باب:” جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں ، حالانکہ اللہ دونوں کا مدد گار تھا اور ایماندار وں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ “ ( آل عمران : 122 )
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: “…but Allah was their Wali.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4052.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا: ’’اے جابر! تم نے شادی کی ہے؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’کنواری سے یا شوہر دیدہ سے؟‘‘ میں نے کہا: بیوہ سے۔ آپ نے فرمایا: ’’بہتر تھا کہ کنواری سے شادی کرتے تاکہ وہ تم سے ہنستی کھیلتی۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید ہو گئے اور اپنے پیچھے نو لڑکیاں چھوڑ گئے ہیں، وہ میری نو بہنیں ہیں۔ مجھے یہ پسند نہیں کہ ان کے ساتھ ایک اور اان جیسی ناتجربہ کار لڑکی اپنے گھر لے آؤں، لہذا میں نے شادی کے لیے ایک ایسی عورت کا انتخاب کیا ہے جو ان کی کنگھی پٹی کرے گی اور ان کی نگہداشت کا فریضہ بھی ادا کرتی رہے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم نے بالکل ٹھیک کیا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ عنوان سابق ایک اضافی فائدے کے لیے تھا۔ بنیادی عنوان وہی ہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔ اس میں غزوہ احد کے واقعات بیان کرنا مقصود ہے۔ 2۔ مذکورہ حدیث میں بھی حضرت جابر ؓ کے والد گرامی حضرت جابر عبد اللہ ؓ کی شہادت کا بیان ہے غزوہ احد میں ہوئی۔ جب وہ شہید ہوئے تو اس وقت حضرت جابر ؓ ان کے اکلوتے بیٹے تھے۔سب کاروبار ان کےسپرد ہوا۔ جب نو بہنوں کا بارگراں ناتواں کندھوں پر پڑا تو بہت پریشان رہتے تھے۔والد کے ذمے قرض بھی بہت تھا جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کا ذکر ہے۔ ایسے حالات میں آپ نے ایک بیوہ سے شادی کی تاکہ وہ ان کی بہنوں کو سنبھالے اورامور خانہ داری کی نگہداشت کرے۔ واقعی ایسے حالات میں بیوہ اور تجربہ کار عورت ایک کنواری لڑکی سے بہتر ہوتی ہے، پھر خود رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کی تصویب فرمائی جیسا کہ حدیث کے آخر میں ہے۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3900
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4052
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4052
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4052
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا: ’’اے جابر! تم نے شادی کی ہے؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’کنواری سے یا شوہر دیدہ سے؟‘‘ میں نے کہا: بیوہ سے۔ آپ نے فرمایا: ’’بہتر تھا کہ کنواری سے شادی کرتے تاکہ وہ تم سے ہنستی کھیلتی۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید ہو گئے اور اپنے پیچھے نو لڑکیاں چھوڑ گئے ہیں، وہ میری نو بہنیں ہیں۔ مجھے یہ پسند نہیں کہ ان کے ساتھ ایک اور اان جیسی ناتجربہ کار لڑکی اپنے گھر لے آؤں، لہذا میں نے شادی کے لیے ایک ایسی عورت کا انتخاب کیا ہے جو ان کی کنگھی پٹی کرے گی اور ان کی نگہداشت کا فریضہ بھی ادا کرتی رہے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم نے بالکل ٹھیک کیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ عنوان سابق ایک اضافی فائدے کے لیے تھا۔ بنیادی عنوان وہی ہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔ اس میں غزوہ احد کے واقعات بیان کرنا مقصود ہے۔ 2۔ مذکورہ حدیث میں بھی حضرت جابر ؓ کے والد گرامی حضرت جابر عبد اللہ ؓ کی شہادت کا بیان ہے غزوہ احد میں ہوئی۔ جب وہ شہید ہوئے تو اس وقت حضرت جابر ؓ ان کے اکلوتے بیٹے تھے۔سب کاروبار ان کےسپرد ہوا۔ جب نو بہنوں کا بارگراں ناتواں کندھوں پر پڑا تو بہت پریشان رہتے تھے۔والد کے ذمے قرض بھی بہت تھا جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کا ذکر ہے۔ ایسے حالات میں آپ نے ایک بیوہ سے شادی کی تاکہ وہ ان کی بہنوں کو سنبھالے اورامور خانہ داری کی نگہداشت کرے۔ واقعی ایسے حالات میں بیوہ اور تجربہ کار عورت ایک کنواری لڑکی سے بہتر ہوتی ہے، پھر خود رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کی تصویب فرمائی جیسا کہ حدیث کے آخر میں ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عمرو بن دینار نے خبر دی اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا، جابر! کیا نکاح کر لیا؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے عرض کیا کہ بیوہ سے۔ حضور ﷺ نے فرمایا، کسی کنواری لڑکی سے کیوں نہ کیا؟ جو تمہارے ساتھ کھیلا کرتی۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میرے والد احد کی لڑائی میں شہید ہوگئے۔ نو لڑکیاں چھوڑیں۔ پس میری نو بہنیں موجود ہیں۔ اسی لیے میں نے مناسب نہیں خیال کیا کہ انہیں جیسی نا تجربہ کا ر لڑکی ان کے پاس لاکر بٹھا دوں، بلکہ ایک ایسی عورت لاؤں جو ان کی دیکھ بھال کر سکے اور ان کی صفائی وستھرائی کا خیال رکھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت جابر ؓ رسول کریم ﷺ کو اس خیال سے لائے تھے کہ آپ کو دیکھ کر قرض خواہ کچھ قرض چھوڑدیں گے لیکن نتیجہ الٹا ہوا۔ قرض خواہ یہ سمجھے کہ آنحضرت ﷺ کی جابر ؓ پر نظر عنایت ہے۔ اگر جابر ؓ کے والد کا مال کافی نہ ہوگا تو باقی قرضہ آنحضرت ﷺ خود اپنے پاس سے ادا کردیں گے۔ اس لیے انہوں نے اور سخت تقاضا شروع کیا لیکن اللہ نے اپنے رسول کی دعا قبول کی اور مال میں کافی برکت ہو گئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir: "Allah's Apostle (ﷺ) said to me, "Have you got married O Jabir?" I replied, "Yes." He asked "What, a virgin or a matron?" I replied, "Not a virgin but a matron." He said, "Why did you not marry a young girl who would have fondled with you?" I replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! My father was martyred on the day of Uhud and left nine (orphan) daughters who are my nine sisters; so I disliked to have another young girl of their age, but (I sought) an (elderly) woman who could comb their hair and look after them." The Prophet (ﷺ) said, "You have done the right thing."