باب: اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں کو جن کی ہم نے تمہیں روزی دی ہے
)
Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: Eat of the lawful things that We have provided you with...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور فرمایا کہ اور خرچ کرو ان پاکیزہ چیزوں میںسے جو تم نے کمائی ہیں اوراللہ تعالیٰ نے سورۃ مومنون میں فرمایا کھاؤ پاکیزہ چیزوں میں سے اور نیک عمل کرو ، بے شک تم جو کچھ بھی کرتے ہو ان کو میں جانتا ہوں
5374.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: سیدنا محمد ﷺ کے اہل عیال نے تین دن متواتر کبھی کھانا سیر ہو کر نہیں کھایا حتیٰ کہ آپ کی روح قبض ہو گئی۔
تشریح:
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ نے کبھی گندم کی روٹی سے مسلسل تین دن تک پیٹ نہیں بھرا۔ (صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7444 (2970)) اس سے معلوم ہوا کہ مطلق طور پر سیر ہونے کی نفی نہیں بلکہ مسلسل تین دن گندم کی روٹی سے سیر ہونے کی نفی ہے۔ اس کا سبب غالباً کھانے پینے کی چیزوں کی کمی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ کھانا وغیرہ تو موجود ہوتا لیکن وہ دوسروں کو دے دیتے تھے اور اپنی ضروریات پر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دیتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن کبھی آپ نے جو کی روٹی سیر ہو کر نہ کھائی۔ (صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5414، و فتح الباري: 643/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5165
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5374
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5374
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5374
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں حلال اور پاک رزق کھانے کا حکم دیا ہے کیونکہ رزق حلال کا دعا اور عبادت سے گہرا تعلق ہے۔ جس طرح رزق حرام کے باعث دعا اور عبادت قبول نہیں ہوتی اسی طرح قبولیت دعا و عبادت کے لیے رزق حلال کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس شخص کا کھانا، پینا اور پہننا حرام کمائی سے ہو، اس کی دعا کس طرح قبول ہو۔" (صحیح مسلم، الزکاۃ، حدیث: 2346 (1015))
اور فرمایا کہ اور خرچ کرو ان پاکیزہ چیزوں میںسے جو تم نے کمائی ہیں اوراللہ تعالیٰ نے سورۃ مومنون میں فرمایا کھاؤ پاکیزہ چیزوں میں سے اور نیک عمل کرو ، بے شک تم جو کچھ بھی کرتے ہو ان کو میں جانتا ہوں
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: سیدنا محمد ﷺ کے اہل عیال نے تین دن متواتر کبھی کھانا سیر ہو کر نہیں کھایا حتیٰ کہ آپ کی روح قبض ہو گئی۔
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ نے کبھی گندم کی روٹی سے مسلسل تین دن تک پیٹ نہیں بھرا۔ (صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7444 (2970)) اس سے معلوم ہوا کہ مطلق طور پر سیر ہونے کی نفی نہیں بلکہ مسلسل تین دن گندم کی روٹی سے سیر ہونے کی نفی ہے۔ اس کا سبب غالباً کھانے پینے کی چیزوں کی کمی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ کھانا وغیرہ تو موجود ہوتا لیکن وہ دوسروں کو دے دیتے تھے اور اپنی ضروریات پر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دیتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن کبھی آپ نے جو کی روٹی سیر ہو کر نہ کھائی۔ (صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5414، و فتح الباري: 643/9)
ترجمۃ الباب:
نیز فرمان الہٰی: جو تم نے پاک کمائی کی ہے اس میں سے خرچ کرو۔“ اور فرمان الہیٰ: پاکیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو یقیناً پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو یقیناً میں اسے جو تم کرتے ہو خوب جاننے والا ہوں کا بیان
حدیث ترجمہ:
ہم سے یوسف بن عیسیٰ مروزی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابو حازم (سلمہ بن اشجعی) نے اور ان سے ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ حضور اکرم ﷺ کی وفات تک آل محمد ﷺ پر کبھی ایسا زمانہ نہیں گزرا کہ کچھ دن برابر انہوں نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا ہو اور اسی سند سے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The family of Muhammad did not eat their fill for three successive days till he died.