باب: فرمان مبارک کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکرؓکو بناتا
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: "If I were to take Khalil ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
3677.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں کچھ لوگوں کے ساتھ کھڑا تھااور ہم اللہ تعالیٰ سے حضرت عمر ؓ کے لیے دعائے مغفرت کر رہے تھے جبکہ ان کا جنازہ چار پائی پر رکھا جا چکا تھا۔ اتنے میں ایک شخص نے میرے پیچھے سے آکر اپنی کہنی میرے کندھے پر رکھ دی اور کہنے لگا: اللہ تم پر رحم کرے!میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمھیں تمھارے ساتھیوں کے ہمراہ رکھے گا کیونکہ میں اکثر رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کرتا تھا: ’’فلاں جگہ پر میں تھا اور ابوبکر وعمر ؓ ساتھ تھے۔ میں نے اور ابو بکرو عمر ؓ نے یہ کام کیا۔ میں اور ابو بکر ؓ و عمر ؓ روانہ ہوئے۔‘‘مجھے اس لیے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھیں ان کے ساتھ رکھے گا۔ پھر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ (دعائیہ ) کلمات کہنے والے حضرت علی بن ابی طالب ؓ تھے۔
تشریح:
1۔اس معیت سے مراد دفن کی معیت ہے یا دخول جنت ہے جو موت کے بعد ظہور پذیر ہوگا اور صاحبین سے مراد رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکرصدیق ؓ ہیں۔2۔اس حدیث میں حضرت ابوبکر کی فضیلت ومنقبت کا بیان ہے کیونکہ آپ ہربات اور ہر کام میں حضرت عمر ؓ سے مقدم تھا جیسا کہ اس حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے۔3۔حضرت علی ؓ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ چاروں خلفاء یک دل اور یک جان تھے ،نیز وہ ایک دوسرے کے خیر خواہ اور دعاگوتھے۔جن لوگوں نے یہ خیال کیا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے مخالف اور بدخواہ تھے وہ مرد ودخودبدباطن اور خبیث ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3538
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3677
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3677
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3677
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت پیچھے حدیث نمبر:3654 کے تحت گزری ہے۔
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں کچھ لوگوں کے ساتھ کھڑا تھااور ہم اللہ تعالیٰ سے حضرت عمر ؓ کے لیے دعائے مغفرت کر رہے تھے جبکہ ان کا جنازہ چار پائی پر رکھا جا چکا تھا۔ اتنے میں ایک شخص نے میرے پیچھے سے آکر اپنی کہنی میرے کندھے پر رکھ دی اور کہنے لگا: اللہ تم پر رحم کرے!میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمھیں تمھارے ساتھیوں کے ہمراہ رکھے گا کیونکہ میں اکثر رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کرتا تھا: ’’فلاں جگہ پر میں تھا اور ابوبکر وعمر ؓ ساتھ تھے۔ میں نے اور ابو بکرو عمر ؓ نے یہ کام کیا۔ میں اور ابو بکر ؓ و عمر ؓ روانہ ہوئے۔‘‘مجھے اس لیے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھیں ان کے ساتھ رکھے گا۔ پھر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ (دعائیہ ) کلمات کہنے والے حضرت علی بن ابی طالب ؓ تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس معیت سے مراد دفن کی معیت ہے یا دخول جنت ہے جو موت کے بعد ظہور پذیر ہوگا اور صاحبین سے مراد رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکرصدیق ؓ ہیں۔2۔اس حدیث میں حضرت ابوبکر کی فضیلت ومنقبت کا بیان ہے کیونکہ آپ ہربات اور ہر کام میں حضرت عمر ؓ سے مقدم تھا جیسا کہ اس حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے۔3۔حضرت علی ؓ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ چاروں خلفاء یک دل اور یک جان تھے ،نیز وہ ایک دوسرے کے خیر خواہ اور دعاگوتھے۔جن لوگوں نے یہ خیال کیا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے مخالف اور بدخواہ تھے وہ مرد ودخودبدباطن اور خبیث ہیں۔
ترجمۃ الباب:
ان الفاظ کو حضرت ابو سعید خدریؓ نے ذکر کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ولید بن صالح نے بیان کیا ، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا ، کہا ہم سے عمر بن سعید بن ابی الحسین مکی نے ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ کھڑا تھا جو عمر بن خطاب ؓ کے لیے دعائیں کررہے تھے ، اس وقت ان کا جنازہ چارپائی پر رکھا ہوا تھا ، اتنے میں ایک صاحب نے میرے پیچھے سے آکر میرے شانوں پر اپنی کہنیاں رکھ دیں اور ( عمر ؓ کو مخاطب کرکے ) کہنے لگے اللہ آپ پر رحم کرے ۔ مجھے تو یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں ( رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ ) کے ساتھ ( دفن ) کرائے گا ، میں اکثر رسول اللہ ﷺ کو یوں فرماتے سنا کرتا تھا کہ ’’میں اورابوبکر اور عمر تھے ‘‘ ’’میں نے اور ابوبکر اور عمر نے یہ کام کیا ‘‘ ’’ میں اور ابوبکر اور عمر گئے ‘‘ اس لیے مجھے یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان ہی دونوں بزرگوں کے ساتھ رکھے گا ۔ میں نے جو مڑکر دیکھا تو وہ حضرت علی ؓ تھے ۔
حدیث حاشیہ:
سبحان اللہ یہ چاروں خلیفہ ایک دل اور ایک جان تھے اور ایک دوسرے کے خیر خواہ اور ثنا خواں تھے اور جس نے یہ گمان کیا کہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے مخالف اور بد خواہ تھے وہ مردود خود بدباطن اور منافق ہے۔ المرء یقیس علی نفسه کا مصداق ہے، سچ ہے :
چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک کجا عیسیٰ کجا دجال ناپاک
حافظ نے کہا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سل کا شکار ہوئے، واقدی نے کہا کہ انہوں نے سردی میں غسل کیا تھا، پندرہ دن تک بخار ہوا۔ بعض نے کہا کہ یہودیوں نے ان کو زہر دے دیا تھا۔ 13ھ بماہ جمادی الاخری انہوں نے انتقال فرمایا، ان کی خلافت دوبرس تین ماہ اور چند دن رہی۔ آنحضرت ﷺ کی طرح ان کی عمر بھی انتقال کے وقت تریسٹھ 63 سال کی تھی۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ وحشرنااللہ في خدامه۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): While I was standing amongst the people who were invoking Allah for Umar bin Al-Khattab (RA) who was lying (dead) on his bed, a man behind me rested his elbows on my shoulder and said, "(O 'Umar!) May Allah bestow His Mercy on you. I always hoped that Allah will keep you with your two companions, for I often heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "I, Abu Bakr (RA) and 'Umar were (somewhere). I, Abu Bakr (RA) and 'Umar did (something). I, Abu Bakr (RA) and 'Umar set out.' So I hoped that Allah will keep you with both of them." I turned back to see that the speaker was Ali Ibn Abi Talib (RA) .