Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: To pay Zakat is a part of Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ پاک نے فرمایا : ’’حالانکہ ان کافروں کو یہی حکم دیا گیا کہ خالص اللہ ہی کی بندگی کی نیت سے ایک طرف ہو کر اسی اللہ کی عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی پختہ دین ہے۔‘‘
46.
حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ کا بیان ہے کہ اہل نجد سے ایک شخص پراگندہ مو (بال) رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ ہم اس کی آواز کی گنگناہٹ سن رہے تھے مگر یہ نہ سمجھتے تھے کہ کیا کہتا ہے تا آنکہ وہ نزدیک آ پہنچا۔ تب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے متعلق پوچھ رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دن رات میں پانچ نمازیں ہیں۔‘‘ اس نے کہا: ان کے علاوہ (بھی) مجھ پر کوئی نماز فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے پڑھے۔‘‘ (پھر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘ اس نے عرض کیا: اور تو کوئی روزہ مجھ پر فرض نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے رکھے۔‘‘ حضرت طلحہؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اس سے زکاۃ کا بھی ذکر کیا۔ اس نے کہا: مجھ پر اس کے علاوہ (کوئی اور صدقہ بھی) فرض ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے دے۔‘‘ حضرت طلحہؓ نے کہا: پھر وہ شخص یہ کہتا ہوا پیچھے ہٹا، اللہ کی قسم! میں اس سے زیادہ یا کم نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ سچ کہہ رہا ہے تو کامیاب ہو گیا۔‘‘
تشریح:
1۔ جن اعمال سے ایمان کی کمی بیشی کا تعلق ہے وہ دو طرح کے ہیں: بدنی، مالی۔ اب تک امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بدنی اعمال کا ذکر فرمایا ہے اور اب مالی اعمال کا ذکر فرما رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے عنوان قائم کیا ہے’’زکاۃ، اسلام کا حصہ(رکن) ہے۔‘‘ ترجمۃ الباب میں مذکور آیت کریمہ میں نماز کا بھی ذکر ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صرف زکاۃ کے متعلق عنوان قائم کیا ہے کیونکہ آیت کے دوسرے اجزاء کے متعلق پہلے تراجم قائم کرچکے ہیں۔ جب آیت کریمہ سے زکاۃ، دین کا حصہ معلوم ہوئی تو اسلام اور ایمان کا حصہ خود بخود ثابت ہوگئی۔ 2۔ اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو ایمان کی نشوونما کے لیے اعمال کی ضرورت کے قائل نہیں ہیں جبکہ حدیث میں اخروی فلاح کا مدار اس بات کو بتایا گیا ہے کہ اس میں بیان کردہ اعمال وفرائض میں کمی نہ کی جائے۔ ( عمدۃ القاری 396/1 ) 3۔ اس روایت میں اقرار شہادتین کا ذکر نہیں ہے۔ اس کی چند ایک وجوہات ہیں: (الف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم تھا کہ یہ مسلمان ہے اور دخول اسلام کے لیے اقرارشہادتین ضروری ہیں۔ (ب) ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ذکر کیا ہو لیکن شہرت کی بنا پر راوی نے اسے بیان نہ کیا ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شرائع اسلام کے متعلق بتایا۔ (فتح الباري: 143/1) 4۔ حدیث میں ہے کہ سائل پراگندہ بالوں کی صورت میں حاضرخدمت ہوا۔ اس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ طالب علم کی عادات واطوار میں سادگی ہونی چاہیے۔ اسے بناؤسنگھار میں وقت ضائع نہیں کرناچاہیے۔ اس کے اندر حصول علم کی ایک دھن ہو۔ اس کے علاوہ اور کسی چیز کی اسے خبر نہ ہو۔ 5۔ دینی معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرنا پھر اہل علم کے حضور زانوئےتلمذ تہ کرنا ایک پسندیدہ عادت ہے۔ ایک طالب علم کے لیے حصول علم کی خاطر اپنا شہر چھوڑنا باعث برکت ہے۔ (عمدۃالقاری 395/1 )
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
46
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
46
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
46
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
46
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
اللہ تعالیٰ نے جس ملت کو مستقیم قراردیا ہے وہ یہی دین ہے جس میں زکاۃ بھی شامل ہے۔اس سے ایک تو مرجیہ کی تردید ہوگئی جو ایمان کے بعد اعمال کی کوئی حیثیت نہیں دیتے۔دوسری طرف اعمال کے جز وایمان ہونے کامسئلہ بھی واضح ہوگیا کیونکہ جب ایمان واسلام میں اتحاد ہے تو ایک چیز جب اسلام کا جز بنتی ہے تو لامحالہ وہ ایمان کا بھی جز ہوگی۔وھو المقصود۔
اور اللہ پاک نے فرمایا : ’’حالانکہ ان کافروں کو یہی حکم دیا گیا کہ خالص اللہ ہی کی بندگی کی نیت سے ایک طرف ہو کر اسی اللہ کی عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی پختہ دین ہے۔‘‘
حدیث ترجمہ:
حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ کا بیان ہے کہ اہل نجد سے ایک شخص پراگندہ مو (بال) رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ ہم اس کی آواز کی گنگناہٹ سن رہے تھے مگر یہ نہ سمجھتے تھے کہ کیا کہتا ہے تا آنکہ وہ نزدیک آ پہنچا۔ تب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے متعلق پوچھ رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دن رات میں پانچ نمازیں ہیں۔‘‘ اس نے کہا: ان کے علاوہ (بھی) مجھ پر کوئی نماز فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے پڑھے۔‘‘ (پھر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘ اس نے عرض کیا: اور تو کوئی روزہ مجھ پر فرض نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے رکھے۔‘‘ حضرت طلحہؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اس سے زکاۃ کا بھی ذکر کیا۔ اس نے کہا: مجھ پر اس کے علاوہ (کوئی اور صدقہ بھی) فرض ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے دے۔‘‘ حضرت طلحہؓ نے کہا: پھر وہ شخص یہ کہتا ہوا پیچھے ہٹا، اللہ کی قسم! میں اس سے زیادہ یا کم نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ سچ کہہ رہا ہے تو کامیاب ہو گیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ جن اعمال سے ایمان کی کمی بیشی کا تعلق ہے وہ دو طرح کے ہیں: بدنی، مالی۔ اب تک امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بدنی اعمال کا ذکر فرمایا ہے اور اب مالی اعمال کا ذکر فرما رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے عنوان قائم کیا ہے’’زکاۃ، اسلام کا حصہ(رکن) ہے۔‘‘ ترجمۃ الباب میں مذکور آیت کریمہ میں نماز کا بھی ذکر ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صرف زکاۃ کے متعلق عنوان قائم کیا ہے کیونکہ آیت کے دوسرے اجزاء کے متعلق پہلے تراجم قائم کرچکے ہیں۔ جب آیت کریمہ سے زکاۃ، دین کا حصہ معلوم ہوئی تو اسلام اور ایمان کا حصہ خود بخود ثابت ہوگئی۔ 2۔ اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو ایمان کی نشوونما کے لیے اعمال کی ضرورت کے قائل نہیں ہیں جبکہ حدیث میں اخروی فلاح کا مدار اس بات کو بتایا گیا ہے کہ اس میں بیان کردہ اعمال وفرائض میں کمی نہ کی جائے۔ ( عمدۃ القاری 396/1 ) 3۔ اس روایت میں اقرار شہادتین کا ذکر نہیں ہے۔ اس کی چند ایک وجوہات ہیں: (الف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم تھا کہ یہ مسلمان ہے اور دخول اسلام کے لیے اقرارشہادتین ضروری ہیں۔ (ب) ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ذکر کیا ہو لیکن شہرت کی بنا پر راوی نے اسے بیان نہ کیا ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شرائع اسلام کے متعلق بتایا۔ (فتح الباري: 143/1) 4۔ حدیث میں ہے کہ سائل پراگندہ بالوں کی صورت میں حاضرخدمت ہوا۔ اس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ طالب علم کی عادات واطوار میں سادگی ہونی چاہیے۔ اسے بناؤسنگھار میں وقت ضائع نہیں کرناچاہیے۔ اس کے اندر حصول علم کی ایک دھن ہو۔ اس کے علاوہ اور کسی چیز کی اسے خبر نہ ہو۔ 5۔ دینی معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرنا پھر اہل علم کے حضور زانوئےتلمذ تہ کرنا ایک پسندیدہ عادت ہے۔ ایک طالب علم کے لیے حصول علم کی خاطر اپنا شہر چھوڑنا باعث برکت ہے۔ (عمدۃالقاری 395/1 )
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "انہیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ یکسو ہو کر عبادت اللہ کے لیے خاص رکھیں، نماز قائم کریں، زکاۃ دیتے رہیں، یہی مضبوط دین ہے۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک ؓ نے بیان کیا، انھوں نے اپنے چچا ابوسہیل بن مالک سے، انھوں نے اپنے باپ (مالک بن ابی عامر) سے، انھوں نے طلحہ بن عبیداللہ سے وہ کہتے تھے نجد والوں میں ایک شخص آنحضرت ﷺ کے پاس آیا، سر پریشان یعنی بال بکھرے ہوئے تھے، ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سنتے تھے اور ہم سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نزدیک آن پہنچا، جب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’اسلام دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنا ہے۔‘‘ اس نے کہا: بس اس کے سوا تو اور کوئی نماز مجھ پر نہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’نہیں مگر تو نفل پڑھے (تو اور بات ہے)‘‘ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘ اس نے کہا: اور تو کوئی روزہ مجھ پر نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں مگر تو نفل روزے رکھے۔ (تو اور بات ہے)‘‘ طلحہ ؓنے کہا اور آنحضرت ﷺ نے اس سے زکوٰۃ کا بیان کیا۔ وہ کہنے لگا کہ بس اور کوئی صدقہ مجھ پر نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں مگر یہ کہ تو نفل صدقہ دے۔ (تو اور بات ہے)‘‘ راوی نے کہا پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا۔ یوں کہتا جاتا تھا، قسم خدا کی میں نہ اس سے بڑھاؤں گا نہ گھٹاؤں گا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ سچا ہے تو اپنی مراد کو پہنچ گیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Talha bin 'Ubaidullah (RA): A man from Najd with unkempt hair came to Allah's Apostle (ﷺ) and we heard his loud voice but could not understand what he was saying, till he came near and then we came to know that he was asking about Islam. Allah's Apostle (ﷺ) said, "You have to offer prayers perfectly five times in a day and night (24 hours)." The man asked, "Is there any more (praying)?" Allah's Apostle (ﷺ) replied, "No, but if you want to offer the Nawafil prayers (you can)." Allah's Apostle (ﷺ) further said to him: "You have to observe fasts during the month of Ramadan." The man asked, "Is there any more fasting?" Allah's Apostle (ﷺ) replied, "No, but if you want to observe the Nawafil fasts (you can.)" Then Allah's Apostle (ﷺ) further said to him, "You have to pay the Zakat (obligatory charity)." The man asked, "Is there anything other than the Zakat for me to pay?" Allah's Apostle (ﷺ) replied, "No, unless you want to give alms of your own." And then that man retreated saying, "By Allah! I will neither do less nor more than this." Allah's Apostle (ﷺ) said, "If what he said is true, then he will be successful (i.e. he will be granted Paradise)."