باب: اس بارہ میں کہ مال غنیمت سےپانچواں حصہ ادا کرنا بھی ایمان سے ہے
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: To pay Al-Khumus (one-fifth of the war booty to be given in Allah's Cause) is a part of faith)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
53.
حضرت ابوجمرہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس بیٹھا کرتا تھا۔ وہ مجھے خاص اپنے تخت پر بٹھاتے۔ ایک دفعہ کہنے لگے: تم میرے پاس کچھ روز اقامت کرو، میں تمہارے لیے اپنے مال میں سے کچھ حصہ مقرر کر دوں گا۔ تو میں ان کے ہاں دو ماہ تک اقامت پذیر رہا۔ پھر انہوں نے فرمایا: جب وفد عبدالقیس نبیﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ کون لوگ ہیں یا کون سے نمائندے ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ہم خاندان ربیعہ کے لوگ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’تم آرام کی جگہ آئے ہو، نہ ذلیل ہو گے اور نہ شرمندہ!‘‘ پھر ان لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم ماہ حرام کے علاوہ دوسرے دنوں میں آپ کے پاس نہیں آ سکتے کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا قبیلہ رہتا ہے، لہٰذا آپ خلاصے کے طور پر ہمیں کوئی ایسی بات بتا دیں کہ ہم اپنے پیچھے والوں کو اس کی اطلاع کر دیں اور ہم سب اس (پر عمل کرنے) سے جنت میں داخل ہو جائیں۔ اور انہوں نے آپ سے مشروبات کے متعلق بھی پوچھا تو آپ نے انہیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے منع کیا: آپ نے انہیں ایک اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’تم جانتے ہو، اکیلے اللہ پر ایمان لانا کیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی خوب واقف ہیں۔ آپ نے فرمایا:’’اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا اور کوئی لائق عبادت نہیں اور حضرت محمدﷺ اس کے رسول ہیں، نماز ٹھیک طریقے سے ادا کرنا، زکاۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنا۔‘‘ اور (شراب سازی کے) چار برتنوں، یعنی بڑے مٹکوں، کدو سے تیار کردہ پیالوں، لکڑی سے تراشے ہوئے لگن اور تارکول سے رنگے ہوئے روغنی برتنوں سے انہیں منع کیا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’ان باتوں کو یاد رکھو اور اپنے پیچھے والوں کو ان سے مطلع کر دو۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود ہےکہ جو اشیاء اجزا ئے ایمان ہیں، ان کے لیے ضروری نہیں کہ ان کا تعلق ایمان کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہو کیونکہ ادائے خمس ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق مستقل نہیں بلکہ جب مال غنیمت ہو گا تو اس سے خمس ادا کرنے کی ضرورت پڑے گی، نیز حدیث وفد عبدالقیس میں ایمان کے متعلق جو اجزاء بیان ہوئے ہیں ان پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جستہ جستہ عنوان قائم کر چکے ہیں، صرف ادائے خمس باقی تھا جس پر اب عنوان قائم کیا ہے۔ 2۔ اس حدیث میں کچھ مامورات ہیں اور کچھ منہیات ہیں۔ مامورات کے متعلق اجمالاً چار چیزوں کا حکم ہے لیکن شمار کرنے میں پانچ ہیں یعنی شہادت ،نماز، زکاۃ، روزہ اور ادائے خمس، دراصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار چیزوں کا حکم دیا اور چار ہی سے منع فرمایا اور ان دونوں کے دو دو درجے قائم کیے، ایک اجمال کا دوسرا تفصیل کا، امر کے سلسلے میں اجمال کا درجہ شہادت ہے جس کی تفصیل میں چار امر ذکر کیے گئے اور (نَهی)کے سلسلے میں اجمال یہ ہے کہ آپ نے مسکرات سے منع فرمایا ہے۔ اس کی تفصیل میں ان چار برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا: جن میں شراب کشید کی جاتی تھی یا ان میں اسے محفوظ کیا جاتا تھا۔ 3۔ حدیث جبرائیل میں جو چیزیں اسلام کے متعلق بیان فرمائیں وہی چیزیں حدیث عبد القیس میں ایمان کے متعلق ذکر کیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کی نظر میں اسلام اور ایمان ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور یہ سب چیزیں داخل ایمان ہیں ان کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ مال غنیمت سے خمس ادا کرنا بھی جزو ایمان ہے۔ اس سے مرجیہ کی تردید ہوتی ہے جو ایمان و تصدیق کے بعد اعمال کو کوئی حیثیت نہیں دیتے۔ 4۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ابو جمرہ کو اپنے ہاں قیام کرنے کی پیش کش فرمائی، پھرانھیں وظیفہ دینے کا وعدہ فرمایا، اس اعزاز واکرام کی چند ایک وجوہات تھیں: (1) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بصرے کے گورنر تھے اور ان کے پاس ہر قسم کے مقدمات آتے تھے۔ انھیں اس سلسلے میں فارسی زبان میں سماعت کی بھی ضرورت رہتی تھی۔ حضرت ابو جمرہ فارسی جانتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ان سے ترجمان کا کام لینا چاہتے تھے۔ (2) خود ابو جمرہ بیان کرتے ہیں کہ اس شفقت و مہربانی کی وجہ ایک خواب تھا، فرماتے ہیں کہ میں نے حج تمتع کا احرام باندھا ، لوگوں نے اعتراض کیا تو میں نے اس کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فتوی دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ درست ہے، پھر میں نے خواب میں یہ آواز سنی کہ حج مبرور اور عمرہ مقبول۔ میں نے اس کا تذکرہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کیا تو آپ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اس بنا پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے ہاں اقامت اور وظیفےکی پیش کش فرمائی۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1587) 5۔ قبیلہ عبدالقیس بحرین میں آباد تھا۔ وہاں منقذ بن حبان کے ذریعے سے اسلام پہنچا جو بحرین سے مدینہ منورہ بغرض تجارت کپڑا لائے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے۔ بحرین اور اہل بحرین کے حالات دریافت کیے۔ آپ نے اسلام پیش کیا، وہ مسلمان ہوگئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سورۃ فاتحہ اور ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾ سیکھیں اور آپ نے قبیلہ عبد القیس کے نام ایک خط بھی دیا گھر واپس پہنچے چند دن ایمان کو چھپائے رکھا نماز کا وقت ہوتا تو گھر میں پڑھ لیتے ، ان کی بیوی نے اپنے باپ منذر بن عائذ الاشج سے ان کا ذکر کیا، جب سسر نے اپنے داماد سے حقیقت حال دریافت کی تو پوری داستان سنا دی۔ یہ بھی مسلمان ہوگئے۔ پھر ان کی تبلیغ سے ایک جماعت نے اسلام قبول کر لیا اور 6 ہجری میں بارہ حضرات کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پھر 8 ہجری میں چالیس افراد پر مشتمل دوسرا وفد حاضر ہوا جن کا واقعہ متعلقہ حدیث میں مذکورہے۔ (فتح الباري: 173/1) مسجد نبوی میں اقامت جمعہ کے بعد پہلا جمعہ جواثی نامی گاؤں میں شروع کیا گیا جو بحرین میں واقع تھا اور یہ مسجد عبدالقیس ہی میں شروع ہوا تھا۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 892) 6۔ حرمت والے مہینوں سے مراد رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ہیں۔ کفار ان کی بے حد تعظیم کرتے تھے اور ان مہینوں میں کسی دوسرے پر دست درازی کرنے سے باز رہتے تھے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنے والے مہمان کو خوش آمدید کہنا اور خندہ پیشانی سے ملنا اسلامی ادب ہے نیز ایک مسلمان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ایمان و علم کی باتوں کو اپنے سینے میں محفوظ کرکے اسے دوسروں تک پہنچائے۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 87) 7۔ جن برتنوں میں شراب سازی منع تھی وہ یہ ہیں: حنتم: ’’سبز مٹکا‘‘ دُبا: ’’کدو کو اندر سے صاف کر کے پیالہ سا بنا لیا جاتا تھا۔‘‘نقیر: ’’لکڑی کے کھودے ہوئے لگن‘‘ مزفت: ’’تار کول سے روغن کیے ہوئے برتن ۔‘‘ یہ امتناعی حکم پہلے پہلے تھا، بعد میں اسے منسوخ کردیا گیا۔ فرمان نبوی ہے: ’’میں نے تمھیں مخصوص برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع کیا تھا۔اب تم ہر برتن میں نبیذ بنا سکتے ہو، لیکن نشہ آور سے اجتناب کرنا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5207 (977بعد 1999))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
53
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
53
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
53
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
53
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت ابوجمرہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس بیٹھا کرتا تھا۔ وہ مجھے خاص اپنے تخت پر بٹھاتے۔ ایک دفعہ کہنے لگے: تم میرے پاس کچھ روز اقامت کرو، میں تمہارے لیے اپنے مال میں سے کچھ حصہ مقرر کر دوں گا۔ تو میں ان کے ہاں دو ماہ تک اقامت پذیر رہا۔ پھر انہوں نے فرمایا: جب وفد عبدالقیس نبیﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ کون لوگ ہیں یا کون سے نمائندے ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ہم خاندان ربیعہ کے لوگ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’تم آرام کی جگہ آئے ہو، نہ ذلیل ہو گے اور نہ شرمندہ!‘‘ پھر ان لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم ماہ حرام کے علاوہ دوسرے دنوں میں آپ کے پاس نہیں آ سکتے کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا قبیلہ رہتا ہے، لہٰذا آپ خلاصے کے طور پر ہمیں کوئی ایسی بات بتا دیں کہ ہم اپنے پیچھے والوں کو اس کی اطلاع کر دیں اور ہم سب اس (پر عمل کرنے) سے جنت میں داخل ہو جائیں۔ اور انہوں نے آپ سے مشروبات کے متعلق بھی پوچھا تو آپ نے انہیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے منع کیا: آپ نے انہیں ایک اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’تم جانتے ہو، اکیلے اللہ پر ایمان لانا کیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی خوب واقف ہیں۔ آپ نے فرمایا:’’اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا اور کوئی لائق عبادت نہیں اور حضرت محمدﷺ اس کے رسول ہیں، نماز ٹھیک طریقے سے ادا کرنا، زکاۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنا۔‘‘ اور (شراب سازی کے) چار برتنوں، یعنی بڑے مٹکوں، کدو سے تیار کردہ پیالوں، لکڑی سے تراشے ہوئے لگن اور تارکول سے رنگے ہوئے روغنی برتنوں سے انہیں منع کیا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’ان باتوں کو یاد رکھو اور اپنے پیچھے والوں کو ان سے مطلع کر دو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود ہےکہ جو اشیاء اجزا ئے ایمان ہیں، ان کے لیے ضروری نہیں کہ ان کا تعلق ایمان کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہو کیونکہ ادائے خمس ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق مستقل نہیں بلکہ جب مال غنیمت ہو گا تو اس سے خمس ادا کرنے کی ضرورت پڑے گی، نیز حدیث وفد عبدالقیس میں ایمان کے متعلق جو اجزاء بیان ہوئے ہیں ان پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جستہ جستہ عنوان قائم کر چکے ہیں، صرف ادائے خمس باقی تھا جس پر اب عنوان قائم کیا ہے۔ 2۔ اس حدیث میں کچھ مامورات ہیں اور کچھ منہیات ہیں۔ مامورات کے متعلق اجمالاً چار چیزوں کا حکم ہے لیکن شمار کرنے میں پانچ ہیں یعنی شہادت ،نماز، زکاۃ، روزہ اور ادائے خمس، دراصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار چیزوں کا حکم دیا اور چار ہی سے منع فرمایا اور ان دونوں کے دو دو درجے قائم کیے، ایک اجمال کا دوسرا تفصیل کا، امر کے سلسلے میں اجمال کا درجہ شہادت ہے جس کی تفصیل میں چار امر ذکر کیے گئے اور (نَهی)کے سلسلے میں اجمال یہ ہے کہ آپ نے مسکرات سے منع فرمایا ہے۔ اس کی تفصیل میں ان چار برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا: جن میں شراب کشید کی جاتی تھی یا ان میں اسے محفوظ کیا جاتا تھا۔ 3۔ حدیث جبرائیل میں جو چیزیں اسلام کے متعلق بیان فرمائیں وہی چیزیں حدیث عبد القیس میں ایمان کے متعلق ذکر کیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کی نظر میں اسلام اور ایمان ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور یہ سب چیزیں داخل ایمان ہیں ان کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ مال غنیمت سے خمس ادا کرنا بھی جزو ایمان ہے۔ اس سے مرجیہ کی تردید ہوتی ہے جو ایمان و تصدیق کے بعد اعمال کو کوئی حیثیت نہیں دیتے۔ 4۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ابو جمرہ کو اپنے ہاں قیام کرنے کی پیش کش فرمائی، پھرانھیں وظیفہ دینے کا وعدہ فرمایا، اس اعزاز واکرام کی چند ایک وجوہات تھیں: (1) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بصرے کے گورنر تھے اور ان کے پاس ہر قسم کے مقدمات آتے تھے۔ انھیں اس سلسلے میں فارسی زبان میں سماعت کی بھی ضرورت رہتی تھی۔ حضرت ابو جمرہ فارسی جانتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ان سے ترجمان کا کام لینا چاہتے تھے۔ (2) خود ابو جمرہ بیان کرتے ہیں کہ اس شفقت و مہربانی کی وجہ ایک خواب تھا، فرماتے ہیں کہ میں نے حج تمتع کا احرام باندھا ، لوگوں نے اعتراض کیا تو میں نے اس کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فتوی دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ درست ہے، پھر میں نے خواب میں یہ آواز سنی کہ حج مبرور اور عمرہ مقبول۔ میں نے اس کا تذکرہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کیا تو آپ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اس بنا پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے ہاں اقامت اور وظیفےکی پیش کش فرمائی۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1587) 5۔ قبیلہ عبدالقیس بحرین میں آباد تھا۔ وہاں منقذ بن حبان کے ذریعے سے اسلام پہنچا جو بحرین سے مدینہ منورہ بغرض تجارت کپڑا لائے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے۔ بحرین اور اہل بحرین کے حالات دریافت کیے۔ آپ نے اسلام پیش کیا، وہ مسلمان ہوگئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سورۃ فاتحہ اور ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾ سیکھیں اور آپ نے قبیلہ عبد القیس کے نام ایک خط بھی دیا گھر واپس پہنچے چند دن ایمان کو چھپائے رکھا نماز کا وقت ہوتا تو گھر میں پڑھ لیتے ، ان کی بیوی نے اپنے باپ منذر بن عائذ الاشج سے ان کا ذکر کیا، جب سسر نے اپنے داماد سے حقیقت حال دریافت کی تو پوری داستان سنا دی۔ یہ بھی مسلمان ہوگئے۔ پھر ان کی تبلیغ سے ایک جماعت نے اسلام قبول کر لیا اور 6 ہجری میں بارہ حضرات کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پھر 8 ہجری میں چالیس افراد پر مشتمل دوسرا وفد حاضر ہوا جن کا واقعہ متعلقہ حدیث میں مذکورہے۔ (فتح الباري: 173/1) مسجد نبوی میں اقامت جمعہ کے بعد پہلا جمعہ جواثی نامی گاؤں میں شروع کیا گیا جو بحرین میں واقع تھا اور یہ مسجد عبدالقیس ہی میں شروع ہوا تھا۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 892) 6۔ حرمت والے مہینوں سے مراد رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ہیں۔ کفار ان کی بے حد تعظیم کرتے تھے اور ان مہینوں میں کسی دوسرے پر دست درازی کرنے سے باز رہتے تھے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنے والے مہمان کو خوش آمدید کہنا اور خندہ پیشانی سے ملنا اسلامی ادب ہے نیز ایک مسلمان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ایمان و علم کی باتوں کو اپنے سینے میں محفوظ کرکے اسے دوسروں تک پہنچائے۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 87) 7۔ جن برتنوں میں شراب سازی منع تھی وہ یہ ہیں: حنتم: ’’سبز مٹکا‘‘ دُبا: ’’کدو کو اندر سے صاف کر کے پیالہ سا بنا لیا جاتا تھا۔‘‘نقیر: ’’لکڑی کے کھودے ہوئے لگن‘‘ مزفت: ’’تار کول سے روغن کیے ہوئے برتن ۔‘‘ یہ امتناعی حکم پہلے پہلے تھا، بعد میں اسے منسوخ کردیا گیا۔ فرمان نبوی ہے: ’’میں نے تمھیں مخصوص برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع کیا تھا۔اب تم ہر برتن میں نبیذ بنا سکتے ہو، لیکن نشہ آور سے اجتناب کرنا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5207 (977بعد 1999))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انھوں نے ابوجمرہ سے نقل کیا کہ میں عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس بیٹھا کرتا تھا وہ مجھ کو خاص اپنے تخت پر بٹھاتے (ایک دفعہ ) کہنے لگے کہ تم میرے پاس مستقل طور پر رہ جاؤ میں اپنے مال میں سے تمہارا حصہ مقرر کر دوں گا۔ تو میں دو ماہ تک ان کی خدمت میں رہ گیا۔ پھر کہنے لگے کہ عبدالقیس کا وفد جب آنحضرت ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے پوچھا کہ یہ کون سی قوم کے لوگ ہیں یا یہ وفد کہاں کا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان کے لوگ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مرحبا اس قوم کو یا اس وفد کو نہ ذلیل ہونے والے نہ شرمندہ ہونے والے (یعنی ان کا آنا بہت خوب ہے) وہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول! ہم آپ کی خدمت میں صرف ان حرمت والے مہینوں میں آ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافروں کا قبیلہ آباد ہے۔ پس آپ ہم کو ایک ایسی قطعی بات بتلا دیجیئے جس کی خبر ہم اپنے پچھلے لوگوں کو بھی کر دیں جو یہاں نہیں آئے اور اس پر عمل درآمد کر کے ہم جنت میں داخل ہو جائیں اور انھوں نے آپ سے اپنے برتنوں کے بارے میں بھی پوچھا۔ آپ ﷺ نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار قسم کے برتنوں کو استعمال میں لانے سے منع فرمایا۔ ان کو حکم دیا کہ ایک اکیلے خدا پر ایمان لاؤ۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا کہ جانتے ہو ایک اکیلے خدا پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو معلوم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی مبعود نہیں اور یہ کہ حضرت محمد اس کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت سے جو ملے اس کا پانچواں حصہ (مسلمانوں کے بیت المال میں) داخل کرنا اور چار برتنوں کے استعمال سے آپ ﷺ نے ان کو منع فرمایا۔ سبز لاکھی مرتبان سے اور کدو کے بنائے ہوئے برتن سے، لکڑی کے کھودے ہوئے برتن سے، اور روغنی برتن سے اور فرمایا کہ ان باتوں کو حفظ کر لو اور ان لوگوں کو بھی بتلا دینا جو تم سے پیچھے ہیں اور یہاں نہیں آئے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
یہاں بھی مرجیہ کی تردید مقصود ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ مبارک پوری فرماتے ہیں: "ومذهب السلف في الإيمان من كون الأعمال داخلة في حقيقته، فإنه قد فسر الإسلام في حديث جبريل بما فسر به الإيمان في قصة وفد عبد القيس، فدل هذا على أن الأشياء المذكورة - وفيها أداء الخمس - من أجزاء الإيمان، وأنه لابد في الإيمان من الأعمال خلافاً للمرجئة." (مرعاۃ،جلد اول،ص: 45) یعنی سلف کا مذہب یہی ہے کہ اعمال ایمان کی حقیقت میں داخل ہیں آنحضرت ﷺ نے حدیث جبرئیل ؑ (مذکورہ سابقہ) میں اسلام کی جو تفسیر بیان فرمائی وہی تفسیر آپ نے وفدعبدالقیس کے سامنے ایمان کی فرمائی۔ پس یہ دلیل ہے کہ اشیاء مذکورہ جن میں مال غنیمت سے خمس ادا کرنا بھی ہے یہ سب اجزاء ایمان سے ہیں اور یہ کہ ایمان کے لیے اعمال کا ہونا لابدی ہے۔ مرجیہ اس کے خلاف ہیں۔ (جو ان کی ضلالت وجہالت کی دلیل ہے)۔ جن برتنوں کے استعمال سے آپ نے منع فرمایا ان میں عرب کے لوگ شراب رکھا کرتے تھے۔ جب شراب پینا حرام قرار پایا توچند روز تک آنحضرت ﷺ نے ان برتنوں کے استعمال کی بھی ممانعت فرما دی۔
یادرکھنے کے قابل: یہاں حضرت مولانامبارک پوری نے ایک یاد رکھنے کے قابل بات فرمائی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: "قال الحافظ: وفيه دليل على تقدم إسلام عبد القيس على قبائل مضر الذين كانوا بينهم وبين المدينة، ويدل على سبقهم إلى الإسلام أيضاً ما رواه البخاري في الجمعة عن ابن عباس قال: إن أول جمعة جمعت بعد جمعة في مسجد رسول الله - ﷺ - في مسجد عبد القيس بجواثي من البحرين، وإنما جمعوا بعد رجوع وفدهم إليهم، فدل على أنهم سبقوا جميع القرى إلى الإسلام - انتهى. واحفظه فإنه ينفعك في مسألة الجمعة في القرى." (مرعاۃ،جلد: اول،ص: 44) یعنی حافظ ابن حجر نے کہا کہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ عبدالقیس کا قبیلہ مضر سے پہلے اسلام قبول کرچکا تھا جو ان کے اور مدینہ کے بیچ میں سکونت پذیر تھے۔ اسلام میں ان کی سبقت پر بخاری کی وہ حدیث بھی دلیل ہے جو نماز جمعہ کے بارے میں حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ مسجد نبوی میں اقامت جمعہ کے بعد پہلا جمعہ جواثی نامی گاؤں میں جوبحرین میں واقع تھا، عبدالقیس کی مسجد میں قائم کیا گیا۔ یہ جمعہ انھوں نے مدینہ سے واپسی کے بعد قائم کیا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ وہ دیہات میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ اسے یاد رکھو یہ گاؤں میں جمعہ ادا ہونے کے ثبوت میں تم کو نفع دے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Jamra (RA): I used to sit with Ibn 'Abbas (RA) and he made me sit on his sitting place. He requested me to stay with him in order that he might give me a share from his property. So I stayed with him for two months. Once he told (me) that when the delegation of the tribe of 'Abdul Qais came to the Prophet, the Prophet (ﷺ) asked them, "Who are the people (i.e. you)? (Or) who are the delegate?" They replied, "We are from the tribe of Rabi'a." Then the Prophet (ﷺ) said to them, "Welcome! O people (or O delegation of 'Abdul Qais)! Neither will you have disgrace nor will you regret." They said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We cannot come to you except in the sacred month and there is the infidel tribe of Mudar intervening between you and us. So please order us to do something good (religious deeds) so that we may inform our people whom we have left behind (at home), and that we may enter Paradise (by acting on them)." Then they asked about drinks (what is legal and what is illegal). The Prophet (ﷺ) ordered them to do four things and forbade them from four things. He ordered them to believe in Allah Alone and asked them, "Do you know what is meant by believing in Allah Alone?" They replied, "Allah and His Apostle (ﷺ) know better." Thereupon the Prophet (ﷺ) said, "It means: 1. To testify that none has the right to be worshipped but Allah and Muhammad (ﷺ) is Allah's Apostle. 2. To offer prayers perfectly 3. To pay the Zakat (obligatory charity) 4. To observe fast during the month of Ramadan. 5. And to pay Al-Khumus (one fifth of the booty to be given in Allah's Cause). Then he forbade them four things, namely, Hantam, Dubba,' Naqir Ann Muzaffat or Muqaiyar; (These were the names of pots in which Alcoholic drinks were prepared) (The Prophet (ﷺ) mentioned the container of wine and he meant the wine itself). The Prophet (ﷺ) further said (to them): "Memorize them (these instructions) and convey them to the people whom you have left behind."