باب: اللہ کے اس فرمان کا بیان اور حرام ہیں تم پر تمہاری بیویوں کی لڑکیاں۔
)
Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: "....your step-daughters under your guardianship, born of your wives...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حرام ہیں تم پر تمہاری بیویوں کی لڑکیاں (وہ جو دوسرے خاوند لائیں) جن کو تم پرورش کرتے ہو جب ان بیویوں سے دخول کر چکے ہو اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ لفظ «دخول» اور «مسيس» اور «ماس» ان سب سے جماع ہی مراد ہے اور اس قول کا بیان کہ جورو کی اولاد (مثلاً پوتی یا نواسی) بھی حرام ہے کیونکہ نبی کریم ﷺنے ام حبیبہ ؓ سے فرمایا اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو مجھ پر نہ پیش کیا کرو تو بیٹیوں میں بیٹے کی بیٹی (پوتی) اور بیٹی کی بیٹی (نواسی) سب آ گئیں اور اس طرح بہوؤں میں پوت بہو (پوتے کی بیوی) اور بیٹیوں میں بیٹے کی بیٹیاں (پوتیاں) اور نواسیاں سب داخل ہیں اور جورو کی بیٹی ہر حال میں ربیبہ ہے خواہ خاوند کی پرورش میں ہو یا اور کسی کے پاس پرورش پاتی ہو، ہر طرح سے حرام اور نبی کریم ﷺ نے اپنی ربیبہ (زینب کو) جو ابوسلمہ کی بیٹی تھی ایک اور شخص (نوفل اشجعی) کو پالنے کے لیے دی اور نبی کریم ﷺ نے اپنے نواسے حسن ؓ کو اپنا بیٹا فرمایا۔اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ کی پوتی مثل اس کی بیٹی کے حرام ہے۔
5106.
سیدہ ام حبیبہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ کو سیدنا ابو سفیان ؓ کی صاحبزادی سے کوئی دلچسپی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں اسے کیا کروں گا؟“ میں نے عرض کی: آپ سے نکاح کر لیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تم اس بات کو پسند کرتی ہو؟ میں نے کہا: میں آپ کی اکیلی بیوی تو نہیں ہوں۔ مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ آپ کی زوجیت میں جو میرا شریک ہو وہ میری بہن ہو۔ آپ نے فرمایا: ”وہ تو میرے لیے حلال نہیں۔“ میں نے عرض کی: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے پیغام نکاح بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ام سلمہ کی بیٹی کو“ ؟میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (وہ میری ربیبہ ہے) اگر وہ میری ربیبہ نہ بھی ہوتی تب میرے لیے حلال نہ تھی کیونکہ ثوبیہ نے مجھے اور اس کے والد (ابو سلمہ) کو دودھ پلایا ہے۔ مجھے نکاح کے لیے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی پیش کش نہ کیا کرو۔ لیث نے کہا : ہمیں ہشام نے خبر دی کہ اس کا نام درہ بنت ام سلمہ ہے۔
تشریح:
(1) مدینہ طیبہ میں منافقین کے پروپیگنڈے سے یہ بات مشہور ہو چکی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہما نے اس پروپیگنڈے سے متأثر ہو کر یہ بات کہی کہ آپ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی دختر سے نکاح کرنا چاہتے ہیں؟ آپ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’وہ تو میرے لیے حلال ہی نہیں ہے اور اس کی دو وجوہات ہیں: ایک تو وہ ربیبہ ہے، یعنی اس کی والدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما میری بیوی ہے اور دوسری یہ کہ وہ میری رضاعی بھتیجی ہے کیونکہ مجھے اور اس کے والد ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو ثوبیہ رضی اللہ عنہما نے دودھ پلایا تھا۔‘‘ٰ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے لیث کی روایت سے ثابت کیا ہے کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی لڑکی کا نام درّہ تھا جیسا کہ آئندہ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5107) کچھ حضرات نے اس لڑکی کا نام زینب بتایا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: اس کا نام درّہ ہے زینب نہیں۔ (فتح الباری: 200/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4909
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5106
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5106
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5106
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عبارت میں تین مسائل بیان کیے ہیں:٭ دخول کی تفسیر کیا ہے؟٭ بنات الاولاد بھی بنات کے حکم میں ہیں۔٭ ربیبہ کسے کہتے ہیں؟حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے لکھا ہے کہ دخول،تغشی، افضاء، مباشرت، رفث اور لمس جماع کو کہتے ہیں۔چونکہ اللہ تعالیٰ باحیا اور کریم ہے، اس لیے جس چیز کے متعلق جیسے چاہتا ہے کنایہ کرتا ہے۔(فتح الباری: 9/198)بناتِ اولاد، یعنی پوتی اور نواسی حرمت میں بیٹی کی طرح ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہما سے فرمایا: "تم مجھے اپنی بیٹیاں اور بہنیں نکاح کے لیے نہ پیش کیا کرو۔"(صحیح البخاری، النکاح، حدیث: 5101)اس مقام پر پوتی اور نواسی بھی بیٹی کے حکم میں ہے،نیز ربیبہ بیوی کی اس بیٹی کو کہتے ہیں جو اس کے پہلے خاوند سے ہو،خواہ وہ دوسرے خاوند کی پرورش میں نہ ہو۔مذکورہ آیت کریمہ میں (حجوركم) کا خطاب عادت اور غلبےکے طور پر ہے،مفہوم مخالف مراد نہیں ہے۔دوسرے الفاظ میں یہ قید اتفاقی ہے احترازی نہیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ مفہوم مخالف کے طور پر بیوی کی اس بیٹی سے نکاح جائز کہتے ہیں جو اس کے زیر پرورش نہ ہو اگرچہ اس سے دخول کرچکا ہو جیسا کہ مصنف عبدالرزاق میں ان کا فتویٰ مذکور ہے۔(المصنف لعبدالرزاق: 6/278، رقم: 10834) لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کی لڑکی کا زیر پرورش ہونا حرمت کے لیے شرط نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت ام سلمہ کو نوفل اشجعی رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیا تاکہ وہ اس کے دودھ کا بندوبست کرے،چنانچہ وہ زینب کو اپنے ساتھ لے گیا،پھر جب واپس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حال پوچھا۔ اس نے کہا: وہ اپنی رضاعی ماں کے پاس ہے۔(المستدرک للحاکم: 1/565/1، رقم: 2077)اس سے معلوم ہوا کہ ربیبہ کی حرمت کے لیے اس کا گود میں ہونا ضروری نہیں ہے۔(فتح الباری: 9/199)
اور حرام ہیں تم پر تمہاری بیویوں کی لڑکیاں (وہ جو دوسرے خاوند لائیں) جن کو تم پرورش کرتے ہو جب ان بیویوں سے دخول کر چکے ہو اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ لفظ «دخول» اور «مسيس» اور «ماس» ان سب سے جماع ہی مراد ہے اور اس قول کا بیان کہ جورو کی اولاد (مثلاً پوتی یا نواسی) بھی حرام ہے کیونکہ نبی کریم ﷺنے ام حبیبہ ؓ سے فرمایا اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو مجھ پر نہ پیش کیا کرو تو بیٹیوں میں بیٹے کی بیٹی (پوتی) اور بیٹی کی بیٹی (نواسی) سب آ گئیں اور اس طرح بہوؤں میں پوت بہو (پوتے کی بیوی) اور بیٹیوں میں بیٹے کی بیٹیاں (پوتیاں) اور نواسیاں سب داخل ہیں اور جورو کی بیٹی ہر حال میں ربیبہ ہے خواہ خاوند کی پرورش میں ہو یا اور کسی کے پاس پرورش پاتی ہو، ہر طرح سے حرام اور نبی کریم ﷺ نے اپنی ربیبہ (زینب کو) جو ابوسلمہ کی بیٹی تھی ایک اور شخص (نوفل اشجعی) کو پالنے کے لیے دی اور نبی کریم ﷺ نے اپنے نواسے حسن ؓ کو اپنا بیٹا فرمایا۔اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ کی پوتی مثل اس کی بیٹی کے حرام ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدہ ام حبیبہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ کو سیدنا ابو سفیان ؓ کی صاحبزادی سے کوئی دلچسپی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں اسے کیا کروں گا؟“ میں نے عرض کی: آپ سے نکاح کر لیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تم اس بات کو پسند کرتی ہو؟ میں نے کہا: میں آپ کی اکیلی بیوی تو نہیں ہوں۔ مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ آپ کی زوجیت میں جو میرا شریک ہو وہ میری بہن ہو۔ آپ نے فرمایا: ”وہ تو میرے لیے حلال نہیں۔“ میں نے عرض کی: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے پیغام نکاح بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ام سلمہ کی بیٹی کو“ ؟میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (وہ میری ربیبہ ہے) اگر وہ میری ربیبہ نہ بھی ہوتی تب میرے لیے حلال نہ تھی کیونکہ ثوبیہ نے مجھے اور اس کے والد (ابو سلمہ) کو دودھ پلایا ہے۔ مجھے نکاح کے لیے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی پیش کش نہ کیا کرو۔ لیث نے کہا : ہمیں ہشام نے خبر دی کہ اس کا نام درہ بنت ام سلمہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) مدینہ طیبہ میں منافقین کے پروپیگنڈے سے یہ بات مشہور ہو چکی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہما نے اس پروپیگنڈے سے متأثر ہو کر یہ بات کہی کہ آپ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی دختر سے نکاح کرنا چاہتے ہیں؟ آپ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’وہ تو میرے لیے حلال ہی نہیں ہے اور اس کی دو وجوہات ہیں: ایک تو وہ ربیبہ ہے، یعنی اس کی والدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما میری بیوی ہے اور دوسری یہ کہ وہ میری رضاعی بھتیجی ہے کیونکہ مجھے اور اس کے والد ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو ثوبیہ رضی اللہ عنہما نے دودھ پلایا تھا۔‘‘ٰ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے لیث کی روایت سے ثابت کیا ہے کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی لڑکی کا نام درّہ تھا جیسا کہ آئندہ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5107) کچھ حضرات نے اس لڑکی کا نام زینب بتایا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: اس کا نام درّہ ہے زینب نہیں۔ (فتح الباری: 200/6)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباسؓ نے کہا: دخول، مسیس اور لماس سے مراد جماع ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ بیوی کی اولاد کی بیٹیاں بھی حرمت میں بیٹیوں جیسی ہیں کیونکہ نبیﷺنے سیدہ ام حبیبہ ؓ سے فرمایا تھا: ”تم میرے لیے اپنی بیٹیاں اور بہنیں نہ پیش کیا کرو“ اسی طرح بیٹوں کی اولاد کی بیویاں بھی بیٹوں کی بیویوں جیسی ہیں۔ کیا اگر ربیہہ زیر پرورش نہ ہو تو اسے رہیبہ کا نا دیا جاسکتا ہے؟ نبی ﷺنے اپنی ربیبہ ایک ایسے شخص کے حوالے کی جو اس کی کفالت کرے، نبی ﷺ نے اپنی صاحبزادی کے بیٹے کو بیٹا کہا
حدیث ترجمہ:
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے زینب بنت ابی سلمہ نے اوران سے ام حبیبہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ﷺ ابو سفیان کی صاحبزادی (غرہ یا درہ یا حمنہ) کو چاہتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا پھر میں اس کے ساتھ کیا کروں گا؟ میں نے عرض کیا کہ اس سے آپ نکاح کر لیں۔ فرمایا کیا تم اسے پسند کروگی؟ میں نے عرض کیا میں کوئی تنہا تو ہوں نہیں اور میں اپنی بہن کےلئے یہ پسند کرتی ہوں کہ وہ بھی میرے ساتھ آپ کے تعلق میں شریک ہو جائے۔ اس پر آنحضرت نے فرمایا کہ وہ میرے لئے حلال نہیں ہے میں نے عرض کیا مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے (زینب سے) نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرما یا ام سلمہ کی لڑکی کے پاس؟ میں نے کہا کہ جی ہاں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا واہ واہ اگر وہ میری ربیبہ نہ ہوتی جب بھی وہ میرے لئے حلال نہ ہوتی۔ مجھے اور اس کے والد ابوسلمہ کو ثویبہ نے دودھ پلایا تھا۔ دیکھو تم آئندہ میرے نکاح کے لئے اپنی لڑکیوں اور بہنوں کو نہ پیش کیا کرو اور لیث بن سعد نے بھی اس حدیث کو ہشام سے روایت کیا ہے اس میں ابوسلمہ کی بیٹی کا نام درہ مذکور ہے۔
حدیث حاشیہ:
اور کسی روایت میں زینب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Habiba (RA) : I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Do you like to have (my sister) the daughter of Abu Sufyan (RA) ?" The Prophet (ﷺ) said, "What shall I do (with her)?" I said, "Marry her." He said, "Do you like that?" I said, "(Yes), for even now I am not your only wife, so I like that my sister should share you with me." He said, "She is not lawful for me (to marry)." I said, "We have heard that you want to marry." He said, "The daughter of Um Salama?" I said, "Yes." He said, "Even if she were not my stepdaughter, she should be unlawful for me to marry, for Thuwaiba suckled me and her father (Abu Salama). So you should neither present your daughters, nor your sisters, to me."