Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: The conversion ‘Umar رضي الله عنه to Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3866.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب بھی حضرت عمر ؓ نے کسی چیز کے متعلق فرمایا کہ میرے خیال کے مطابق یہ اس طرح ہے وہ اسی طرح ہوئی جیسا کہ وہ اس کے متعلق اظہار خیال کرتے تھے، چنانچہ ایک دن حضرت عمر ؓ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خوبصورت شخص وہاں سے گزرا تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا: یہ شخص اپنے دین جاہلیت پر ہے یا زمانہ جاہلیت میں اپنی قوم کا کاہن رہا ہے یا پھر میرا گمان غلط ہے۔ اس شخص کو میرے پاس لاؤ! اسے بلایا گیا تو آپ نے اس کے سامنے اپنی بات دہرائی۔ اس نے کہا کہ میں نے تو آج کے دن جیسا معاملہ کبھی نہیں دیکھا جو کسی مسلمان کو پیش آیا ہو۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں تیرے لیے ضروری قرار دیتا ہوں کہ مجھے صحیح صورتِ حال سے آگاہ کرو۔ اس نے اقرار کیا کہ میں زمانہ جاہلیت میں اپنی قوم کا کاہن تھا۔ حضرت عمر ؓ نے دریافت کیا کہ تیرے پاس تیرے جنات جو خبریں لاتے تھے ان میں سے حیران کن اور عجیب تر خبر سناؤ۔ اس شخص نے کہا: میں ایک دن بازار میں تھا کہ ایک جِنی میرے پاس گھبرائی ہوئی آئی اور اس نے کہا: کیا آپ نے جنوں کو ان کی حیرانی اور ان کے سرنگوں ہونے کے بعد ان کی مایوسی کو نہیں دیکھا کہ وہ اپنی اونٹنیوں اور ان کے ٹاٹوں کے ساتھ چمٹ گئے ہیں؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اس نے سچ کہا ہے۔ ایک دفعہ میں بھی مشرکین کے بتوں کے پاس سو رہا تھا کہ ایک آدمی بچھڑا لے کر آیا اور اس نے اسے ذبح کیا۔ اس کے اندر سے اس قدر زور دار چیخ برآمد ہوئی کہ میں نے اس سے زیادہ سخت چیخ کبھی نہ سنی تھی۔ اس نے کہا: اے دشمن! میں تجھے ایک بات بتاتا ہوں جس سے مرادمل جائے۔ ایک فصیح اور خوش بیان شخص یہ کہتا ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ یہ سنتے ہی وہاں تمام لوگ چونک پڑے اور اچھل کر دوڑنے لگے۔ میں نے کہا: میں تو اسی جگہ رہوں گا تاکہ اس کے پس پردہ کچھ معلوم کروں۔ پھر اس نے آواز دی: اے دشمن! معاملہ واضح ہے۔ آدمی خوش بیان ہے جو کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ پھر میں وہاں سے اٹھ کھڑا ہو۔ ہم زیادہ عرصہ نہیں ٹھہرے تھے کہ کہا گیا: یہ نبی مکرم ہیں ۔۔ ﷺ ۔۔
تشریح:
1۔حضرت عمر ؓ کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر امت کا کوئی نہ کوئی محدث ہوا ہے ،میری امت میں اگر کوئی محدث ہے تو وہ عمر ؓ ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3689۔) 2۔ واقعی حضرت عمر ؓ جو بات کہتے وہ ہوجاتی جیسا کہ شروع حدیث میں حضرت ابن عمر ؓ نے ان کے متعلق اظہار خیال کیا ہے۔حضرت عمر ؓ نے اس خوبصورت شخص کے متعلق جس گمان کا اظہار کیا وہ اسی طرح تھا، چنانچہ اس نے اقرار بھی کیا۔ ایک دن حضرت عمر نے اس شخص سے خوش طبعی کے طور پر فرمایا: اب تیرے جن کا کیاحال ہے؟ وہ غصے سے بھر گیا اور کہنے لگا: اے عمر! تم زمانہ جاہلیت میں جو شرک وغیرہ کرتے تھے وہ میرے پیشے کہانت سے زیادہ بُرا تھا۔ آپ مجھے کیوں شرمندہ کرتے ہیں جس سے میں اب تائب ہوچکا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اس کی بخشش کا امید وار ہوں۔ 3۔ اس جن سے اس آدمی نے جو گفتگو کی تھی اس کا مطلب یہ تھا آخر الزمان نبی (صلی اللہ علیه وسلم) کا ظہور ہونے والاہے۔ تمام جن عربوں کے تابع ہوجائیں گے اور ان کے دین کی پیروی کریں گے کیونکہ وہ نبی جنوں اور انسانوں دونوں کے لیے ہے۔ 4۔ کہا جاتا ہے کہ یہی واقعہ حضرت عمر ؓ کے اسلام لانے کا باعث ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس واقعے کو اسلام عمر کے زیر عنوان بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:229/7۔) واللہ اعلم۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب بھی حضرت عمر ؓ نے کسی چیز کے متعلق فرمایا کہ میرے خیال کے مطابق یہ اس طرح ہے وہ اسی طرح ہوئی جیسا کہ وہ اس کے متعلق اظہار خیال کرتے تھے، چنانچہ ایک دن حضرت عمر ؓ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خوبصورت شخص وہاں سے گزرا تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا: یہ شخص اپنے دین جاہلیت پر ہے یا زمانہ جاہلیت میں اپنی قوم کا کاہن رہا ہے یا پھر میرا گمان غلط ہے۔ اس شخص کو میرے پاس لاؤ! اسے بلایا گیا تو آپ نے اس کے سامنے اپنی بات دہرائی۔ اس نے کہا کہ میں نے تو آج کے دن جیسا معاملہ کبھی نہیں دیکھا جو کسی مسلمان کو پیش آیا ہو۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں تیرے لیے ضروری قرار دیتا ہوں کہ مجھے صحیح صورتِ حال سے آگاہ کرو۔ اس نے اقرار کیا کہ میں زمانہ جاہلیت میں اپنی قوم کا کاہن تھا۔ حضرت عمر ؓ نے دریافت کیا کہ تیرے پاس تیرے جنات جو خبریں لاتے تھے ان میں سے حیران کن اور عجیب تر خبر سناؤ۔ اس شخص نے کہا: میں ایک دن بازار میں تھا کہ ایک جِنی میرے پاس گھبرائی ہوئی آئی اور اس نے کہا: کیا آپ نے جنوں کو ان کی حیرانی اور ان کے سرنگوں ہونے کے بعد ان کی مایوسی کو نہیں دیکھا کہ وہ اپنی اونٹنیوں اور ان کے ٹاٹوں کے ساتھ چمٹ گئے ہیں؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اس نے سچ کہا ہے۔ ایک دفعہ میں بھی مشرکین کے بتوں کے پاس سو رہا تھا کہ ایک آدمی بچھڑا لے کر آیا اور اس نے اسے ذبح کیا۔ اس کے اندر سے اس قدر زور دار چیخ برآمد ہوئی کہ میں نے اس سے زیادہ سخت چیخ کبھی نہ سنی تھی۔ اس نے کہا: اے دشمن! میں تجھے ایک بات بتاتا ہوں جس سے مرادمل جائے۔ ایک فصیح اور خوش بیان شخص یہ کہتا ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ یہ سنتے ہی وہاں تمام لوگ چونک پڑے اور اچھل کر دوڑنے لگے۔ میں نے کہا: میں تو اسی جگہ رہوں گا تاکہ اس کے پس پردہ کچھ معلوم کروں۔ پھر اس نے آواز دی: اے دشمن! معاملہ واضح ہے۔ آدمی خوش بیان ہے جو کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ پھر میں وہاں سے اٹھ کھڑا ہو۔ ہم زیادہ عرصہ نہیں ٹھہرے تھے کہ کہا گیا: یہ نبی مکرم ہیں ۔۔ ﷺ ۔۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت عمر ؓ کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر امت کا کوئی نہ کوئی محدث ہوا ہے ،میری امت میں اگر کوئی محدث ہے تو وہ عمر ؓ ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3689۔) 2۔ واقعی حضرت عمر ؓ جو بات کہتے وہ ہوجاتی جیسا کہ شروع حدیث میں حضرت ابن عمر ؓ نے ان کے متعلق اظہار خیال کیا ہے۔حضرت عمر ؓ نے اس خوبصورت شخص کے متعلق جس گمان کا اظہار کیا وہ اسی طرح تھا، چنانچہ اس نے اقرار بھی کیا۔ ایک دن حضرت عمر نے اس شخص سے خوش طبعی کے طور پر فرمایا: اب تیرے جن کا کیاحال ہے؟ وہ غصے سے بھر گیا اور کہنے لگا: اے عمر! تم زمانہ جاہلیت میں جو شرک وغیرہ کرتے تھے وہ میرے پیشے کہانت سے زیادہ بُرا تھا۔ آپ مجھے کیوں شرمندہ کرتے ہیں جس سے میں اب تائب ہوچکا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اس کی بخشش کا امید وار ہوں۔ 3۔ اس جن سے اس آدمی نے جو گفتگو کی تھی اس کا مطلب یہ تھا آخر الزمان نبی (صلی اللہ علیه وسلم) کا ظہور ہونے والاہے۔ تمام جن عربوں کے تابع ہوجائیں گے اور ان کے دین کی پیروی کریں گے کیونکہ وہ نبی جنوں اور انسانوں دونوں کے لیے ہے۔ 4۔ کہا جاتا ہے کہ یہی واقعہ حضرت عمر ؓ کے اسلام لانے کا باعث ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس واقعے کو اسلام عمر کے زیر عنوان بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:229/7۔) واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمرو بن محمد بن زید نے بیان کیا، ان سے سالم نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓمانے بیان کیا کہ جب بھی حضرت عمر ؓ نے کسی چیز کے متعلق کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ اس طرح ہے تو وہ اسی طرح ہوئی جیسا وہ اس کے متعلق اپنا خیا ل ظاہر کرتے تھے۔ ایک دن وہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خوبصورت شخص وہاں سے گزرا۔ انہوں نے کہا یا تو میرا گمان غلط ہے یا یہ شخص اپنے جاہلیت کے دین پر اب بھی قائم ہے یا یہ زمانہ جاہلیت میں اپنی قوم کا کاہن رہاہے۔ اس شخص کو میرے پاس بلاؤ۔ وہ شخص بلایا گیا تو حضرت عمر ؓ نے اس کے سامنے بھی یہی بات دھرائی۔ اس پر اس نے کہا میں نے تو آج کے دن کا سا معاملہ کبھی نہیں دیکھا جو کسی مسلمان کو پیش آیا ہو۔ عمر ؓ نے کہا لیکن میں تمہارے لئے ضروری قرار دیتا ہوں کہ تم مجھے اس سلسلے میں بتاؤ۔ اس نے اقرار کیا کہ زمانہ جاہلیت میں میں اپنی قوم کا کاہن تھا۔ حضرت عمر ؓ نے کہا غیب کی جو خبریں تمہاری جنیہ تمہارے پاس لاتی تھی، اس کی سب سے حیرت انگیز کوئی بات سناؤ؟ شخص مذکور نے کہا کہ ایک دن میں بازار میں تھا کہ جنیہ میرے پاس آئی۔ میں نے دیکھا کہ وہ گھبرائی ہوئی ہے، پھر اس نے کہا جنوں کے متعلق تمہیں معلوم نہیں۔ جب سے انہیں آسمانی خبروں سے روک دیا گیاہے وہ کس درجہ ڈرے ہوئے ہیں، مایوس ہورہے ہیں اور اونٹنیوں کے پالان کی کملیوں سے مل گئے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا کہ تم نے سچ کہا۔ ایک مرتبہ میں بھی ان دنوں بتوں کے قریب سویا ہوا تھا۔ ایک شخص ایک بچھڑا لایا اوراس نے بت پر اسے ذبح کر دیا اس کے اندر سے اس قدر زور کی آواز نکلی کہ میں نے ایسی شدید چیخ کبھی نہیں سنی تھی۔ اس نے کہا اے دشمن! ایک بات بتلاتا ہوں جس سے مراد مل جائے ایک فصیح خوش بیان شخص یوں کہتا ہے لااله الا اللہ یہ سنتے ہی تمام لوگ (جو وہاں موجود تھے) چونک پڑے (چل ديے) میں نے کہا میں تو نہیں جانے کا، دیکھو اس کے بعد کیا ہوتا ہے۔ پھر یہی آواز آئی ارے دشمن تجھ کو ایک بات بتلاتا ہوں جس سے مراد بر آئے ایک فصیح شخص یوں کہہ رہا ہے لااله الا اللہ۔ اس وقت میں کھڑا ہوا اور ابھی کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ لوگ کہنے لگے یہ (حضرت محمد ﷺ) اللہ کے سچے رسول ہیں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓ نے اپنے قیافہ اور فراست کی بناپر اس گزرنے والے سے کہا کہ تو مسلمان ہے، یا کافر، یا کاہن ہے۔ ابو عمرو نے کہا یہ شخص جاہلیت کے زمانہ میں کہانت کیا کرتا تھا، حضرت عمر ؓ نے ایک دن مزاح کے طور پر اس سے فرمایا اے سواد ! تیری کہانت اب کہاں گئی؟ اس پر وہ غصہّ ہوا کہنے لگا عمر! ہم جس حال میں پہلے تھے یعنی جاہلیت وکفر پر وہ کہانت سے بدتر تھا اور تم مجھ کو ایسی بات پر ملامت کرتے ہوجس سے میں توبہ کرچکا ہوں اور مجھ کو امید ہے کہ اللہ نے اس کو بخش دیا ہوگا۔ (وحیدی) اس سے حضرت عمر ؓ کی کمال دانائی ثابت ہوئی اور یہی اس حدیث کو یہاں لانے کا مقصد ہے۔ پکار نے والا کوئی فرشتہ تھا جو آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے کی بشارت دے رہا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): I never heard 'Umar saying about something that he thought it would be so-and-so, but he was quite right. Once, while 'Umar was sitting, a handsome man passed by him, 'Umar said, "If I am not wrong, this person is still on his religion of the pre-lslamic period of ignorance or he was their foreteller. Call the man to me." When the man was called to him, he told him of his thought. The man said, "I have never seen such a day on which a Muslim is faced with such an accusation." 'Umar said, "I am determined that you should tell me the truth." He said, "I was a foreteller in the pre-lslamic period of ignorance." Then 'Umar said, "Tell me the most astonishing thing your female Jinn has told you of." He said, "One-day while I was in the market, she came to me scared and said, 'Haven't you seen the Jinns and their despair and they were overthrown after their defeat (and prevented from listening to the news of the heaven) so that they (stopped going to the sky and) kept following camel-riders (i.e. 'Arabs)?" 'Umar said, "He is right." and added, "One day while I was near their idols, there came a man with a calf and slaughtered it as a sacrifice (for the idols). An (unseen) creature shouted at him, and I have never heard harsher than his voice. He was crying, 'O you bold evil-doer! A matter of success! An eloquent man is saying: None has the right to be worshipped except you (O Allah).' On that the people fled, but I said, 'I shall not go away till I know what is behind this.' Then the cry came again: 'O you bold evil-doer! A matter of success! An eloquent man is saying: None has the right to be worshipped except Allah.' I then went away and a few days later it was said, "A prophet has appeared."