Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Superiority of offering As-Salat (the prayers) at the stated times)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
527.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا: اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نماز کی بروقت ادائیگی۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ’’والدین سے حسن سلوک۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: اس کے بعد کون سا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے اسی قدر بیان کیا، اگر میں مزید پوچھتا تو آپ اور بیان فرماتے۔
تشریح:
(1) حضرات صحابۂ کرام رسول اللہ ﷺ کا انتہائی ادب واحترام کرتے تھے۔ مذکورہ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اس اندیشے کے پیش نظر کہ مبادا آپ اکتا جائیں مزید سوالات سے گریز کیا، حالانکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حصول علم پر بہت حریص تھے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ کسی عالم دین سے سوالات کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں یہ اکتاہٹ میں مبتلا نہ ہوجائے۔ (2) بعض دیگر احادیث میں اور اعمال کو افضل قرار دیا گیا ہے؟ دراصل رسول اللہ ﷺ ہر شخص کو اس کی حالت و نفسیات اور استعداد ولیاقت کے مطابق جواب دیا کرتے تھے۔ بعض اوقات حالات کے تقاضے کے پیش نظر جواب مختلف ہو جاتا، مثلا: ابتدائے اسلام میں جہاد کی زیادہ ضرورت تھی، اس لیے بعض احادیث میں اسے افضل عمل قرار دیا گیا ہے۔ متعدد نصوص سے نماز کا، صدقہ و خیرات سے افضل ہونا ثابت ہے، لیکن اگر کوئی مجبورولاچار آدمی بھوک سے دوچار ہو تو اس وقت اس پر صدقہ کرنا نماز سے افضل قرار پائے گا۔ (فتح الباري: 14/2) (3) امام بخاری ؒ بعض اوقات تراجم کے ذریعے سے کسی مسئلے کا استنباط کرنے کے بجائے صرف حدیث کے معنی متعین کرتے ہیں۔ اس حدیث میں (الصلاة علی وقتها) کے الفاظ سے یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ نماز وقت سے پہلے ہو سکتی ہے، اس وہم کو دور کرنے کے لیے امام بخاری ؒ نے عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے (فضل الصلاة لوقتها) اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث میں لفظ علیٰ، لام کے معنی دے رہا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
523
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
527
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
527
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
527
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا: اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نماز کی بروقت ادائیگی۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ’’والدین سے حسن سلوک۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: اس کے بعد کون سا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے اسی قدر بیان کیا، اگر میں مزید پوچھتا تو آپ اور بیان فرماتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرات صحابۂ کرام رسول اللہ ﷺ کا انتہائی ادب واحترام کرتے تھے۔ مذکورہ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اس اندیشے کے پیش نظر کہ مبادا آپ اکتا جائیں مزید سوالات سے گریز کیا، حالانکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حصول علم پر بہت حریص تھے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ کسی عالم دین سے سوالات کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں یہ اکتاہٹ میں مبتلا نہ ہوجائے۔ (2) بعض دیگر احادیث میں اور اعمال کو افضل قرار دیا گیا ہے؟ دراصل رسول اللہ ﷺ ہر شخص کو اس کی حالت و نفسیات اور استعداد ولیاقت کے مطابق جواب دیا کرتے تھے۔ بعض اوقات حالات کے تقاضے کے پیش نظر جواب مختلف ہو جاتا، مثلا: ابتدائے اسلام میں جہاد کی زیادہ ضرورت تھی، اس لیے بعض احادیث میں اسے افضل عمل قرار دیا گیا ہے۔ متعدد نصوص سے نماز کا، صدقہ و خیرات سے افضل ہونا ثابت ہے، لیکن اگر کوئی مجبورولاچار آدمی بھوک سے دوچار ہو تو اس وقت اس پر صدقہ کرنا نماز سے افضل قرار پائے گا۔ (فتح الباري: 14/2) (3) امام بخاری ؒ بعض اوقات تراجم کے ذریعے سے کسی مسئلے کا استنباط کرنے کے بجائے صرف حدیث کے معنی متعین کرتے ہیں۔ اس حدیث میں (الصلاة علی وقتها) کے الفاظ سے یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ نماز وقت سے پہلے ہو سکتی ہے، اس وہم کو دور کرنے کے لیے امام بخاری ؒ نے عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے (فضل الصلاة لوقتها) اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث میں لفظ علیٰ، لام کے معنی دے رہا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، انھوں نے کہا کہ مجھے ولید بن عیزار کوفی نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابوعمرو شیبانی سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے اس گھر کے مالک سے سنا، (آپ عبداللہ بن مسعود ؓ کے گھر کی طرف اشارہ کر رہے تھے) انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے وقت پر نماز پڑھنا، پھر پوچھا، اس کے بعد، فرمایا والدین کے ساتھ نیک معاملہ رکھنا۔ پوچھا اس کے بعد، آپ نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے یہ تفصیل بتائی اور اگر میں اور سوالات کرتا تو آپ اور زیادہ بھی بتلاتے۔ (لیکن میں نے بطور ادب خاموشی اختیار کی۔)
حدیث حاشیہ:
دوسری حدیثوں میں جواور کاموں کو افضل بتایا ہے وہ اس کے خلاف نہیں، آپ ﷺ ہر شخص کی حالت اوروقت کا تقاضا دیکھ کر اس کے لیے جو کام افضل نظر آتاوہ بیان فرماتے، جہاد کے وقت جہاد کو افضل بتلاتے اور قحط و گرانی میں لوگوں کو کھانا کھلانا وغیرہ وغیرہ مگر نماز کا عمل ایسا ہے کہ یہ ہرحال میں اللہ کو بہت ہی محبوب ہے، جب کہ اسے آداب مقررہ کے ساتھ ادا کیاجائے اور نماز کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک بہترین عمل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): I asked the Prophet (ﷺ) "Which deed is the dearest to Allah?" He replied, "To offer the prayers at their early stated fixed times." I asked, "What is the next (in goodness)?" He replied, "To be good and dutiful to your parents" I again asked, "What is the next (in goodness)?" He replied, 'To participate in Jihad (religious fighting) in Allah's cause." 'Abdullah added, "I asked only that much and if I had asked more, the Prophet (ﷺ) would have told me more."