باب: فتح مکہ کے دن نبی کریم ﷺ نے جھنڈا کہاں گاڑا تھا ؟
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Where did the Prophet (saws) fix the flag on the day of the conquest of Makkah?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4280.
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے سال روانہ ہوئے اور قریش کو یہ خبر پہنچی تو ابو سفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء رسول اللہ ﷺ کے متعلق معلومات لینے نکلے۔ چلتے چلتے جب مر الظہران پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ جگہ جگہ بکثرت آگ روشن ہے، گویا وہ عرفہ کی آگ ہے۔ ابو سفیان نے کہا: یہاں جگہ جگہ آگ کیوں روشن ہے؟ یہ جگہ جگہ آگ کے آلاؤ تو میدان عرفات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ بدیل بن ورقاء نے کہا: یہ بنو عمرو کی آگ معلوم ہوتی ہے۔ ابوسفیان نے کہا: بنو عمرو کے لوگ تو اس سے بہت کم ہیں۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ کے محافظ دستے (پہرے داروں) نے انہیں دیکھ کر گرفتار کر لیا اور پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے۔ حضرت ابو سفیان اس دوران میں مسلمان ہو گئے۔ پھر جب آپ ﷺ روانہ ہوئے تو حضرت عباس ؓ سے فرمایا: ’’ابوسفیان کو گھوڑوں کے کے ہجوم کی جگہ رکھنا تاکہ وہ مسلمانوں کی شان و شوکت بچشم خود ملاحظہ کرے۔‘‘ چنانچہ حضرت عباس ؓ نے انہیں ایسی ہی جگہ ٹھہرایا۔ اب وہ قبائل جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، ان کے قریب سے گروہ در گروہ گزرنے لگے۔ جب پہلا قافلہ گزرا تو ابو سفیان نے پوچھا: عباس! یہ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ قبیلہ غفار کے لوگ ہیں۔ ابو سفیان نے کہا: مجھے ان سے کوئی غرض نہیں۔ پھر قبیلہ جہینہ گزرا تو ابوسفیان نے ایسا ہی کہا: قبیلہ سعد بن ہذیم گزرا تو بھی انہوں نے یہی کہا: پھر قبیلہ سلیم گزرا تو بھی انہوں نے یہی کہا: آخر میں ایک ایسا لشکر گزرا کہ ابوسفیان نے اس جیسا لشکر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ حضرت عباس ؓ نے جواب دیا: یہ انصاری ہیں اور ان کے امیر حضرت سعد بن عبادہ ؓ ہیں جو جھنڈا تھامے ہوئے ہیں۔ تب حضرت سعد ؓ نے کہا: ابوسفیان ! آج تو گردنیں مارنے کا دن ہے۔ آج کعبہ میں کفار کا قتل جائز ہو گا۔ ابوسفیان نے کہا: اے عباس! تحفظ و حفاظت کا دن اچھا ہے۔ پھر ایک سب سے چھوٹی جماعت آئی۔ اس میں خود رسول اللہ ﷺ اور آپ کے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی تھے اور نبی ﷺ کا جھنڈا حضرت زبیر بن عوام ؓ کے ہاتھ میں تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ ابو سفیان کے قریب سے گزرے تو اس نے کہا: آپ کو معلوم نہیں کہ سعد بن عبادہ نے کیا کہا ہے؟ آپ نے پوچھا: ’’اس نے کیا کہا ہے؟‘‘ ابوسفیان نے کہا: اس نے ایسے ایسے کہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سعد نے غلط کہا ہے کیونکہ یہ تو وہ دن ہے کہ اللہ تعالٰی اس میں کعبہ کو بزرگی دے گا اور اس دن کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا۔‘‘ اس (عروہ) نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ آپ کا جھنڈا مقام حجون میں گاڑ دیا جائے۔ عروہ نے کہا: مجھے نافع بن جبیر بن مطعم نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے سنا، انہوں نے زبیر بن عوام ؓ سے کہا: ابو عبداللہ! رسول اللہ ﷺ نے آپ کو یہیں جھنڈا نصب کرنے کا حکم دیا تھا؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس دن رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو حکم دیا تھا کہ کداء کی بالائی جانب سے مکہ میں داخل ہوں اور خود نبی ﷺ کدی (کے نشیبی علاقے) کی طرف سے داخل ہوئے۔ اس دن حضرت خالد بن ولید ؓ کی فوج سے دو آدمی، یعنی حضرت حبیش بن اشعر اور کرز بن جابر فہری ؓ شہید ہوئے۔
تشریح:
1۔مرالظہران مکہ سے مدینہ کے راستے پر تقریباً 25 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔آج کل اسے وادی فاطمہ کہتے ہیں۔2۔رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کو مرعوب کرنے کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو الگ الگ آگ جلانے کا حکم دیا تاکہ نفری کی کثرت کا اظہار ہو۔عرفات میں حجاج کی عادت تھی کہ ہر ایک اپنی ضرورت کے مطابق آگ سلگاتاتھا، اس لیے ابوسفیان نے اسے میدان عرفات کی آگ سے تشبیہ دی۔3۔جب خالد بن ولید ؓ فوجی دستے کے ہمراہ مکے میں داخل ہوئے تو صفوان بن امیہ اور سہیل بن عمرو نے کچھ آدمیوں کے ہمراہ مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔اس معمولی سی جھڑپ میں بارہ،تیرہ کافرمارے گئے اور دو مسلمان بھی شہید ہوئے جن کا حدیث کے آخر میں ذکر ہے۔ 4۔حرم کعبہ جائے امن ہونے کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے چند سرکش مرد اور عورتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:*۔عبدالعزی بن خطل:۔یہ کعبہ کے غلاف میں چھپاہواتھا۔،اسے وہیں قتل کردیا گیا۔عبداللہ بن سعد بن ابوسرح:۔مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوگیا۔حضرت عثمان ؓ کی سفارش سے اس کی جان بخشی ہوئی۔*۔عکرمہ بن ابو جہل:۔یمن کی طرف بھاگ گیا۔اس کی بیوی لے کرآئی۔پھر وہ اپنی بیوی کے ہمراہ مسلمان ہوگیا۔*۔حویرث بن نقید۔رسول اللہ ﷺ کو مکے میں سخت تکلیف پہنچاتا تھا۔اسے فتح مکہ کے وقت قتل کردیا گیا۔*۔مقیس بن صبابہ۔اس نے اسلام قبول کرلیا ،پھر مرتد ہوگیا اور نمیلہ بن عبداللہ نے فتح مکہ کے وقت اسے قتل کردیا۔*۔ہبار بن اسود۔اس نے سیدہ زینب ؓ کو ہجرت کے وقت سخت تکلیف دی لیکن اسلام قبول کرکے اپنی جان بچائی۔*۔حارث بن طلاطل خزاعی۔اسے حضرت علی ؓ نے مکے میں قتل کیا۔*۔کعب بن زہیر اور وحشی بن حرب کو بھی قتل کردینے کا حکم تھا لیکن یہ دونوں مسلمان ہوگئے۔*۔ابن خطل کی دولونڈیاں تھی جن میں سے ایک مسلمان ہوگئی۔دوسری قتل کردی گئی۔*۔سارہ جو حضرت حاطب ؓ کا خط لے کر مکہ جارہی تھی۔یہ لونڈی مسلمان ہوگئی،اس لیے قتل ہونے سے بچ گئی۔*۔ام سعد کو فتح مکہ کے وقت قتل کردیا گیا تھا۔ اس طرح یہ تیرہ افراد تھے جنھیں قتل کرنے کاحکم دیا گیاتھا۔(فتح الباری:15/8۔)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4106
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4280
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4280
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4280
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے سال روانہ ہوئے اور قریش کو یہ خبر پہنچی تو ابو سفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء رسول اللہ ﷺ کے متعلق معلومات لینے نکلے۔ چلتے چلتے جب مر الظہران پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ جگہ جگہ بکثرت آگ روشن ہے، گویا وہ عرفہ کی آگ ہے۔ ابو سفیان نے کہا: یہاں جگہ جگہ آگ کیوں روشن ہے؟ یہ جگہ جگہ آگ کے آلاؤ تو میدان عرفات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ بدیل بن ورقاء نے کہا: یہ بنو عمرو کی آگ معلوم ہوتی ہے۔ ابوسفیان نے کہا: بنو عمرو کے لوگ تو اس سے بہت کم ہیں۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ کے محافظ دستے (پہرے داروں) نے انہیں دیکھ کر گرفتار کر لیا اور پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے۔ حضرت ابو سفیان اس دوران میں مسلمان ہو گئے۔ پھر جب آپ ﷺ روانہ ہوئے تو حضرت عباس ؓ سے فرمایا: ’’ابوسفیان کو گھوڑوں کے کے ہجوم کی جگہ رکھنا تاکہ وہ مسلمانوں کی شان و شوکت بچشم خود ملاحظہ کرے۔‘‘ چنانچہ حضرت عباس ؓ نے انہیں ایسی ہی جگہ ٹھہرایا۔ اب وہ قبائل جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، ان کے قریب سے گروہ در گروہ گزرنے لگے۔ جب پہلا قافلہ گزرا تو ابو سفیان نے پوچھا: عباس! یہ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ قبیلہ غفار کے لوگ ہیں۔ ابو سفیان نے کہا: مجھے ان سے کوئی غرض نہیں۔ پھر قبیلہ جہینہ گزرا تو ابوسفیان نے ایسا ہی کہا: قبیلہ سعد بن ہذیم گزرا تو بھی انہوں نے یہی کہا: پھر قبیلہ سلیم گزرا تو بھی انہوں نے یہی کہا: آخر میں ایک ایسا لشکر گزرا کہ ابوسفیان نے اس جیسا لشکر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ حضرت عباس ؓ نے جواب دیا: یہ انصاری ہیں اور ان کے امیر حضرت سعد بن عبادہ ؓ ہیں جو جھنڈا تھامے ہوئے ہیں۔ تب حضرت سعد ؓ نے کہا: ابوسفیان ! آج تو گردنیں مارنے کا دن ہے۔ آج کعبہ میں کفار کا قتل جائز ہو گا۔ ابوسفیان نے کہا: اے عباس! تحفظ و حفاظت کا دن اچھا ہے۔ پھر ایک سب سے چھوٹی جماعت آئی۔ اس میں خود رسول اللہ ﷺ اور آپ کے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی تھے اور نبی ﷺ کا جھنڈا حضرت زبیر بن عوام ؓ کے ہاتھ میں تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ ابو سفیان کے قریب سے گزرے تو اس نے کہا: آپ کو معلوم نہیں کہ سعد بن عبادہ نے کیا کہا ہے؟ آپ نے پوچھا: ’’اس نے کیا کہا ہے؟‘‘ ابوسفیان نے کہا: اس نے ایسے ایسے کہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سعد نے غلط کہا ہے کیونکہ یہ تو وہ دن ہے کہ اللہ تعالٰی اس میں کعبہ کو بزرگی دے گا اور اس دن کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا۔‘‘ اس (عروہ) نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ آپ کا جھنڈا مقام حجون میں گاڑ دیا جائے۔ عروہ نے کہا: مجھے نافع بن جبیر بن مطعم نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے سنا، انہوں نے زبیر بن عوام ؓ سے کہا: ابو عبداللہ! رسول اللہ ﷺ نے آپ کو یہیں جھنڈا نصب کرنے کا حکم دیا تھا؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس دن رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو حکم دیا تھا کہ کداء کی بالائی جانب سے مکہ میں داخل ہوں اور خود نبی ﷺ کدی (کے نشیبی علاقے) کی طرف سے داخل ہوئے۔ اس دن حضرت خالد بن ولید ؓ کی فوج سے دو آدمی، یعنی حضرت حبیش بن اشعر اور کرز بن جابر فہری ؓ شہید ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔مرالظہران مکہ سے مدینہ کے راستے پر تقریباً 25 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔آج کل اسے وادی فاطمہ کہتے ہیں۔2۔رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کو مرعوب کرنے کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو الگ الگ آگ جلانے کا حکم دیا تاکہ نفری کی کثرت کا اظہار ہو۔عرفات میں حجاج کی عادت تھی کہ ہر ایک اپنی ضرورت کے مطابق آگ سلگاتاتھا، اس لیے ابوسفیان نے اسے میدان عرفات کی آگ سے تشبیہ دی۔3۔جب خالد بن ولید ؓ فوجی دستے کے ہمراہ مکے میں داخل ہوئے تو صفوان بن امیہ اور سہیل بن عمرو نے کچھ آدمیوں کے ہمراہ مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔اس معمولی سی جھڑپ میں بارہ،تیرہ کافرمارے گئے اور دو مسلمان بھی شہید ہوئے جن کا حدیث کے آخر میں ذکر ہے۔ 4۔حرم کعبہ جائے امن ہونے کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے چند سرکش مرد اور عورتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:*۔عبدالعزی بن خطل:۔یہ کعبہ کے غلاف میں چھپاہواتھا۔،اسے وہیں قتل کردیا گیا۔عبداللہ بن سعد بن ابوسرح:۔مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوگیا۔حضرت عثمان ؓ کی سفارش سے اس کی جان بخشی ہوئی۔*۔عکرمہ بن ابو جہل:۔یمن کی طرف بھاگ گیا۔اس کی بیوی لے کرآئی۔پھر وہ اپنی بیوی کے ہمراہ مسلمان ہوگیا۔*۔حویرث بن نقید۔رسول اللہ ﷺ کو مکے میں سخت تکلیف پہنچاتا تھا۔اسے فتح مکہ کے وقت قتل کردیا گیا۔*۔مقیس بن صبابہ۔اس نے اسلام قبول کرلیا ،پھر مرتد ہوگیا اور نمیلہ بن عبداللہ نے فتح مکہ کے وقت اسے قتل کردیا۔*۔ہبار بن اسود۔اس نے سیدہ زینب ؓ کو ہجرت کے وقت سخت تکلیف دی لیکن اسلام قبول کرکے اپنی جان بچائی۔*۔حارث بن طلاطل خزاعی۔اسے حضرت علی ؓ نے مکے میں قتل کیا۔*۔کعب بن زہیر اور وحشی بن حرب کو بھی قتل کردینے کا حکم تھا لیکن یہ دونوں مسلمان ہوگئے۔*۔ابن خطل کی دولونڈیاں تھی جن میں سے ایک مسلمان ہوگئی۔دوسری قتل کردی گئی۔*۔سارہ جو حضرت حاطب ؓ کا خط لے کر مکہ جارہی تھی۔یہ لونڈی مسلمان ہوگئی،اس لیے قتل ہونے سے بچ گئی۔*۔ام سعد کو فتح مکہ کے وقت قتل کردیا گیا تھا۔ اس طرح یہ تیرہ افراد تھے جنھیں قتل کرنے کاحکم دیا گیاتھا۔(فتح الباری:15/8۔)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو اسا مہ نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے لیے روانہ ہوئے تو قریش کو اس کی خبر مل گئی تھی۔ چنانچہ ابو سفیان بن حرب‘ حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاءنبی کریم ﷺ کے بارے میں معلومات کے لیے مکہ سے نکلے۔ یہ لوگ چلتے چلتے مقام مر الظہران پر جب پہنچے تو انہیں جگہ جگہ آگ جلتی ہوئی دکھائی دی ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مقام عرفات کی آگ ہے ۔ ابو سفیان نے کہا یہ آگ کیسی ہے ؟ یہ عرفات کی آگ کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ اس پر بدیل بن ورقاءنے کہا کہ یہ بنی عمرو (یعنی قباءکے قبیلے) کی آگ ہے۔ ابو سفیان نے کہا کہ بنی عمرو کی تعداد اس سے بہت کم ہے۔ اتنے میں حضور ﷺ کے محافظ دستے نے انہیں دیکھ لیا اور ان کو پکڑ کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لائے‘ پھر ابو سفیان ؓ نے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد جب آنحضرت ﷺ آگے (مکہ کی طرف) بڑھے تو عباس ؓ سے فرمایا کہ ابو سفیان ؓ کو ایسی جگہ پر روکے رکھو جہاں گھوڑوں کا جاتے وقت ہجوم ہو تاکہ وہ مسلمانوں کی فوجی قوت کو دیکھ لیں۔ چنانچہ عباس ؓ انہیں ایسے ہی مقام پر روک کر کھڑے ہو گئے اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھ قبائل کے دستے ایک ایک کر کے ابو سفیان ؓ کے سامنے سے گزر نے لگے ۔ ایک دستہ گزر اتو انہوں نے پوچھا ‘ عباس ! یہ کون ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ قبیلہ غفار ہے۔ ابو سفیان ؓ نے کہا کہ مجھے غفار سے کیا سروکار‘ پھر قبیلہ جہینہ گزرا تو ان کے متعلق بھی انہوں نے یہی کہا‘ قبیلہ سلیم گزرا تو ان کے متعلق بھی یہی کہا۔ آخر ایک دستہ سامنے آیا۔ اس جیسا فوجی دستہ نہیں دیکھا گیا ہو گا۔ ابو سفیان ؓ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ عباس ؓ نے کہا کہ یہ انصار کا دستہ ہے۔ سعد بن عبادہ ؓ اس کے امیر ہیں اور انہیں کے ہاتھ میں (انصار کا علم ہے) سعد بن عبادہ ؓ نے کہا ابو سفیان ! آج کا دن قتل عام کادن ہے۔ آج کعبہ میں بھی لڑنا درست کردیا گیا ہے۔ ابو سفیان ؓ اس پر بولے اے عباس ! (قریش کی ہلاکت و بربادی کا دن اچھا آلگا ہے۔ پھر ایک اور دستہ آیا یہ سب سے چھوٹا دستہ تھا۔ اس میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ تھے۔ آنحضرت ﷺ کا علم زبیر بن العوام ؓ اٹھائے ہوئے تھے۔ جب حضور ﷺ ابو سفیان کے قریب سے گزرے تو انہوں نے کہا آپ کو معلوم نہیں‘ سعد بن عبادہ ؓ کیا کہہ گئے ہیں۔ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کہ انہوں نے کیا کہا ہے ؟ تو ابو سفیان ؓ نے بتایا کہ یہ یہ کہہ گئے ہیں کہ آپ قریش کا کام تمام کردیں گے۔ (سب کو قتل کر ڈالیں گے۔) حضور ﷺ نے فرمایا کہ سعد ؓ نے غلط کہا ہے بلکہ آج کا دن وہ ہے جس میں اللہ کعبہ کی عظمت اور زیادہ کر دے گا۔ آج کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا۔ عروہ نے بیان کیا پھرحضور ﷺ نے حکم دیا کہ آپ کا علم مقام جحون میں گاڑ دیا جائے۔ عروہ نے بیان کیا اور مجھے نافع بن جبیر بن مطعم نے خبر دی‘ کہا کہ میں نے عباس ؓ سے سنا‘ انہوں نے زبیر بن عوام ؓ سے کہا (فتح مکہ کے بعد) کہ حضور ﷺ نے ان کو یہیں جھنڈا گاڑ نے کے لیے حکم فرمایا تھا۔ راوی نے بیان کیا کہ اس دن حضور ﷺ نے خالد بن ولید ؓ کو حکم دیا تھا کہ مکہ کے بالائی علاقہ کداءکی طرف سے داخل ہوں اور خود حضور اکرم ﷺ کدا (نشیبی علاقہ) کی طرف سے داخل ہوئے۔ اس دن خالد ؓ کے دستہ کے دو صحابی‘ حبیش بن اشعر اور کرز بن جابر فہری شہید ہوئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں مر الظہران ایک مقام کا نام ہے مکہ سے ایک منزل کی دوری پرواقع ہے۔ اب اس کو وادی فاطمہ کہتے ہیں۔ عرفات میں حاجیوں کی عادت تھی کہ ہر ایک آگ سلگا تا ۔ کہتے ہیں آنحضرت ﷺ نے صحابہ ؓ کو الگ الگ جلانے کا حکم فرما یا ۔ چنانچہ ہزاروں جگہ آ گ روشن کی گئی ۔ روایت کے آ خر میں لفظ حبذا یوم الذمار کا ترجمہ بعضوں نے یوں کیا ہے ۔ ”وہ دن اچھا ہے جب تم کو مجھے بچانا چاہیے۔“ کہتے ہیں آنحضرت ﷺ سامنے سے گزرے تو ابو سفیان ؓ نے آپ کو قسم دے کر پوچھا کیا آپ نے اپنی قوم کے قتل کرنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ ابو سفیان ؓ نے سعد بن عبادہ ؓ کا کہنا بیان کیا۔ آپ نے فرمایا نہیں آج تو رحمت اور کرم کا دن ہے۔ آج اللہ قریش کو عزت دے گا اور سعد ؓ سے جھنڈا لے کر ان کی بجائے قیس کو دیا ۔ فتح مکہ کے دن علم نبوی مقام جحون میں گاڑا گیا تھا ۔ کدآ بالمد اور کدا بالقصر دونوں مقاموں کے نام ہیں ۔ پہلا مقام مکہ کے بالائی جانب میں ہے اور دوسرا نشیبی جانب میں۔ جب خالد بن ولید ؓ فوج کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے تو صفوان بن امیہ اور سہیل بن عمرو نے کچھ آدمیوں کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ کافر12-13 مارے گئے اور مسلمان دو شہید ہوئے۔ روایت میں مذکور شدہ حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب ؓ ہیں جو رسول کریم ﷺ کے چچیرے بھائی ہوتے ہیں۔ یہ شاعر بھی تھے اور ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی ہجو میں انہوں نے ایک قصیدہ کہا تھا ، جس کا جواب حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بڑے شاندار شعروں میں دیا تھا۔ فتح کے دن اسلام لانے کا ارادہ کر رہے تھے مگر پچھلے حالات یاد کر کے شرم کے مارے سر نہیں اٹھارہے تھے آخر حضرت علی ؓ نے کہا کہ آپ آنحضرت ﷺ کے منہ مبارک کی طرف منہ کرکے وہ الفاظ کہہ دیجئے جو حضرت یوسف ؑ کے سامنے ان کے خطا کار بھائیوں نے کہے تھے۔ ﴿ قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِنْ كُنَّا لَخَاطِئِينَ﴾(یوسف:91)یعنی اللہ کی قسم ! آپ کو اللہ نے ہمارے اوپر بڑی فضیلت بخشی اور ہم بلا شک خطا کار ہیں۔ آپ یہ الفاظ کہیں گے تو رسول کریم ﷺ کے الفاظ بھی جواب میں وہی ہوں گے جو حضرت یوسف ؑ کے تھے۔ ﴿قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ﴾(یوسف:92)اے بھائیو! آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ اللہ تم کو بخشے وہ بہت بڑا رحم کرنے والا ہے۔ آخر مسلمان ہوئے اور اچھا پر خلوص اسلام لائے۔ آخر عمر میں حج کر رہے تھے جب حجام نے سر مونڈا تو سر میں ایک رسولی تھی اسے بھی کاٹ دیا یہی ان کی موت کا سبب ہوا ۔ سنہ20 ھ میں وفات پائی۔ حضرت فاروق ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hisham's father (RA) : When Allah's Apostle (ﷺ) set out (towards Makkah) during the year of the Conquest (of Makkah) and this news reached (the infidels of Quraish), Abu Sufyan (RA) , Hakim bin Hizam and Budail bin Warqa came out to gather information about Allah's Apostle (ﷺ) , They proceeded on their way till they reached a place called Marr-az-Zahran (which is near Makkah). Behold! There they saw many fires as if they were the fires of Arafat. Abu Sufyan (RA) said, "What is this? It looked like the fires of Arafat." Budail bin Warqa' said, "Banu 'Amr are less in number than that." Some of the guards of Allah's Apostle (ﷺ) saw them and took them over, caught them and brought them to Allah's Apostle. Abu Sufyan (RA) embraced Islam. When the Prophet (ﷺ) proceeded, he said to Al-Abbas, "Keep Abu Sufyan (RA) standing at the top of the mountain so that he would look at the Muslims. So Al-'Abbas kept him standing (at that place) and the tribes with the Prophet (ﷺ) started passing in front of Abu Sufyan (RA) in military batches. A batch passed and Abu Sufyan (RA) said, "O 'Abbas Who are these?" 'Abbas said, "They are (Banu) Ghifar." Abu Sufyan (RA) said, I have got nothing to do with Ghifar." Then (a batch of the tribe of) Juhaina passed by and he said similarly as above. Then (a batch of the tribe of) Sad bin Huzaim passed by and he said similarly as above. then (Banu) Sulaim passed by and he said similarly as above. Then came a batch, the like of which Abu Sufyan (RA) had not seen. He said, "Who are these?" Abbas said, "They are the Ansar headed by Sad bin Ubadah, the one holding the flag." Sad bin Ubadah said, "O Abu Sufyan (RA) ! Today is the day of a great battle and today (what is prohibited in) the Ka’bah will be permissible." Abu Sufyan (RA) said., "O 'Abbas! How excellent the day of destruction is! "Then came another batch (of warriors) which was the smallest of all the batches, and in it there was Allah's Apostle (ﷺ) and his companions and the flag of the Prophet (ﷺ) was carried by Az-Zubair bin Al Awwam. When Allah's Apostle (ﷺ) passed by Abu Sufyan (RA) , the latter said, (to the Prophet), "Do you know what Sad bin 'Ubadah said?" The Prophet (ﷺ) said, "What did he say?" Abu Sufyan (RA) said, "He said so-and-so." The Prophet (ﷺ) said, "Sad told a lie, but today Allah will give superiority to the Ka’bah and today the Ka’bah will be covered with a (cloth) covering." Allah's Apostle (ﷺ) ordered that his flag be fixed at Al-Hajun. Narrated 'Urwa (RA) : Nafi bin Jubair bin Mut'im said, "I heard Al-Abbas saying to Az-Zubair bin Al-'Awwam, 'O Abu 'Abdullah ! Did Allah's Apostle (ﷺ) order you to fix the flag here?' " Allah's Apostle (ﷺ) ordered Khalid bin Al-Walid to enter Makkah from its upper part from Ka'da while the Prophet (ﷺ) himself entered from Kuda. Two men from the cavalry of Khalid bin Al-Wahd named Hubaish bin Al-Ash'ar and Kurz bin Jabir Al-Fihri were martyred on that day.