باب: غزوہ بنو المصطلق کا بیان جو قبیلہ بنو خزاعہ سے ہوا تھا
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Ghazwa of Banu Al-Mustaliq or the Ghazwa of Al-Muraisi’)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابن اسحاق نے بیان کیا کہ یہ غزوہ ۶ھ میں ہوا تھا اور موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا کہ ۴ھ میں اور نعمان بن راشد نے زہری سے بیان کیا کہ واقعہ افک غزوہ مریسیع میں پیش آیا تھا ۔
4139.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ نجد میں شریک ہوئے۔ جب آپ کو دوپہر کی گرمی نے پا لیا تو آپ اس وقت بہت خاردار درختوں کی وادی میں تھے، چنانچہ آپ نے ایک گھنے سایہ دار درخت کے نیچے سائے کے لیے قیام کیا اور اپنی تلوار درخت سے لٹکا دی۔ صحابہ ؓ بھی درختوں کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے پھیل گئے۔ ابھی ہم اسی کیفیت میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں آواز دی۔ ہم حاضر ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک اعرابی جب میرے پاس آیا تو میں سو رہا تھا۔ اس دوران میں اس نے میری تلوار (مجھ پر) سونت لی۔ جب میں بیدار ہوا تو یہ میری ننگی تلوار سونتے ہوئے میرے سر پر کھڑا تھا، کہنے لگے: آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے کہا: ’’اللہ۔‘‘ پھر اس نے تلوار نیام میں کر لی اور بیٹھ گیا ور دیکھ لو یہ بیٹھا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے کوئی سزا نہ دی۔
تشریح:
1۔ ایک روایت کے مطابق اس اعرابی نے تین مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ بچائےگا۔ (صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث:2910) اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ کی خصوصی حفاظت فرمائی، بصورت دیگراعرابی کو باربار پوچھنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ رسول اللہ ﷺ ہتھیار کے بغیر اس کے سامنے بیٹھےہوئے تھے۔ لیکن جب اعرابی کو احساس ہوا کہ انھیں قتل کرنا میرے بس میں نہیں تو خود کو آپ کے حوالے کر دیا۔ (فتح الباري:534/7) 2۔ یہ واقعہ غزوہ بنو مصطلق کے قریب قریب ہوا تھا اس مناسبت سے یہاں بیان کردیا گیا وگرنہ بنیادی طور پر اس کا غزوہ بنو مصطلق سے کوئی تعلق نہیں۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3980
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4139
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4139
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4139
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
مصطلق جذیمہ بن سعد کا لقب ہے۔ اس کے نام پر قبیلہ مشہور ہوا اور یہ خزاعہ کی شاخ ہے،یہ قبیلہ اپنی قوم سے جدا ہو کر مکہ مکرمہ میں مقیم ہو گیا تھا۔ اور مریسیع ،مرسوع کی تصغیر ہے۔ یہ خزاعہ خاندان کا چشمہ تھا۔ اس مقام پر غزوہ ہوا اسے مصطلق یا مریسیع کہتے ہیں۔ اسی غزوے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہار گم ہوا اور آیت تیمم نازل ہوئی۔ یہ غزوہ نزول حجاب کے بعد ہوا۔ پردے کے احکام حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح کے موقع پر نازل ہوئے۔ حضرت زینب کا نکاح 5ہجری کی ابتدا میں ہوا اور واقعہ افک اور غزوہ مصطلق 5ہجری شعبان میں پیش آیا نیز واقعہ افک غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر ہوا۔ اس واقعے میں سعد بن ماذ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان تلخ کلامی کا ذکر ہے اور وہ اس واقعے کے بعد 5ہجری میں فوت ہوئے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے موسیٰ بن عقبہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ واقعہ 4ہجری میں پیش آیا لیکن یہ صحیح نہیں۔ سہو قلم کا نتیجہ معلوم ہو تاہے۔ یہ غزوہ جنگی نقطہ نظر سے کوئی بھاری بھر کم غزوہ نہیں ہے مگر اس حیثیت سے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اس غزوے میں چند ایسے واقعات پیش آئے جو سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک طرف منافقین کا پردہ فاش ہوا تو دوسری طرف ایسے تعزیری قوانین نازل ہوئے جن سے اسلامی معاشرے میں نکھار پیدا ہوا۔ اس غزوے میں لڑائی وغیرہ کی نوبت نہیں آئی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چشمہ مریسیع کے پاس ان پر چھاپہ مارکر عورتوں ، بچوں اور مال مویشی پر قبضہ کر لیا جیسا کہ صحیح بخاری میں اس کی صراحت ہے۔( صحیح البخاری العتق حدیث :2541۔)قیدیوں میں حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں جو بنو مصطلق کے سردار حارث بن ابو ضرار کی بیٹی تھی وہ ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصے میں آئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خرید کر انھیں آزاد کیا، پھر ان سے نکاح کر لیا۔ اس شادی کی وجہ سے مسلمانوں نے بنو مصطلق کے ایک سو گھرانوں کو آزاد کر دیا کیونکہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرال بن گئےتھے واللہ اعلم۔
ابن اسحاق نے بیان کیا کہ یہ غزوہ ۶ھ میں ہوا تھا اور موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا کہ ۴ھ میں اور نعمان بن راشد نے زہری سے بیان کیا کہ واقعہ افک غزوہ مریسیع میں پیش آیا تھا ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ نجد میں شریک ہوئے۔ جب آپ کو دوپہر کی گرمی نے پا لیا تو آپ اس وقت بہت خاردار درختوں کی وادی میں تھے، چنانچہ آپ نے ایک گھنے سایہ دار درخت کے نیچے سائے کے لیے قیام کیا اور اپنی تلوار درخت سے لٹکا دی۔ صحابہ ؓ بھی درختوں کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے پھیل گئے۔ ابھی ہم اسی کیفیت میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں آواز دی۔ ہم حاضر ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک اعرابی جب میرے پاس آیا تو میں سو رہا تھا۔ اس دوران میں اس نے میری تلوار (مجھ پر) سونت لی۔ جب میں بیدار ہوا تو یہ میری ننگی تلوار سونتے ہوئے میرے سر پر کھڑا تھا، کہنے لگے: آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے کہا: ’’اللہ۔‘‘ پھر اس نے تلوار نیام میں کر لی اور بیٹھ گیا ور دیکھ لو یہ بیٹھا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے کوئی سزا نہ دی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ایک روایت کے مطابق اس اعرابی نے تین مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ بچائےگا۔ (صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث:2910) اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ کی خصوصی حفاظت فرمائی، بصورت دیگراعرابی کو باربار پوچھنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ رسول اللہ ﷺ ہتھیار کے بغیر اس کے سامنے بیٹھےہوئے تھے۔ لیکن جب اعرابی کو احساس ہوا کہ انھیں قتل کرنا میرے بس میں نہیں تو خود کو آپ کے حوالے کر دیا۔ (فتح الباري:534/7) 2۔ یہ واقعہ غزوہ بنو مصطلق کے قریب قریب ہوا تھا اس مناسبت سے یہاں بیان کردیا گیا وگرنہ بنیادی طور پر اس کا غزوہ بنو مصطلق سے کوئی تعلق نہیں۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ یہ غزوہ 6 ہجری میں ہوا تھا۔ اور موسٰی بن عقبہ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ 4 ہجری میں پیش آیا۔ نعمان بن راشد امام زہری سے بیان کرتے ہیں کہ واقعہ افک غزوہ مریسیع میں پیش آیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی‘ انہیں زہری نے‘ انہیں ابو سلمہ نے اور ان سے جابر بن عبد اللہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ نجد کی طرف غزوہ کے لیے گئے۔ دوپہر کا وقت ہوا تو آپ ایک جنگل میں پہنچے جہاں ببول کے درخت بہت تھے۔ آپ نے گھنے درخت کے نیچے سایہ کے لیے قیام کیا اور درخت سے اپنی تلوار لٹکا دی ۔ صحابہ ؓم بھی درختوں کے نیچے سایہ حاصل کر نے کے لیے پھیل گئے۔ ابھی ہم اسی کیفیت میں تھے کہ حضور ﷺ نے ہمیں پکارا۔ ہم حاضر ہو ئے تو ایک بدوی آپ کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ شخص میرے پاس آیا تو میں سو رہا تھا۔ اتنے میں اس نے میری تلوار کھینچ لی اور میں بھی بیدار ہو گیا۔ یہ میری ننگی تلوار کھینچے ہوئے میرے سر پر کھڑا تھا۔ مجھ سے کہنے لگا آج مجھ سے تمہیں کون بچائے گا؟ میں نے کہا کہ اللہ! (وہ شخص صرف ایک لفظ سے اتنا مرعوب ہوا کہ) تلوار کو نیام میں رکھ کر بیٹھ گیا اور دیکھ لو۔ یہ بیٹھا ہوا ہے۔ حضور ﷺ نے اسے کوئی سزا نہیں دی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): We took part in the Ghazwa of Najd along with Allah's Apostle (ﷺ) and when the time for the afternoon rest approached while he was in a valley with plenty of thorny trees, he dismounted under a tree and rested in its shade and hung his sword (on it). The people dispersed amongst the trees in order to have shade. While we were in this state, Allah's Apostle (ﷺ) called us and we came and found a bedouin sitting in front of him. The Prophet (ﷺ) said, "This (Bedouin) came to me while I was asleep, and he took my sword stealthily. I woke up while he was standing by my head, holding my sword without its sheath. He said, 'Who will save you from me?' I replied, 'Allah.' So he sheathed it (i.e. the sword) and sat down, and here he is." But Allah's Apostle (ﷺ) did not punish him.