Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The delegation of Taiy)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4394.
حضرت عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم وفد کی صورت میں حضرت عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے ایک ایک آدمی کا نام لے کر اپنے پاس بلایا۔ میں نے عرض کی: اے امیر المومنین! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: کیوں نہیں، خوب پہچانتا ہوں۔ جب لوگوں نے کفر کیا تو تم نے اسلام قبول کیا۔ جب انہوں نے پیٹھ پھیری تو تم سامنے آئے تھے۔ جب انہوں نے غداری کی تو تم نے عہد اسلام کو نبھایا اور جب انہوں نے اسلام کو اجنبی خیال کیا تو تم نے اسے سینے سے لگایا۔ حضرت عدی ؓ نے کہا: اب مجھے کوئی پروا نہیں۔
تشریح:
ایک روایت کے مطابق حضرت عمر ؓ نے حضرت عدی ؓ سے کہا کہ پہلا پہلا صدقہ جس سے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ کے چہرے جگمگا اُٹھے وہ قبیلہ طے کے صدقات تھے جسے آپ لے کر آئے تھے۔ اسے امام مسلم ؒ نے بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6449(2523)) امام ترمذی ؒ کی روایت کے مطابق حضرت عدی بن حاتم ؓ کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ ﷺ کے پاس مسجد میں حاضر ہوا توآپ نے فرمایا:"یہ عدی بن حاتم ہے۔"اس سے پہلے آپ نے کہاتھا:"مجھے اللہ سے اُمید ہے کہ وہ اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے گا۔'' (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث:2953۔ و فتح الباري:129/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4208
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4394
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4394
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4394
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جلیل القدر صحابی ہیں۔ان کا والد حاتم طائی سخاوت میں بہت مشہور تھا۔حضرت عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شکار کرنے کا بہت شوق تھا۔وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شکار کرکے لاتے اورآپ وہ شکار کھایا کرتے تھے۔آپ نو ہجری ماہ شعبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار حضرت عدی کی بہن کو گرفتار کرکے لائے تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:میرا والد ہلاک ہوگیا ہے اور میراوافد(ایلچی اور قاصد) غائب ہوگیا ہے،آپ مجھ پر احسان فرمائیں،اللہ تعالیٰ آپ پر احسان فرمائے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آزاد کردیا اور پوچھا کہ تمہارا وافد کون ہے؟اس نے کہا:عدی بن حاتم۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔آپ نے فرمایا:"وہی جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھاگ نکلا ہے۔جب وہ عدی کے پاس گئی تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کا اشارہ دیاجسے اس نے قبول کرلیا،چنانچہ عدی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔( فتح الباری 129/8۔)
حضرت عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم وفد کی صورت میں حضرت عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے ایک ایک آدمی کا نام لے کر اپنے پاس بلایا۔ میں نے عرض کی: اے امیر المومنین! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: کیوں نہیں، خوب پہچانتا ہوں۔ جب لوگوں نے کفر کیا تو تم نے اسلام قبول کیا۔ جب انہوں نے پیٹھ پھیری تو تم سامنے آئے تھے۔ جب انہوں نے غداری کی تو تم نے عہد اسلام کو نبھایا اور جب انہوں نے اسلام کو اجنبی خیال کیا تو تم نے اسے سینے سے لگایا۔ حضرت عدی ؓ نے کہا: اب مجھے کوئی پروا نہیں۔
حدیث حاشیہ:
ایک روایت کے مطابق حضرت عمر ؓ نے حضرت عدی ؓ سے کہا کہ پہلا پہلا صدقہ جس سے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ کے چہرے جگمگا اُٹھے وہ قبیلہ طے کے صدقات تھے جسے آپ لے کر آئے تھے۔ اسے امام مسلم ؒ نے بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6449(2523)) امام ترمذی ؒ کی روایت کے مطابق حضرت عدی بن حاتم ؓ کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ ﷺ کے پاس مسجد میں حاضر ہوا توآپ نے فرمایا:"یہ عدی بن حاتم ہے۔"اس سے پہلے آپ نے کہاتھا:"مجھے اللہ سے اُمید ہے کہ وہ اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے گا۔'' (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث:2953۔ و فتح الباري:129/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد الملک بن عمیر نے بیان کیا، ان سے عمروبن حریث نے اور ان سے عدی بن حاتم ؓ نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر ؓ کی خدمت میں (ان کی دور خلافت میں) ایک وفد کی شکل میں آئے۔ وہ ایک ایک شخص کو نام لے لے کر بلاتے جاتے تھے میں نے ان سے کہا کیا آپ مجھے پہچانتے نہیں؟ اے امیر المومنین! فرمایا کیا تمہیں بھی نہیں پہچانوں گا، تم اس وقت اسلام لائے جب یہ سب کفر پر قائم تھے۔ تم نے اس وقت توجہ کی جب یہ سب منہ موڑ رہے تھے۔ تم نے اس وقت وفا کی جب یہ سب بے وفائی کر رہے تھے اور اس وقت پہچانا جب ان سب نے انکا ر کیا تھا۔ عدی ؓ نے کہا بس اب مجھے کوئی پرواہ نہیں۔
حدیث حاشیہ:
عدی بن حاتم ؓ قبیلہ طے میں سے تھے۔ ان کے باپ وہی حاتم طائی ہیں جن کا نام سخاوت میں مشہور عالم ہے۔ حضرت عمر ؓ سے عد ی ؓ نے اپنا تعارف کرایا جس کا جواب حضرت عمرؓ نے وہ دیا جو روایت میں مذکور ہے۔ اس پر عدی ؓ نے کہا کہ جب آپ میرا حال جانتے ہیں اور میری قدر پہچانتے ہیں تو اب مجھ کو کوئی اس کا رنج نہیں ہے کہ پہلے اور لوگوں کو بلایا مجھ کو نہیں بلایا۔ عدی بن حاتم ؓ پہلے نصرانی تھے، ان کی بہن کو آنحضرت ﷺ کے سوار پکڑ لائے۔ آپ نے ان کو خاندانی اعزاز کی بنا پر مفت آزاد کر دیا۔ اس کے بعد بہن کے کہنے پر عدی بن حا تم ؓ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔ حضرت حافظ ابن حجر ؒ نے عدی بن حاتم کا نسب نامہ سبا تک پہنچایا ہے جو کسی زمانہ میں یمن کی ملکہ تھی۔ آگے حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ وَأَخْرَجَ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَتَيْتُ عُمَرَ فَقَالَ إِنَّ أَوَّلَ صَدَقَةٍ بَيَّضَتْ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُجُوهَ أَصْحَابِهِ صَدَقَةُ طَيء جِئْتُ بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزَادَ أَحْمَدُ فِي أَوَّلِهِ أَتَيْتُ عُمَرَ فِي أُنَاسٍ مِنْ قَوْمِي فَجَعَلَ يُعْرِضُ عَنِّي فَاسْتَقْبَلْتُهُ فَقُلْتُ أَتَعْرِفُنِي فَذَكَرَ نَحْوَ مَا أَوْرَدَهُ الْبُخَارِيُّ وَنَحْوَ مَا أَوْرَدَهُ مُسْلِمٌ جَمِيعًا(فتح)یعنی حضرت عمر ؓ نے فرمایاکہ سب سے پہلا صدقہ جسے دیکھ کر آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگ گیا وہ قبیلہ طے کا پیش کردہ تھا جسے میں خود لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوا تھا۔ امام احمد نے اس کے اول میں یہ زیادہ کیا ہے کہ میں اپنی قوم میں حضرت عمر ؓ کے پاس آیا تو آپ نے مجھ سے منہ پھیر لیا پھر میں آپ کے سامنے ہوگیا۔ اور میں نے وہ کہا جو روایت میں مذکو ر ہے۔ جسے بخاری اور مسلم ہردو نے وارد کیا ہے۔ حضرت عمر ؓ کا منہ پھیر نا صرف اس لیے تھا کہ یہ حضرت تو میرے جانے پہچانے ہیں۔ اس وقت نوواردوں کی طرف توجہ ضروری ہے۔ اس سے حضرت عدی بن حاتم ؓ کی حضرت عمر ؓ کی نگاہوں میں بڑی وقعت ثابت ہوئی۔ رضي اللہ عنهم أجمعین۔ حضرت عدی بن حاتم شعبان 7ھ میں خدمت نبوی میں آئے اور بعد میں کوفہ میں سکونت اختیار کی۔ جنگ جمل میں حضرت علی ؓ کے ساتھ تھے۔ 67ھ میں کو فہ میں بعمر ایک سو بیس سال انتقال فرمایا۔ ان کا باپ حاتم طائی سخاوت کے لیے مشہور زمانہ گذرا ہے۔ لفظ طائی قبیلہ طے کی نسبت ہے۔
خاتمہ: بعونہ تعالی پچھلے سال سری نگر میں 1972۔ 8۔25 کو اس پارے کی تسوید کے لیے قلم ہاتھ میں لیا تھا سا ل بھر سفرو حضر میں اس خدمت کو انجام دیا گیا اور آج غریب خانہ پر قیام کی حالت میں اس کی تسوید کا کام مکمل کررہا ہوں۔ بلا مبالغہ ترجمہ ومتن وتشریحا ت کو بڑے غور و فکر کے بعد قید کتابت میں لایا گیا ہے۔ اور بعد میں بکرات ومرات ان پر نظر ڈالی گئی ہے پھر بھی سہو اور لغزش کاامکان ہے جس کے لیے میں علماءفن وماہرین کی طرف سے اصلاح کے لیے بصد شکریہ منتظرر رہوں گا۔ قارئین کرام وہمدردان عظام سے بصد ادب گذارش ہے کہ وہ بوقت مطالعہ مجھ نا چیز کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں تاکہ یہ خدمت مکمل ہوسکے جو میری زندگی کا مقصد وحید ہے۔ جسے میں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ جن حضرات کی ہمدردیاں اور دعائیں میرے شامل حال ہیں، ان سب کا بہت بہت مشکور ہوں اوران سب کے لیے دعا گوہوں کہ اللہ پاک اپنے حبیب ﷺ کے پاکیزہ کلام کی برکت سے ہم سب کو دونوں جہانوں کی بر کتوں سے نوازے ۔ خاص طور پر اس دنیا سے جانے کے بعد اس صدقہ جاریہ کو ہم سب کے لیے باعث نجات بنائے اور قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کی شفاعت کبری ہم سب کو نصیب کرے۔ یا اللہ ! جس طرح یہاں تک تونے مجھکو پہنچایا ہے۔ اسی طرح سے آخر تک تو ہم کو اس خدمت کی تکمیل کی توفیق دی جیو اور قلم کو لغزش سے بچائیو کہ سب کچھ تیرے ہی اختیار میں ہے۔ وما توفیقي إلا باللہ العلي العظیم وصلی اللہ علی خیر خلقه محمد و علی آله وأصحابه أجمعین برحمتك یا أرحم الراحمین خادم حدیث نبوی محمد داؤد راز ولد عبداللہ السلفی موضع رہپوہ ڈاک خانہ پنگواں ضلع گوڑ گاؤں (ہریانہ) (30-12-73)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Adi bin Hatim (RA) : We came to 'Umar in a delegation (during his rule). He started calling the men one by one, calling each by his name. (As he did not call me early) I said to him. "Don't you know me, O chief of the Believers?" He said, "Yes, you embraced Islam when they (i.e. your people) disbelieved; you have come (to the Truth) when they ran away; you fulfilled your promises when they broke theirs; and you recognized it (i.e. the Truth of Islam) when they denied it." On that, 'Adi said, "I therefore don't care."