678
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2678
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2678
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ قسم اٹھانے میں سخت الفاظ کا استعمال ضروری نہیں بلکہ صرف اللہ کی قسم ہی کافی ہے۔ عرب میں باللہ، تاللہ اور واللہ کے الفاظ قسم کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ غیراللہ کے نام کی قسم اٹھانا بھی بہت بڑا جرم ہے۔
سورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” وہ لوگ آپ کے سامنے اللہ کی قسم کھاتے ہیں ، تم کو راضی کرنے کے لیے “ اور سورۃ نساء میں ” پھر تیرے پاس اللہ کی قسم کھاتے آتے ہیں کہ ہماری نیت تو بھلائی اور ملاپ کی تھی “ قسم میں یوں کہا جائے باللہ ، واللہ ( اللہ کی قسم ) اور نبی کریم ﷺنے فرمایا ، اور وہ شخص جو اللہ کی قسم عصر کے بعد کھاتا ہے اور اللہ کے سوا کسی کی قسم نہ کھائیں ۔ بعض نسخوں میں اور دو آیتیں بھی مذکور ہیں ویحلفون با انہم لمنکم ( التوبہ: 56 ) اور فےقسمن با لشہادتنآ احق من شہادتہما ( المائدۃ: 107 ) ۔ اور آیتوں کے لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ قسم میں تغلےظ یعنی سختی ضروری نہیں صرف اللہ کی قسم کافی ہے۔ عرب میں باللہ، تاللہ، واللہ یہ تینوں کلمے قسم میں کہے جاتے ہیں۔ مضمون باب میں آخری جملہ ولا یحلف بغیراللہ یہ حضرت امام بخاری کا کلام ہے۔ غیراللہ کی قسم کھانا جائز نہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ سےروایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آتے ہی اس نے اسلام کے متعلق سوال کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دن اور رات میں نماز پنجگانہ ادا کرنا۔‘‘ اس نے عرض کیا: آیا اس کے علاوہ اور بھی کوئی نمازمجھ پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، اگر نفل پڑھو تو الگ بات ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’رمضان کے روزے رکھنا ہے۔‘‘ اس نے عرض کیا: آیا ان کے علاوہ بھی مجھ پر روزے فرض ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔ الا یہ کہ تم نفلی روزے رکھو۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کا ذکر کیا تو اس نے کہا: کیا مجھ پر زکاۃ کے علاوہ اور بھی فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، اگر نفلی صدقہ کروتو اور بات ہے۔‘‘ پھر وہ شخص یہ کہتا ہوا واپس گیا: اللہ کی قسم! میں اس سے زیادہ یا کم نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر اس نے سچ کہا تو کامیاب ہوجائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:"وہ اللہ کے نام کی قسمیں کھاتے ہیں۔ "نیز فرمایا: "پھر یہ لوگ تمہارے پاس آکر قسمیں کھاتے ہیں کہ واللہ! ہم نے صرف خیر خواہی اور موافقت کا ارادہ کیا تھا۔ "(قسم کے لیے) اس طرح کہا جائے: باللہ، تاللہ، واللہ۔ نیز فرمان نبویﷺ ہے: "وہ شخص جو عصر کے بعد جھوٹی قسم اٹھائے۔ "اور غیر اللہ کی قسم نہ کھائی جائے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ان کے چچا ابوسہیل نے ، ان سے ان کے والد نے اورانہوں نے طلحہ بن عبیداللہ ؓ سے سنا ، آپ نے بیان کیا کہ ایک صاحب ( ضمام بن ثعلبہ ) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے اور اسلام کے متعلق پوچھنے لگے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ، دن اور رات میں پانچ نمازیں ادا کرنا ۔ اس نے پوچھا کیا اسکے علاوہ بھی مجھ پر کچھ نماز اور ضروری ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ، یہ دوسری بات ہے کہ تم نفل پڑھو ۔ پھر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ، اور رمضان کے روزے ہیں ۔ اس نے پوچھا کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کچھ ( روزے ) واجب ہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں ، سوا اس کے جو تم اپنے طور پر نفل رکھو ۔ طلحہ ؓ نے بیان کیا کہ ان کے سامنے رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا تو انہوں نے پوچھا ، کیا ( جو فرض زکوٰۃ آپ نے بتائی ہے ) اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی خیرات واجب ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ، سوا اس کے جو تم خود اپنی طرف سے نفل دو ۔ اس کے بعد وہ صاحب یہ کہتے ہوئے جانے لگے کہ اللہ گواہ ہے نہ میں ان میں کوئی زیادتی کروں گا اور نہ کوئی کمی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو کامیاب ہوا ۔
حدیث حاشیہ:
یعنی جنت میں جائے گا۔ باب کا مطلب اس سے نکلا کہ اس نے قسم میں لفظ واللہ استعمال کیا۔ قسم کھانے میں یہی کافی ہے۔ واللہ، باللہ، تاللہ یہ سب قسمیہ الفاظ ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Talha bin 'Ubaidullah (RA): A man came to Allah's Apostle (ﷺ) asking him about Islam, Allah's Apostle (ﷺ) said, "You have to offer five compulsory prayers in a day and a night (24 hours)." The man asked, "Is there any more compulsory prayers for me?" Allah's Apostle (ﷺ) said, "No, unless you like to offer Nawafil (i.e. optional prayers)." Allah's Apostle (ﷺ) then added, "You have to observe fasts during the month of Ramadan." The man said, "Am I to fast any other days?' Allah's Apostle (ﷺ) said, "No, unless you wish to observe the optional fast voluntarily." Then Allah's Apostle (ﷺ) told him about the compulsory Zakat. The man asked, "Do I have to give anything besides?" Allah's Apostle (ﷺ) said, "No, unless you wish to give in charity voluntarily." So, the man departed saying, "By Allah I will neither do more nor less than that." Allah's Apostle (ﷺ) said, "If he has said the truth he will be successful."