باب:حبشہ کے لوگوں کا بیان اور ان سے نبی کریمﷺکا یہ فرمان کہ اے بنی ارفدہ
)
Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The story of the Ethiopians)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3530.
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی کا بیان ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا، آپ مجھے پردے میں رکھے ہوئے تھے اور میں حبشی جوانوں کو دیکھ رہی تھی جو مسجد میں نیزوں کا کھیل کررہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں ڈانٹا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’انھیں کچھ نہ کہو۔ اے بنو ارفدہ!تم بے فکر ہو کر اپنا کھیل جاری رکھو۔‘‘
تشریح:
1۔ ارفدہ،اہل حبشہ کے جد اعلیٰ کا نام ہے۔مسجد میں حبشیوں کا یہ کھیل جنگی تعلیم اور مشق کے طور پر تھا۔صوفیاء نے اس حدیث سے رقص وسماع کا جواز ثابت کیا ہے لیکن جمہور علماء نے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا کیونکہ حبشی لوگ تو جنگی تربیت حاصل کرنے کے لیے چھوٹے نیزوں سے مشق کررہے تھے۔کہاں جنگی مشق اور کہاں رقص وسرور کے ساتھ گانا بجانا! رقص لہو ہے اور مشق مطلوب ہے۔ 2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل حبشہ کو ان کے جد اعلیٰ کی طرف منسوب کیا۔معلوم ہواکہ نسب میں ایساکرنا جائز ہے۔امام بخاری ؒ کا یہی مقصود ہے۔واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3397
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3530
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3530
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3530
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی کا بیان ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا، آپ مجھے پردے میں رکھے ہوئے تھے اور میں حبشی جوانوں کو دیکھ رہی تھی جو مسجد میں نیزوں کا کھیل کررہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں ڈانٹا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’انھیں کچھ نہ کہو۔ اے بنو ارفدہ!تم بے فکر ہو کر اپنا کھیل جاری رکھو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ ارفدہ،اہل حبشہ کے جد اعلیٰ کا نام ہے۔مسجد میں حبشیوں کا یہ کھیل جنگی تعلیم اور مشق کے طور پر تھا۔صوفیاء نے اس حدیث سے رقص وسماع کا جواز ثابت کیا ہے لیکن جمہور علماء نے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا کیونکہ حبشی لوگ تو جنگی تربیت حاصل کرنے کے لیے چھوٹے نیزوں سے مشق کررہے تھے۔کہاں جنگی مشق اور کہاں رقص وسرور کے ساتھ گانا بجانا! رقص لہو ہے اور مشق مطلوب ہے۔ 2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل حبشہ کو ان کے جد اعلیٰ کی طرف منسوب کیا۔معلوم ہواکہ نسب میں ایساکرنا جائز ہے۔امام بخاری ؒ کا یہی مقصود ہے۔واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اورحضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ مجھ کو پردہ میں رکھے ہوئے ہیں اور میں حبشیوں کو دیکھ رہی تھی جو نیزوں کا کھیل مسجد میں کررہے تھے ۔ حضرت ابوبکر ؓ نے انہیں ڈانٹا ۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے فرمایا : انہیں چھوڑدو ، بنی ارفدہ تم بے فکر ہوکر کھیلو ۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اس باب میں موصولاً مذکور ہے، ارفدہ حبشیوں کے جداعلی کانام تھا کہتے ہیں حبشی حبش بن کوش بن حام بن نوح کی اولاد میں سے ہیں۔ ایک زمانہ میں یہ سارے عرب پر غالب ہوگئے تھے اور ان کے بادشاہ ابرہہ نے کعبہ کو گرادینا چاہاتھا۔ یہاں یہ کھیل حبشیوں کا جنگی تعلیم اور مشق کے طورپر تھا۔ اس سے رقص کی اباحت پردلیل صحیح نہیں جو لہو ولعب کے طورپر ہو ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بنو ا ارفدہ کہہ کر پکارا یہی مقصود باب ہے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Aisha (RA) added, "I was being screened by the Prophet (ﷺ) while I was watching the Ethiopians playing in the Mosque. 'Umar rebuked them, but the Prophet (ﷺ) said, "Leave them, O Bani Arfida! Play. (for) you are safe."