باب: جب بے پر کے تیر یا لکڑی کے عرض سے شکار مارا جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟
)
Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: The game killed by the broad side of Al- Mi'rad)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5477.
سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم شکار کے لیے سدھائے ہوئے کتے چھوڑتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ کر لے آئیں اسے کھا لو۔“ میں نے کہا: اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالیں؟ آپ نے فرمایا: ”اگرچہ وہ اسے مار ڈالیں۔“ میں نے عرض کیا : ہم نوکدار لکڑی سے بھی شکار کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اس کی دھار شکار کو زخمی کر کے چیر دے تو اسے کھا لو اور اگر لکڑی عرض کے بل لگے تو اسے نہ کھاؤ۔“
تشریح:
(1) شکاری کتے کے شکار کے متعلق دو شرطیں ہیں: اگر اسے چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھی تھی اور اس نے شکاری کے لیے اس شکار کو روکے رکھا، اس سے خود نہیں کھایا تو ایسے شکار کو کھانا جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ رکھیں اسے کھاؤ اور اس جانور کو اللہ کا نام لے کر چھوڑو۔‘‘ (المائدة: 5/5) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوک دار لکڑی سے کیے ہوئے شکار کی دو حالتیں ہیں: اگر نوک یا تیز دھار لگنے سے شکار مر جائے تو اسے کھانا جائز ہے اور اگر چوڑائی کے بل لگنے سے شکار مرا ہے تو اس کا کھانا جائز نہیں ہے جبکہ امام اوزاعی، مکحول اور شام کے فقہا رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ جو شکار نوک دار لکڑی سے کیا جائے، اسے مطلق طور پر کھانا جائز ہے، خواہ وہ عرض کے بل لگنے سے پھٹ جائے یا نوک اور دھار لگنے سے کٹ جائے، اسی طرح حضرت ابو درداء اور فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بھی اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے۔ (عمدة القاري: 478/14) بہرحال حدیث میں اس کی تفصیل ہے، اس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5267
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5477
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5477
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5477
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم شکار کے لیے سدھائے ہوئے کتے چھوڑتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ کر لے آئیں اسے کھا لو۔“ میں نے کہا: اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالیں؟ آپ نے فرمایا: ”اگرچہ وہ اسے مار ڈالیں۔“ میں نے عرض کیا : ہم نوکدار لکڑی سے بھی شکار کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اس کی دھار شکار کو زخمی کر کے چیر دے تو اسے کھا لو اور اگر لکڑی عرض کے بل لگے تو اسے نہ کھاؤ۔“
حدیث حاشیہ:
(1) شکاری کتے کے شکار کے متعلق دو شرطیں ہیں: اگر اسے چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھی تھی اور اس نے شکاری کے لیے اس شکار کو روکے رکھا، اس سے خود نہیں کھایا تو ایسے شکار کو کھانا جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ رکھیں اسے کھاؤ اور اس جانور کو اللہ کا نام لے کر چھوڑو۔‘‘ (المائدة: 5/5) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوک دار لکڑی سے کیے ہوئے شکار کی دو حالتیں ہیں: اگر نوک یا تیز دھار لگنے سے شکار مر جائے تو اسے کھانا جائز ہے اور اگر چوڑائی کے بل لگنے سے شکار مرا ہے تو اس کا کھانا جائز نہیں ہے جبکہ امام اوزاعی، مکحول اور شام کے فقہا رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ جو شکار نوک دار لکڑی سے کیا جائے، اسے مطلق طور پر کھانا جائز ہے، خواہ وہ عرض کے بل لگنے سے پھٹ جائے یا نوک اور دھار لگنے سے کٹ جائے، اسی طرح حضرت ابو درداء اور فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بھی اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے۔ (عمدة القاري: 478/14) بہرحال حدیث میں اس کی تفصیل ہے، اس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے ہمام بن حارث نے اور ان سے عدی بن حاتم ؓ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم سکھائے ہوئے کتے (شکار پر) چھوڑتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ جو شکار وہ صرف تمہارے لیے رکھے اسے کھاؤ۔ میں نے عرض کیا اگرچہ کتے شکار کو مار ڈالیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا (ہاں) اگر چہ مار ڈالیں! میں نے عرض کیا کہ ہم بے پر کے تیر یا لکڑی سے شکار کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اگر ان کی دھار اس کو زخمی کر کے پھاڑ ڈالے تو کھاؤ لیکن اگر ان کے عرض سے شکار مارا جائے تو اسے نہ کھاؤ (وہ مر دار ہے)
حدیث حاشیہ:
جمہور علماء کا فتویٰ اس حدیث پر ہے اورابو شعبہ والی حدیث جسے ابوداؤد نے روایت کیا، وہ ضعیف ہے اور یہ عدی رضی اللہ عنہ کی حدیث قوی ہے۔ اس پر عمل کرنا اولیٰ ہے۔ حضرت عدی رضی اللہ عنہ بھی اپنے باپ حاتم کی طرح سخاوت میں مشہور ہیں۔ یہ فتح مکہ کے سال مسلمان ہوئے اور یہ اپنی قوم سمیت اسلام پر ثابت قدم رہے اور عراق کی فتوحات میں شریک رہے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے اور 68 سال کی عمر پائی (فتح الباری)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Adi bin Hatim (RA) : I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We let loose our trained hounds after a game?" He said, "Eat what they hunt for you." I said, "Even if they killed (the game)?" He replied, 'Even if they killed (the game)." I said, 'We also hit (the game) with the Mi'rad?" He said, "Eat of the animal which the Mi'rad kills by piercing its body, but do not eat of the animal which is killed by the broad side of the Mi'rad.''