باب : کیا عزیزوں میں عورتیں اور بچے بھی داخل ہوں گے
)
Sahi-Bukhari:
Wills and Testaments (Wasaayaa)
(Chapter: Are children and women included under the term of relatives (concerning wills))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2753.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ’’اپنے قریبی رشتہ داروں کوڈرائیں۔‘‘ تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’اے جمیعت قریش!۔ ۔ ۔ یا اس جیسا کوئی اور لفظ استعمال فرمایا۔ ۔ ۔ تم خود کو اپنے اعمال کے عوض خریدلو، میں اللہ کے حضور تمہارے کچھ کام نہیں آسکوں گا۔ اے بنو عبد مناف!میں اللہ کی طرف سے تمہارا دفاع نہیں کرسکوں گا اے عباس بن عبدالمطلب!میں اللہ کے عذاب سے تمھیں نہیں بچا سکوں گا۔ اے صفیہ!جو رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی ہیں، میں اللہ کی طرف سے کسی چیز کو تم سے دور نہیں کرسکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد ﷺ ! جو کچھ میرے اختیار میں مال وغیرہ ہے تم اس کا سوال مجھ سے کرسکتی ہو، البتہ اللہ کی طرف سے تمہارا دفاع نہیں کرسکوں گا۔‘‘ اصبغ نے زہری سے روایت کرنے میں ابن وہب کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے پہلے قریش کے تمام لوگوں کو مخاطب کیا جو خاص طور پر آپ کی قوم کے لوگ تھے، پھر عبد مناف اپنے چوتھے دادا کی اولاد کو آواز دی، اس کے بعد خاص اپنے چچا اور پھوپھی، یعنی دادا کی اولاد کو پکارا، پھر اپنی خاص اولاد کو دعوت فکر دی۔ (2) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا کہ قرابت داروں میں عورتیں اور بچے شامل ہوتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی پھوپھی حضرت صفیہ ؓ اور اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کو شامل فرمایا۔ لیکن وصیت میں صرف وہ رشتے دار شامل ہوں گے جو اس کے ترکے میں شرعی وارث نہ ہوں۔ (3) واضح رہے کہ اگر کسی نے قرابت داروں کے لیے وصیت کی ہو تو امام ابو حنیفہ ؓ کے نزدیک ہر وہ قرابت دار مراد ہو گا جو رحم کے ناتے سے ہو، بشرطیکہ وہ محرم ہو، خواہ باپ کی طرف سے ہو یا ماں کی طرف سے لیکن ابتدا باپ کی طرف سے ہو گی، مثلا: اگر چچا اور ماموں ہے تو وصیت چچا کے لیے ہو گی۔ اگر وہ نہ ہو تو ماموں حق دار ہو گا، البتہ ان کی اولاد کو وصیت شامل نہیں ہو گی کیونکہ ان کی اولاد سے رحم کا رشتہ تو ہے لیکن وہ محرم نہیں ہیں۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں: ہر ذی رحم پر قرابت کا اطلاق ہو گا، خواہ وہ محرم ہو یا غیر محرم۔ ان کے نزدیک چچا، پھوپھی اور ماموں کی اولاد بھی قرابت میں شامل ہو گی۔ امام طحاوی ؒ نے قرابت کے متعلق پانچ اقوال اور ان کے دلائل ذکر کرنے کے بعد امام ابو حنیفہ ؒ کے موقف کو باطل قرار دے کر امام شافعی ؒ کے موقف کو اختیار کیا ہے۔ (شرح معاني الآثار:425/2) امام طحاوی ؒ کے اس جراءت مندانہ کردار کی علامہ عینی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک مجتہد امام جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے احکام کو استنباط کرتا ہے اس کا یہی انداز ہونا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ امام طحاوی ؒنے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ اور صاحبین (امام ابو یوسف اور امام محمد) کے قول کو ترک کر دیا ہے۔ (عمدة القاري:33/10) آخر میں امام بخاری ؒ کی ذکر کردہ متابعت کو امام ذہلی نے زہریات میں متصل سند سے بیان کیا ہے، نیز امام مسلم ؒ نے بھی ابن وہب کے حوالے سے روایت کیا ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:504(206)، و فتح الباري:468/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2653
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2753
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2753
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2753
تمہید کتاب
وصايا، وصيت کی جمع ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی جانشین بنانے اور تاکید کرنے کے ہیں۔ اس کا اطلاق وصیت کرنے والے کے فعل پر بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے مصدری معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور اس مال پر بھی بولا جاتا ہے جس کے متعلق وصیت کرنے والا وصیت کر جائے۔ اس صورت میں اسم مصدر ہو گا۔ شرعی طور پر وصیت اس خاص عہد کا نام ہے جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو، اور اس کا مدار حصول ثواب اور احسان پر ہوتا ہے۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لیے وصیت کی جائے اس کو موصی لہ اور جس کو کسی کے لیے وصیت کی جائے اس کو وصی کہا جاتا ہے۔ وصی کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے، اس لیے اسے موصی کے مال اور جائیداد میں اسی طرح تصرف کرنا چاہیے جس طرح وہ کہہ گیا ہو یا جس طرح وہ اپنے مال و جائیداد میں تصرف کرتا تھا۔ شریعت میں وصیت کو تین لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے:(1) کسی کو اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑنے کی تاکید کرنا۔ اسے اخلاقی وصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(2) کسی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مرنے کے بعد کسی کام کی ذمہ داری سونپنا۔ اسے معاشرتی وصیت کہا جاتا ہے۔(3) کسی غیر وارث کو اپنی جائیداد سے 13 یا اس سے کم کی ہدایت و تاکید کر جانا۔ اسے مالی وصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت اس آخری قسم کی وصیت کا ذکر ہو گا۔اس مالی وصیت میں ایک کی طرف سے دوسرے کو انتقال ملکیت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک انتقال ملکیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری ملکیت اگر معاوضے سے ہے تو اسے خریدوفروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کے بغیر ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں معاوضے کے بغیر اپنی کوئی چیز دوسرے کی ملک میں دے دے۔ اسے ہبہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اگر مرنے کے بعد عمل میں آئے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ غیر اختیاری انتقال ملکیت وراثت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دین اسلام میں وصیت کا ایک ضابطہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ ابتدائے اسلام میں وصیت فرض تھی کیونکہ دور جاہلیت میں وراثت ان مردوں کو ملتی تھی جو جنگ میں جانے کے قابل ہوتے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، یتیموں اور بیواؤں کو ترکے سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ مرنے والا اپنے والدین، یتیموں، بیواؤں اور اپنے غریب رشتے داروں کو کچھ دینے کی وصیت ضرور کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) "تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔ یہ وصیت کرنا متقی لوگوں پر فرض ہے۔" (البقرۃ180:2) اس کے بعد وراثت کی تقسیم کا مفصل ضابطہ نازل ہوا تو وصیت کی فرضیت کو استحباب میں بدل دیا گیا۔٭ مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچ رہے تو وصیت پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر وصیت نافذ العمل نہیں ہو گی۔٭ انسان کو اپنے مال یا جائیداد سے 13 حصے کی وصیت کرنے کا حق ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو تہائی کے اندر ہی اس کی وصیت پوری کی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی حق تلفی ہے، اگر ورثاء اجازت دیں تو الگ بات ہے۔٭ جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ شرعی طور پر میت کے ترکے کا وارث نہ ہو کیونکہ اس نے ترکے سے حصہ لینا ہے، اسے دوہرا حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔٭ وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ اگر کسی حرام یا مکروہ کام کی وصیت ہے تو اسے پورا نہیں کیا جائے گا، مثلاً: مرنے والے نے وصیت کی کہ مجھے ریشمی کفن دیا جائے یا میری قبر کو پختہ بنایا جائے یا دھوم دھام سے چہلم کیا جائے تو اس صورت میں وصیت پر عمل نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی شریعت کی رو سے جائز نہیں۔٭ ایسی وصیت بھی کالعدم ہو گی جس کے ذریعے سے کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہو یا اسے نقصان ہوتا ہو۔ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادائیگی کا حکم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی بشرطیکہ وہ قرض اور وصیت کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔" (النساء12:4)٭ اگر کوئی شخص غلط یا ناجائز وصیت کر جائے تو پسماندگان کا فرض ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ) "پس جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری یا گناہ سے ڈرے تو وہ وارثان کے درمیان اصلاح کرا دے، اس طرح اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" (البقرۃ182:2)٭ وصیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ پورے ہوش و حواس سے وصیت کرے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ یا پاگل وصیت کرے گا تو وہ بے کار ہو گی۔ اسی طرح جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اسے اپنی وصیت سے رجوع کر لینے کا حق باقی ہے۔ اگر کسی نے زبان سے رجوع نہیں کیا مگر اس نے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ثابت ہو کہ اس نے رجوع کر لیا ہے تو بھی وصیت کالعدم ہو جائے گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے وصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ چونکہ وقف بھی وصیت کی ایک قسم ہے، اس لیے انہوں نے وقف کے آداب و شرائط کی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساٹھ مرفوع احادیث اور بائیس آثار پیش کیے ہیں۔ مرفوع احادیث میں سے اٹھارہ معلق ہیں اور اڑتالیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں بیالیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے آپ کی وسعت علم اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی گئی احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت سے نوازے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (آمين)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ’’اپنے قریبی رشتہ داروں کوڈرائیں۔‘‘ تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’اے جمیعت قریش!۔ ۔ ۔ یا اس جیسا کوئی اور لفظ استعمال فرمایا۔ ۔ ۔ تم خود کو اپنے اعمال کے عوض خریدلو، میں اللہ کے حضور تمہارے کچھ کام نہیں آسکوں گا۔ اے بنو عبد مناف!میں اللہ کی طرف سے تمہارا دفاع نہیں کرسکوں گا اے عباس بن عبدالمطلب!میں اللہ کے عذاب سے تمھیں نہیں بچا سکوں گا۔ اے صفیہ!جو رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی ہیں، میں اللہ کی طرف سے کسی چیز کو تم سے دور نہیں کرسکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد ﷺ ! جو کچھ میرے اختیار میں مال وغیرہ ہے تم اس کا سوال مجھ سے کرسکتی ہو، البتہ اللہ کی طرف سے تمہارا دفاع نہیں کرسکوں گا۔‘‘ اصبغ نے زہری سے روایت کرنے میں ابن وہب کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے پہلے قریش کے تمام لوگوں کو مخاطب کیا جو خاص طور پر آپ کی قوم کے لوگ تھے، پھر عبد مناف اپنے چوتھے دادا کی اولاد کو آواز دی، اس کے بعد خاص اپنے چچا اور پھوپھی، یعنی دادا کی اولاد کو پکارا، پھر اپنی خاص اولاد کو دعوت فکر دی۔ (2) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا کہ قرابت داروں میں عورتیں اور بچے شامل ہوتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی پھوپھی حضرت صفیہ ؓ اور اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کو شامل فرمایا۔ لیکن وصیت میں صرف وہ رشتے دار شامل ہوں گے جو اس کے ترکے میں شرعی وارث نہ ہوں۔ (3) واضح رہے کہ اگر کسی نے قرابت داروں کے لیے وصیت کی ہو تو امام ابو حنیفہ ؓ کے نزدیک ہر وہ قرابت دار مراد ہو گا جو رحم کے ناتے سے ہو، بشرطیکہ وہ محرم ہو، خواہ باپ کی طرف سے ہو یا ماں کی طرف سے لیکن ابتدا باپ کی طرف سے ہو گی، مثلا: اگر چچا اور ماموں ہے تو وصیت چچا کے لیے ہو گی۔ اگر وہ نہ ہو تو ماموں حق دار ہو گا، البتہ ان کی اولاد کو وصیت شامل نہیں ہو گی کیونکہ ان کی اولاد سے رحم کا رشتہ تو ہے لیکن وہ محرم نہیں ہیں۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں: ہر ذی رحم پر قرابت کا اطلاق ہو گا، خواہ وہ محرم ہو یا غیر محرم۔ ان کے نزدیک چچا، پھوپھی اور ماموں کی اولاد بھی قرابت میں شامل ہو گی۔ امام طحاوی ؒ نے قرابت کے متعلق پانچ اقوال اور ان کے دلائل ذکر کرنے کے بعد امام ابو حنیفہ ؒ کے موقف کو باطل قرار دے کر امام شافعی ؒ کے موقف کو اختیار کیا ہے۔ (شرح معاني الآثار:425/2) امام طحاوی ؒ کے اس جراءت مندانہ کردار کی علامہ عینی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک مجتہد امام جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے احکام کو استنباط کرتا ہے اس کا یہی انداز ہونا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ امام طحاوی ؒنے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ اور صاحبین (امام ابو یوسف اور امام محمد) کے قول کو ترک کر دیا ہے۔ (عمدة القاري:33/10) آخر میں امام بخاری ؒ کی ذکر کردہ متابعت کو امام ذہلی نے زہریات میں متصل سند سے بیان کیا ہے، نیز امام مسلم ؒ نے بھی ابن وہب کے حوالے سے روایت کیا ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:504(206)، و فتح الباري:468/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی‘ انہوں نے زہری سے‘ کہا مجھ کو سعید بن مسیب اورابو سلمہ بن عبد الرحمن نے خبر دی کہ ابو ہریرہ ؓ نے کہا جب (سورۃ شعراء کی) یہ آیت اللہ تعالیٰ نے اتاری اور اپنے نزدیک ناطے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قریش کے لوگو! یا ایسا ہی کوئی اور کلمہ تم لوگ اپنی اپنی جانوں کو (نیک اعمال کے بدل) مول لے لو (بچالو) میں اللہ کے سامنے تمھارے کچھ کام نہیں آنےکا (یعنی اس کی مرضی کے خلاف میں کچھ نہیں کرسکنے کا) عبد مناف کے بیٹو! میں اللہ کے سامنے تمھارے کچھ کا م نہیں آنے کا۔ عباس عبدالمطلب کے بیٹے! میں اللہ کے سامنے تمھارے کچھ کام نہیں آنےکا۔ صفیہ میری پھوپھی ! اللہ کے سامنے تمھارے کچھ کام نہیں آنے کا۔ فاطمہ ؓ بیٹی تو چاہے میرا مال مانگ لے لیکن اللہ کے سامنے تیرے کچھ کام نہیں آئے گا۔ ابو الیمان کے ساتھ حدیث کو اصبغ نے بھی عبداللہ بن وہب سے ‘ انہوں نے یونس سے ‘ انہوں نے ابن شہاب سے روایت کیا۔
حدیث حاشیہ:
پچھلی حدیث میں پہلے آپ نے قریش کے کل لوگوں کو مخاطب کیا جو خاص آپ کی قوم کے لوگ تھے۔ پھر عبد مناف اپنے چوتھے داداکی اولاد کو۔ پھر خاص اپنے چچا اور پھوپھی یعنی دادا کی اولاد کو پھر خاص اپنی اولاد کو۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ قرابت والوں میں عورتیں داخل ہیں۔ کیونکہ حضرت صفیہ ؓ اپنی پھوپھی کو بھی آپ نے مخاطب کیا اور بچے بھی اس لئے کہ حضرت فاطمہ ؓ جب یہ آیت اتری کم سن بچی تھیں‘ آپ نے ان کو بھی مخاطب فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): When Allah revealed the Verse: "Warn your nearest kinsmen," Allah's Apostle (ﷺ) got up and said, "O people of Quraish (or said similar words)! Buy (i.e. save) yourselves (from the Hellfire) as I cannot save you from Allah's Punishment; O Bani Abd Manaf! I cannot save you from Allah's Punishment, O Safiya, the Aunt of Allah's Apostle (ﷺ) ! I cannot save you from Allah's Punishment; O Fatima bint Muhammad (ﷺ) ! Ask me anything from my wealth, but I cannot save you from Allah's Punishment."