Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: "Forbidden to you (for marriage) are: your mothers, your daughters...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نساء میں) ان کو بیان فرمایا ہے کہ ”حرام ہیں تم پر مائیں تمہاری، بیٹیاں تمہاری، بہنیں تمہاری، پھوپھیاں تمہاری، خالائیں تمہاری، بھتیجیاں تمہاری، بھانجیاں تمہاری۔ بیشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔
5105.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ”نسب سے سات عورتیں حرام ہیں اور سسرال کے زریعے بھی سات عورتیں حرام ہیں، پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ تم پر تمہاری مائیں حرام ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ سیدنا عبداللہ بن جعفر نے سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کی صاحبزادی اور ان کی بیوی دونوں سے نکاح کر کے بیک وقت اپنے پاس رکھا۔ سیدنا ابن سیرین نے کہا اس میں کوئی قباحت نہیں۔ امام حسن بصری ؓ نے ایک بار تو اسے مکروہ کہا پھر کہنے لگے اس میں چنداں حرج نہیں۔ سیدنا حسن بن حسن بن علی نے اپنے دونوں چچا کی دو بیٹیوں کو ایک ساتھ اپنے نکاح میں ایک رات جمع کیا۔ سیدنا جابر بن زید (تابعی) نے اسے مکروہ خیال کیا کیونکہ اس میں قطع رحمی کا اندیشہ ہے لیکن حرام نہیں۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: ”مذکورہ محرمات کے علاوہ باقی عورتیں تمہاری لیے حلال ہیں۔“ سیدنا ابن عباس ؓ نے کہا: سالی سے زنا کرنے سے بیوی حرام نہیں ہوتی۔ یحیی کندی، امام شعبی اور ابو جعفر سے بیان کرتے ہیں کہ جس نے کسی بچے کے ساتھ برا کام کیا تو اس کی ماں کے ساتھ نکاح نہیں کر سکتا۔ یحییٰ کندی غیر معروف آدمی ہے اور اس مسئلے میں اس کی متابعت نہیں کی گئی۔ سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اگر کسی نے ساس سے زنا کیا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی، لیکن ابو نصر نامی راوی ابن عباس سے بیان کرتے ہیں کہ بیوی حرام ہو جائے گی لیکن ابو نصرکا ابن عباس ؓ سے سماع معروف نہیں۔ البتہ عمران بن حصین، جابر بن زید ؓ حسن بصری اور بعض اہل عراق سے مروی ہے کہ بیوی اس پر حرام ہو جاتی ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: بیوی حرام نہیں ہوگی تا آنکہ اس کی ماں کو زمین سے ملا دے، یعنی اس سے جماع کرے۔ سعید بن مسیب، سیدنا عروہ اور امام زہری ؒ نے اسے (مذکورہ صورت میں بیوی کے ساتھ رہنا) جائز قرار دیا ہے۔ امام زہری سیدنا علی ؓ سے بیان کیا کہ حرام نہیں ہوتی لیکن یہ مرسل روایت ہے۔
تشریح:
(1) اس روایت کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک چیزوں کو بیان کیا ہے جنھیں ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نسب کی وجہ سے سات عورتیں حرام ہیں اور سسرال کی وجہ سے بھی سات عورتیں حرام ہیں، لیکن آیت کریمہ میں سات نسبی عورتوں کا ذکر ہے، مثلاً: ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی لیکن سسرال کی طرف سے سات عورتوں کا ذکر نہیں، البتہ رضاعت کو سسرال سے تعبیر کریں تو سات عورتیں حسب ذیل ہیں: رضاعی ماں، رضاعی بہن، ساس، ربیبہ، بہو، سالی اور شادی شدہ عورت۔ ان محرمات میں سات نسبی ہیں اور سات سببی، جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ (2) آیت کریمہ میں بیک وقت دو حقیقی بہنوں کو نکاح میں رکھنا حرام ہے لیکن حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ان دو عورتوں کو عقدِ نکاح میں جمع کیا جو ایک دوسری کے چچا کی بیٹی تھی۔ اس مراد محمد بن علی کی بیٹی اور عمر بن علی کی بیٹیاں ہیں۔ان میں سے ہر ایک دوسری کےچچا کی بیٹی ہے۔ امام مالک اسے مکروہ خیال کرتے ہیں حرام قرار نہیں دیتے۔ حضرت جابر بن زید نے مکروہ کی علت قطع رحمی بیان کی ہے۔ بہرحال ایسا کرنا حرام نہیں ہے۔ (3) اگر کسی نے سالی سے زنا کیا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی جیسا کہ جمہور ائمہ کا موقف ہے کیونکہ زنا حرام ہے اس کا اثر حلال چیز پر نہیں پڑتا، پھر شریعت میں نکاح کا اطلاق عقد پر ہوتا ہے محض وطی پر نہیں ہوتا، لیکن امام ثوری اور اہل کوفہ کا موقف ہے کہ سالی سے زنا کرنا بیوی کے حرام ہونے کا باعث ہے، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کو محل نظر قرار دیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4908
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5105
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5105
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5105
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
حضرت انس رضی اللہ عنہ قرآنی آیت کے ضمن میں: إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ کے متعلق فرمایا ہیں کہ اگر کسی نے اپنی لونڈی کسی غلام کے نکاح میں دےدی ہوتو جب چاہے اس سے واپس لے سکتا ہے لیکن جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ جب اس نے لونڈی کا نکاح کسی غلام سے کردیا ہے تو طلاق کا حق بھی اسی غلام کو ہوگا،لونڈی کا مالک اس سے چھین نہیں سکتا۔اور آیت کا محل وہ جنگی عورتیں ہیں جن کے شوہر زندہ ہوں،استبرائے رحم کے بعد ان سے مباشرت کرنا جائز ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نساء میں) ان کو بیان فرمایا ہے کہ ”حرام ہیں تم پر مائیں تمہاری، بیٹیاں تمہاری، بہنیں تمہاری، پھوپھیاں تمہاری، خالائیں تمہاری، بھتیجیاں تمہاری، بھانجیاں تمہاری۔ بیشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ”نسب سے سات عورتیں حرام ہیں اور سسرال کے زریعے بھی سات عورتیں حرام ہیں، پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ تم پر تمہاری مائیں حرام ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ سیدنا عبداللہ بن جعفر نے سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کی صاحبزادی اور ان کی بیوی دونوں سے نکاح کر کے بیک وقت اپنے پاس رکھا۔ سیدنا ابن سیرین نے کہا اس میں کوئی قباحت نہیں۔ امام حسن بصری ؓ نے ایک بار تو اسے مکروہ کہا پھر کہنے لگے اس میں چنداں حرج نہیں۔ سیدنا حسن بن حسن بن علی نے اپنے دونوں چچا کی دو بیٹیوں کو ایک ساتھ اپنے نکاح میں ایک رات جمع کیا۔ سیدنا جابر بن زید (تابعی) نے اسے مکروہ خیال کیا کیونکہ اس میں قطع رحمی کا اندیشہ ہے لیکن حرام نہیں۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: ”مذکورہ محرمات کے علاوہ باقی عورتیں تمہاری لیے حلال ہیں۔“ سیدنا ابن عباس ؓ نے کہا: سالی سے زنا کرنے سے بیوی حرام نہیں ہوتی۔ یحیی کندی، امام شعبی اور ابو جعفر سے بیان کرتے ہیں کہ جس نے کسی بچے کے ساتھ برا کام کیا تو اس کی ماں کے ساتھ نکاح نہیں کر سکتا۔ یحییٰ کندی غیر معروف آدمی ہے اور اس مسئلے میں اس کی متابعت نہیں کی گئی۔ سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اگر کسی نے ساس سے زنا کیا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی، لیکن ابو نصر نامی راوی ابن عباس سے بیان کرتے ہیں کہ بیوی حرام ہو جائے گی لیکن ابو نصرکا ابن عباس ؓ سے سماع معروف نہیں۔ البتہ عمران بن حصین، جابر بن زید ؓ حسن بصری اور بعض اہل عراق سے مروی ہے کہ بیوی اس پر حرام ہو جاتی ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: بیوی حرام نہیں ہوگی تا آنکہ اس کی ماں کو زمین سے ملا دے، یعنی اس سے جماع کرے۔ سعید بن مسیب، سیدنا عروہ اور امام زہری ؒ نے اسے (مذکورہ صورت میں بیوی کے ساتھ رہنا) جائز قرار دیا ہے۔ امام زہری سیدنا علی ؓ سے بیان کیا کہ حرام نہیں ہوتی لیکن یہ مرسل روایت ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک چیزوں کو بیان کیا ہے جنھیں ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نسب کی وجہ سے سات عورتیں حرام ہیں اور سسرال کی وجہ سے بھی سات عورتیں حرام ہیں، لیکن آیت کریمہ میں سات نسبی عورتوں کا ذکر ہے، مثلاً: ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی لیکن سسرال کی طرف سے سات عورتوں کا ذکر نہیں، البتہ رضاعت کو سسرال سے تعبیر کریں تو سات عورتیں حسب ذیل ہیں: رضاعی ماں، رضاعی بہن، ساس، ربیبہ، بہو، سالی اور شادی شدہ عورت۔ ان محرمات میں سات نسبی ہیں اور سات سببی، جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ (2) آیت کریمہ میں بیک وقت دو حقیقی بہنوں کو نکاح میں رکھنا حرام ہے لیکن حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ان دو عورتوں کو عقدِ نکاح میں جمع کیا جو ایک دوسری کے چچا کی بیٹی تھی۔ اس مراد محمد بن علی کی بیٹی اور عمر بن علی کی بیٹیاں ہیں۔ان میں سے ہر ایک دوسری کےچچا کی بیٹی ہے۔ امام مالک اسے مکروہ خیال کرتے ہیں حرام قرار نہیں دیتے۔ حضرت جابر بن زید نے مکروہ کی علت قطع رحمی بیان کی ہے۔ بہرحال ایسا کرنا حرام نہیں ہے۔ (3) اگر کسی نے سالی سے زنا کیا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی جیسا کہ جمہور ائمہ کا موقف ہے کیونکہ زنا حرام ہے اس کا اثر حلال چیز پر نہیں پڑتا، پھر شریعت میں نکاح کا اطلاق عقد پر ہوتا ہے محض وطی پر نہیں ہوتا، لیکن امام ثوری اور اہل کوفہ کا موقف ہے کہ سالی سے زنا کرنا بیوی کے حرام ہونے کا باعث ہے، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کو محل نظر قرار دیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”تم پر تمہاری بیٹیاں حرام ہیں۔ ۔ ۔ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے“
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: « وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ » سے مراد خاوند والی آزاد عورتیں ہیں وہ بھی حرام ہیں۔ « إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ»کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کی لونڈی اس کے غلام کے نکاح میں ہوتو وہ اس سے وآپس لے سکتا ہے، یعنی طلاق دلوا کر اپنی بیوی بناسکتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے یہ بھی فرمایا ہے: ”مشرک عورتیں جب تک ایمان نہ لائیں ان سے نکاح نہ کرو“ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: چار بیویوں کے ہوتے ہوئے پانچویں سے نکاح کرنا اسی طرح حرام ہے جیسا کہ اپنی ماں، بیٹی اور بہن سے نکاح کرنا حرام ہے
حدیث ترجمہ:
اور امام احمد بن حنبل نے مجھ سے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، انہوں نے سفیا ن ثوری سے، کہا مجھ سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس ؓ سے، انہوں نے کہا خون کی روسے تم پر سات رشتے حرام ہیں اور شادی کی وجہ سے (یعنی سسرال کی طرف سے) سات رشتے بھی۔ انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ﴾ آخر تک اور عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب نے علی ؓ کی صاحبزادی زینب اور علی کی بی بی (لیلٰی بنت مسعود) دونوں سے نکاح کیا، ان کو جمع کیا اور ابن سیرین نے کہا اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور امام حسن بصری نے ایک بار تو اسے مکروہ کہا پھر کہنے لگے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب نے اپنے دونوں چاچاؤں (یعنی محمد بن علی اور عمروبن علی) کی بیٹیوں کو ایک ساتھ میں نکاح میں لے لیا اور جابر بن زید تابعی نے اس کو مکروہ جانا، اس خیال سے کہ بہنوں میں جلاپا نہ پیدا ہو مگر یہ کچھ حرام نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے سوا اور سب عورتیں تم کو حلال ہیں اور عکرمہ نے ابن عباس ؓماسے روایت کیا اگر کسی نے اپنی سالی سے زنا کیا تواس کی بیوی (سالی کی بہن) اس پر حرام نہ ہوگی اور یحییٰ بن قیس کندی سے روایت ہے، انہوں نے شعبی اور جعفر سے دونوں نے کہا اگر کوئی شخص لواطت کرے اور کسی لونڈے کے دخول کردے تو اب اس کی ماں سے نکاح نہ کرے اور یحییٰ راوی مشہور شخص نہیں ہے اور نہ کسی اور نے اس کے ساتھ ہو کر یہ روایت کی ہے اور عکرمہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کی کہ اگر کسی نے اپنی ساس سے زنا کیا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہ ہو گی اور ابو نصر نے ابن عباس ؓ سے روایت کی کہ حرام ہو جائے گی اور اس راوی ابو نصر کا حال معلوم نہیں۔ اس نے ابن عباس سے سنا ہے یا نہیں (لیکن ابوزرعہ نے اسے ثقہ کہا ہے) اور عمر ان بن حصین اور جابر بن زید اور حسن بصری اور بعض عراق والوں (امام ثوری اورا م ابو حنیفہ ؓ ) کا یہی قول ہے کہ حرام ہو جائے گی اور ابو ہریرہ ؓ نے کہا حرام نہ ہوگی جب تک اس کی ماں (اپنی خوشدامن) کو زمین سے نہ لگا دے (یعنی اس سے جماع نہ کرے) اور سعید بن مسیب اور عروہ اور زہری نے اس کے متعلق کہا ہے کہ اگر کوئی ساس سے زنا کرے تب بھی اس کی بیٹی یعنی زنا کرنی والے کی بیوی اس پر حرام نہ ہوگی (اس کو رکھ سکتا ہے اور زہری نے کہا علی ؓ نے فرمایا اس کی جورو اس پر حرام نہ ہو گی اور یہ روایت منقطع ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
"Forbidden for you (for marriages) are your mothers..." (4:23). 'Abdullah bin Ja'far married the daughter and wife of 'Ali at the same time (they were step-daughter and mother). Ibn Sirin said, "There is no harm in that." But Al-Hasan Al-Basri disapproved of it at first, but then said that there was no harm in it. Al-Hasan bin Al-Hasan bin 'Ali married two of his cousins in one night. Ja'far bin Zaid disapproved of that because of it would bring hatred (between the two cousins), but it is not unlawful, as Allah said, "Lawful to you are all others [beyond those (mentioned)]. (4:24). Ibn 'Abbas said: "If somebody commits illegal sexual intercourse with his wife's sister, his wife does not become unlawful for him." And narrated Abu Ja'far, "If a person commits homosexuality with a boy, then the mother of that boy is unlawful for him to marry." Narrated Ibn 'Abbas, "If one commits illegal sexual intercourse with his mother in law, then his married relation to his wife does not become unlawful." Abu Nasr reported to have said that Ibn 'Abbas in the above case, regarded his marital relation to his wife unlawful, but Abu Nasr is not known well for hearing Hadith from Ibn 'Abbas. Imran bin Hussain, Jabir b. Zaid, Al-Hasan and some other Iraqi's, are reported to have judged that his marital relations to his wife would be unlawful. In the above case Abu Hurairah said, "The marital relation to one's wife does not become unlawful except if one as had sexual intercourse (with her mother)." Ibn Al-Musaiyab, 'Urwa, and Az-Zuhri allows such person to keep his wife. 'Ali said, "His marital relations to his wife does not become unlawful."