باب: فرمان مبارک کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکرؓکو بناتا
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: "If I were to take Khalil ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
3661.
حضرت ابودرداء ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں حضرت ابوبکر ؓ اپنی چادر کاایک کنارہ اٹھائے ہوئے آئے یہاں تک کہ آپ کا گھٹناننگا ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے دوست کسی سے لڑکر آئے ہیں۔‘‘ پھر حضرت ابو بکر نے سلام کیااور کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! میرے اور ابن خطاب ؓ کے درمیان کسی بات پر کچھ جھگڑا ہوگیا تھا۔ میں نے جلدی سے انھیں سخت سست کہہ دیا۔ پھر مجھے ندامت ہوئی۔ میں نے ان سے معذرت کی اور معافی کا سوال کیا لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ اب میں آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ابوبکر !اللہ تجھے معاف فرمائے۔‘‘ آپ نے یہ تین مرتبہ کہا۔ پھر ایسا ہوا کہ حضرت عمر ؓ شرمندہ ہوئے اور حضرت ابوبکر ؓ کے گھر پر آئے اور دریافت کیا کہ ابو بکر یہاں موجود ہیں؟گھر والوں نے جواب دیا: نہیں۔ پھر حضرت عمر نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور انھیں سلام کیا۔ انھیں دیکھ کر نبی کریم ﷺ کا چہرہ انور متغیر ہونے لگا حتیٰ کہ حضرت ابوبکر ؓ ڈرے اور دو زانو بیٹھ کر عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ ! اللہ کی قسم! زیادتی میں نے ہی کی تھی۔ انھوں نے دو مرتبہ یہ جملہ کہا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف رسول بناکر بھیجا تو تم لوگوں نے مجھے جھٹلایا لیکن ابوبکر نے مجھے سچا کہا اور انھوں نے اپنے مال اور اپنی جان سے میری خدمت کی۔ کیا تم میری خاطر میرے دوست کو ستانا چھوڑ دو گے؟‘‘ اور آپ نے یہ دو مرتبہ فرمایا۔ اس ارشاد گرامی کے بعد حضرت ابوبکر کو پھر کسی نے نہیں ستایا۔
تشریح:
1۔فتح الباری میں طبرانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ بار باران سے منہ پھیرتے رہے آخر انھوں نے عرض کی:اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس زندگی کا کیا فائدہ جس میں آپ ناراض ہوں کیا وجہ ہے؟آپ نے فرمایا:’’ابو بکر تم سے بار بار معافی مانگتا رہا لیکن تم نے معاف نہیں کیا۔‘‘ حضرت عمر ؓ نے عرض کی:اللہ کے رسول اللہ ﷺ !انھوں نے جتنی مرتبہ مجھ سے معذرت کی ہے میں اتنی ہی مرتبہ ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعاکرتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے بعد کسی کو پیدا نہیں فرمایا جو ابوبکر ؓ سے مجھے زیادہ محبوب ہو۔حضرت ابو بکر ؓ نے کہا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ !میرے بھی ان کے متعلق یہی جذبات ہیں۔ (المعجم الکبیر للطبراني:285/12)2۔ حضرت ابو بکر ؓ کو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر فضیلت حاصل ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ فاضل کو چاہیے وہ اپنے سے افضل کو ناراض نہ کرے۔3۔کسی کے سامنے اس کی تعریف کرنا جائز ہے لیکن یہ اس وقت جب ممدوح کے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔ اگر اس تعریف سے اس کے اندرخود پسندی پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتو اس سے بچنا چاہیے4۔اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ انسان کو اس کی مرضی کے خلاف فعل پر غصہ آنا طبعی چیز ہے لیکن دین میں پختہ انسان اپنی ناراضی جلدی ختم کردیتا ہے اور غیر نبی معصوم نہیں ہوتا اگرچہ فضیلت میں انتہا کو پہنچ جائے۔ (فتح الباري:33/7، 34)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3524
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3661
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3661
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3661
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت پیچھے حدیث نمبر:3654 کے تحت گزری ہے۔
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابودرداء ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں حضرت ابوبکر ؓ اپنی چادر کاایک کنارہ اٹھائے ہوئے آئے یہاں تک کہ آپ کا گھٹناننگا ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے دوست کسی سے لڑکر آئے ہیں۔‘‘ پھر حضرت ابو بکر نے سلام کیااور کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! میرے اور ابن خطاب ؓ کے درمیان کسی بات پر کچھ جھگڑا ہوگیا تھا۔ میں نے جلدی سے انھیں سخت سست کہہ دیا۔ پھر مجھے ندامت ہوئی۔ میں نے ان سے معذرت کی اور معافی کا سوال کیا لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ اب میں آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ابوبکر !اللہ تجھے معاف فرمائے۔‘‘ آپ نے یہ تین مرتبہ کہا۔ پھر ایسا ہوا کہ حضرت عمر ؓ شرمندہ ہوئے اور حضرت ابوبکر ؓ کے گھر پر آئے اور دریافت کیا کہ ابو بکر یہاں موجود ہیں؟گھر والوں نے جواب دیا: نہیں۔ پھر حضرت عمر نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور انھیں سلام کیا۔ انھیں دیکھ کر نبی کریم ﷺ کا چہرہ انور متغیر ہونے لگا حتیٰ کہ حضرت ابوبکر ؓ ڈرے اور دو زانو بیٹھ کر عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ ! اللہ کی قسم! زیادتی میں نے ہی کی تھی۔ انھوں نے دو مرتبہ یہ جملہ کہا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف رسول بناکر بھیجا تو تم لوگوں نے مجھے جھٹلایا لیکن ابوبکر نے مجھے سچا کہا اور انھوں نے اپنے مال اور اپنی جان سے میری خدمت کی۔ کیا تم میری خاطر میرے دوست کو ستانا چھوڑ دو گے؟‘‘ اور آپ نے یہ دو مرتبہ فرمایا۔ اس ارشاد گرامی کے بعد حضرت ابوبکر کو پھر کسی نے نہیں ستایا۔
حدیث حاشیہ:
1۔فتح الباری میں طبرانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ بار باران سے منہ پھیرتے رہے آخر انھوں نے عرض کی:اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس زندگی کا کیا فائدہ جس میں آپ ناراض ہوں کیا وجہ ہے؟آپ نے فرمایا:’’ابو بکر تم سے بار بار معافی مانگتا رہا لیکن تم نے معاف نہیں کیا۔‘‘ حضرت عمر ؓ نے عرض کی:اللہ کے رسول اللہ ﷺ !انھوں نے جتنی مرتبہ مجھ سے معذرت کی ہے میں اتنی ہی مرتبہ ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعاکرتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے بعد کسی کو پیدا نہیں فرمایا جو ابوبکر ؓ سے مجھے زیادہ محبوب ہو۔حضرت ابو بکر ؓ نے کہا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ !میرے بھی ان کے متعلق یہی جذبات ہیں۔ (المعجم الکبیر للطبراني:285/12)2۔ حضرت ابو بکر ؓ کو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر فضیلت حاصل ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ فاضل کو چاہیے وہ اپنے سے افضل کو ناراض نہ کرے۔3۔کسی کے سامنے اس کی تعریف کرنا جائز ہے لیکن یہ اس وقت جب ممدوح کے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔ اگر اس تعریف سے اس کے اندرخود پسندی پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتو اس سے بچنا چاہیے4۔اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ انسان کو اس کی مرضی کے خلاف فعل پر غصہ آنا طبعی چیز ہے لیکن دین میں پختہ انسان اپنی ناراضی جلدی ختم کردیتا ہے اور غیر نبی معصوم نہیں ہوتا اگرچہ فضیلت میں انتہا کو پہنچ جائے۔ (فتح الباري:33/7، 34)
ترجمۃ الباب:
ان الفاظ کو حضرت ابو سعید خدریؓ نے ذکر کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے ہشام بن عمار نے بیان کیا ، کہاہم سے صدقہ بن خالد نے بیان کیا ، ان سے زید بن واقد نے بیان کیا ، ان سے بسر بن عبید اللہ نے ، ان سے عائذ اللہ ابوادریس نے اور ان سے حضرت ابودرداءؓ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ حضرت ابوبکر ؓ اپنے کپڑے کا کنارہ پکڑے ہوئے ، گھٹنا کھولے ہوئے آئے ۔ آنحضرت ﷺ نے یہ حالت دیکھ کرفرمایا : معلوم ہوتا ہے تمہارے دوست کسی سے لڑکر آئے ہیں ۔ پھر حضرت ابوبکر ؓ نے حاضر ہوکر سلام کیا اور عرض کیا یار سول اللہ ! میرے اور عمر بن خطاب کے درمیان کچھ تکرار ہوگئی تھی اور اس سلسلے میں میں نے جلدی میں ان کو سخت لفظ کہہ دیئے لیکن بعد میں مجھے سخت ندامت ہوئی تو میں نے ان سے معافی چاہی ، اب وہ مجھے معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اسی لیے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔ آپ نے فرمایا : اے ابوبکر ! تمہیں اللہ معاف کرے ۔ تین مرتبہ آپ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا : حضرت عمر ؓ کو بھی ندامت ہوئی اور حضرت ابوبکر ؓ کے گھر پہنچے اور پوچھا کیا ابوبکر گھر پر موجود ہیں ؟ معلوم ہوا کہ نہیں تو آپ بھی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ نے سلام کیا ۔ آنحضرت ﷺ کا چہرہ مبارک غصہ سے بدل گیا اور ابوبکر ؓ ڈرگئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض کرنے لگے ، یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم زیادتی میری ہی طرف سے تھی ۔ دومرتبہ یہ جملہ کہا ۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اللہ نے مجھے تمہاری طرف نبی بناکر بھیجا تھا ۔ اور تم لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تم جھوٹ بولتے ہو لیکن ابوبکر نے کہا تھا کہ آپ سچے ہیں اور اپنی جان ومال کے ذریعہ انہوں نے میری مدد کی تھی تو کیا تم لوگ میرے دوست کو ستانا چھوڑتے ہویا نہیں ؟ آپ نے دودفعہ یہی فرمایا : آپ کے یہ فرمانے کے بعد پھر ابوبکر ؓ کو کسی نے نہیں ستایا ۔
حدیث حاشیہ:
ابویعلیٰ کی روایت میں ہے کہ جب عمر ؓ رسول کریم ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے منہ پھیرلیا۔ دوسری طرف سے آئے تو ادھر سے بھی منہ پھیر لیا۔ سامنے بیٹھے تو ادھر سے بھی منہ پھیر لیا آخر انہوں نے سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا: ابوبکر نے تم سے معذرت کی اور تم نے قبول نہ کی۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ابوبکر صدیق ؓ کی فضیلت تمام صحابہ پر نکلی۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ ان کا خطاب صدیق آسمان سے اترا۔ اس حدیث سے شیعہ حضرات کو سبق لینا چاہیے ۔ جب آپ حضرت عمر ؓ پر حضرت ابوبکر ؓ کے لیے اتنے غصہ ہوئے حالانکہ پہلے زیادتی ابوبکر ہی کی تھی مگرجب انہوں نے معافی چاہی تو حضرت عمر ؓ کو فوراً معاف کرنا چاہیے تھا۔ پھر شیعہ حضرات کس منہ سے آنحضرت ﷺ کے یار غار کو برا بھلا کہتے ہیں۔ ان لوگوں کو خدا سے ڈرنا چاہیے ۔ دیکھا گیا ہے کہ حضرات شیخین پر تبرا کرنے والوں کا برا حشر ہوا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Ad-Darda (RA): While I was sitting with the Prophet, Abu Bakr (RA) came, lifting up one corner of h is garment uncovering h is knee. The Prophet (ﷺ) said, "Your companion has had a quarrel." Abu Bakr (RA) greeted (the Prophet) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! There was something (i.e. quarrel) between me and the Son of Al-Khattab. I talked to him harshly and then regretted that, and requested him to forgive me, but he refused. This is why I have come to you." The Prophet (ﷺ) said thrice, "O Abu Bakr! May Allah forgive you." In the meanwhile, 'Umar regretted (his refusal of Abu Bakr's excuse) and went to Abu Bakr's house and asked if Abu Bakr (RA) was there. They replied in the negative. So he came to the Prophet (ﷺ) and greeted him, but signs of displeasure appeared on the face of the Prophet (ﷺ) till Abu Bakr (RA) pitied ('Umar), so he knelt and said twice, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! By Allah! I was more unjust to him (than he to me)." The Prophet (ﷺ) said, "Allah sent me (as a Prophet) to you (people) but you said (to me), 'You are telling a lie,' while Abu Bakr (RA) said, 'He has said the truth,' and consoled me with himself and his money." He then said twice, "Won't you then give up harming my companion?" After that nobody harmed Abu Bakr.